انتخابی مہم میں نفرت کی انتہا

مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانیے

0

نوراللہ جاوید، کولکاتا

فرقہ واریت کا ڈیجیٹل فروغ ۔ فیس بک اور میٹا نفرت پھیلانے والوں کے مددگار!
ٹاٹا انسٹیٹیوٹ کی متنازعہ رپورٹ۔ممبئی میں آباد مسلمانوں کو بنگلہ دیشی اور درانداز ثابت کرنے کی کوشش
مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات کی مہم شباب پر ہے۔ انتخابات جیتنے کے لیے سیاسی جماعتوں نے اپنی پوری قوت جھونک دی ہے۔ مرکزی وزرا اور بی جے پی کے زیرِ اقتدار ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بشمول وزیرِ اعظم نریندر مودی ان دونوں ریاستوں میں انتخابات جیتنے کے لیے جس طرح سے محنت کر رہے ہیں وہ کوئی بے نظیر بات نہیں ہے۔ وہ گزشتہ دس سالوں کے دوران یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔ مودی نے ہر انتخابات کو اپنی مقبولیت کے لیے چیلنج کے طور پر لیا ہے اور جیت کے لیے اخلاقی و غیر اخلاقی ہر طرح کے حربے کو آزمایا۔ بلکہ بی جے پی اپنی عیارانہ سازشوں کو سیاسی حکمت عملی کا نام دے کر جواز بخشتی رہی ہے۔ "جنگ میں سب کچھ جائز ہے” کے مقولے کا حوالہ دینے والے دراصل فسطائی ذہنیت کے حاملین ہیں۔ مسلم مخالف بیانات، انتہا پسندانہ جذبات کا اظہار کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ گزشتہ تین چار دہائیوں سے بی جے پی نفرت انگیز مہم کے ذریعے ہی انتخابات جیتنے کی حکمت عملی پر کام کرتی رہی ہے۔ لیکن مہاراشٹر اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کے لیڈر جس طرح کے جارحانہ بیانات دے رہے ہیں اس سے بی جے پی نہایت نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان بیانات کو صرف اس لیے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ یہ اور مسلمانوں سے متعلق گمراہ کن دعوے انتخابی مہم کا حصہ ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ نیلی قتل عام کا واقعہ رونما ہونے کے پیچھے وجوہات کیا تھیں؟ نیلی میں مسلمانوں کو قتل کرنے والے کون لوگ تھے؟ ان کو کس نے کام کے لیے اکسایا تھا؟ وہ کس پروپیگنڈے سے متاثر تھے؟ نیلی قتل عام کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور قبائلی پروپیگنڈے کا شکار تھے۔ ان کے دل و دماغ کو مسموم بنا دیا گیا تھا اور انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ بنگلہ دیشی مسلمان ان کی زمینوں و جائیدادوں پر قبضہ کر لیں گے۔ اب جھارکھنڈ کے سنتھال پرگنہ میں قبائلیوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیشی درانداز قبائلیوں کی زمین پر قبضہ کر رہے ہیں، قبائلیوں کی آبادی کم ہو رہی ہے، مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور بنگلہ دیش کے مسلمان قبائلی خواتین سے شادیاں کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں آبادی کا تناسب تبدیل ہو رہا ہے۔ جھارکھنڈ کے بعد مہاراشٹر میں بھی بنگلہ دیشی دراندازی اور روہنگیاوں کا مسئلہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے ان صفحات میں جھارکھنڈ میں مسلمانوں اور قبائلیوں کی آبادی کی حقیقت پر روشنی ڈالی جا چکی ہے۔
جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں بہت سی چیزیں مماثلت رکھتی ہیں۔ دونوں ریاستوں میں دو اتحادیوں کے درمیان مقابلہ ہے۔ دونوں ریاستوں میں کوئی بھی سیاسی جماعت تمام سیٹوں پر انتخاب نہیں لڑ رہی ہے۔ تاہم مہاراشٹر کے مقابلے میں جھارکھنڈ میں بی جے پی کی پوزیشن کچھ زیادہ بہتر دکھائی دے رہی ہے کیونکہ یہاں قبائلی چھبیس فیصد اور مسلم ووٹ پندرہ فیصد ہیں۔ بی جے پی کو خوف ہے کہ مسلمانوں اور قبائلیوں کے اتحاد کی صورت میں بی جے پی کا اقتدار میں آنا مشکل ہو سکتا ہے، چنانچہ پوری توجہ قبائلیوں اور مسلمانوں کے درمیان دراڑیں ڈالنے پر مرکوز ہے۔ بی جے پی نے جو انتخابی منشور جاری کیا ہے اس میں جھارکھنڈ میں یونیفارم سِول کوڈ سے قبائلیوں کو الگ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے فلاحی اسکیموں کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے قبل وہ این آر سی کے نفاذ کا بھی اعلان کر چکی ہے۔ اس کے جواب میں انڈیا اتحاد نے قبائلیوں کے لیے سرنا مذہب کو منظوری دینے کا اعلان کیا ہے۔ 2020ء میں جھارکھنڈ اسمبلی نے اس پر ریزولیوشن پاس کیا تھا مگر اب تک نافذ نہیں ہو سکا ہے۔ گو کہ بی جے پی سیاسی نفع و نقصان کے تناظر میں اس کی حمایت کرتی ہے مگر آر ایس ایس اس کی شدید مخالف رہی ہے۔ آر ایس ایس اس کو ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے سربراہ و وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے قومی مردم شماری میں سرنا قبائلی مذہب (فطرت کی عبادت کے ارد گرد مرکوز) کو شامل کرنے اور قبائلیوں کے لیے سرنا کوڈ کو لاگو کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
قبائلی برسوں سے خود کو ایک الگ گروہ کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ وہ الگ ثقافت، مذہبی اور سماجی شناخت کے حامل ہیں۔ 1941 تک مردم شماری میں قبائلیوں کا الگ کالم تھا اور اسے 1951 کی مردم شماری میں ہٹا دیا گیا اور ان کی شناخت ہندو کے طور پر کی گئی تھی۔ 2011 کی مردم شماری میں، جو چھ تسلیم شدہ مذاہب کا حصہ نہیں ہیں، ان کے پاس دوسرے مذہب کو منتخب کرنے کا اختیار تھا اور تقریباً پچاس لاکھ افراد نے اپنا نام دوسرے کالم میں قبائلی کے طور پر درج کرایا ہے۔ آر ایس ایس قبائلیوں کو ہندو مانتی ہے۔ اس کی ایک ذیلی تنظیم ’’ونواسی کلیانی آشرم‘‘ قبائلیوں کو ہندوؤں میں ضم کرنے کے لیے مختلف پروگرام کرتی ہے۔ اس کی ایک اور ذیلی تنظیم ’’جن جاتی بچاؤ منچ‘‘ قبائلیوں میں کام کرتی ہے۔ منچ کے بہار اور جھارکھنڈ کے علاقائی کنوینر سندیپ اوراون کہتے ہیں کہ سرنا کوڈ کے نفاذ سے کئی سطحوں پر مسائل پیدا ہوں گے۔ آئین نے شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کو خصوصی حقوق دیے ہیں۔ جب یہ قبائلی سرنا نامی مذہب کے طور پر خود کی شناخت بنائیں گے تو وہ مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور جینیوں کی طرح اقلیت بن جائیں گے۔ انہیں آئینی حقوق کا فائدہ کیسے ملے گا؟ ہم قبائلی برادری میں بیداری لانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ کس طرح سرنا کوڈ ان کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتا ہے کیونکہ اس سے مزید تبدیلیاں پیدا ہوں گی اور ان کی قبائلی شناخت ختم ہو جائے گی۔ اس کے باوجود اگر بی جے پی قبائلیوں کے لیے سرنا کوڈ کی حمایت کر رہی ہے تو وہ ووٹ کی مجبوری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس سے تو کم از کم یہ واضح ہو گیا کہ بی جے پی اقتدار کے لیے اپنے بنیادی اصولوں سے بھی سمجھوتہ کر سکتی ہے اور دوسری طرف وہ آر ایس ایس کے ایجنڈے سے خود کو الگ بھی نہیں کر سکتی ہے۔ وہ بی جے پی قبائلیوں کو مسلمانوں کو الجھانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ سرنا کوڈ پر گفتگو کرنے کا کوئی موقع ہی نہ ملے۔ اس لیے فرقہ واریت کو بڑھانے کے لیے بی جے پی کروڑوں روپے اشتہارات پر خرچ کر رہی ہے اور فیس بک کے ذریعے جو اشتہارات دے رہی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فیس بک کی ملکیت والی کمپنی میٹا نے بھی اپنے پلیٹ فارم کو نفرت انگیز مہم چلانے والوں کے سپرد کر دیا ہے۔
ٹیک جسٹس لاء پروجیکٹ، انڈین امریکن مسلم کونسل، انڈیا سِول واچ انٹرنیشنل، ہندوس فار ہیومن رائٹس اور دلت یکجہتی فورم نے محض دو دن قبل چھ نومبر 2024 کو اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں بی جے پی کے نفرت انگیز ایجنڈے اور الیکشن کمیشن کے اس پورے معاملے سے صرفِ نظر کو بے نقاب کیا ہے۔ فیس بک پر دستیاب اعداد و شمار کے جائزے پر مبنی اس رپورٹ میں دو چیزوں کا انکشاف کیا گیا ہے: نمبر ایک، بی جے پی خفیہ طور پر کروڑوں روپے فرقہ واریت کا زہر پھیلانے اور سوشل میڈیا پر قبائلی وزیر اعلیٰ کو غیر انسانی شخص ثابت کرنے کے لیے خرچ کر رہی ہے۔ نمبر دو، وہ فیس بک پر بے شمار شیڈو صفحات اور اکاؤنٹس کھول رہی ہے۔ شیڈو اکاؤنٹس وہ ہوتے ہیں جو کسی خاص سیاسی جماعت کو فروغ دینے کے لیے کام کرتے ہیں لیکن براہ راست اس کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
گزشتہ تین مہینوں میں بی جے پی نے فیس بک پر سیاسی اشتہارات پر سوا دو کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ اس میں سے آدھی رقم اس کے آفیشل پیج نے خرچ کر کے تین ہزار ایک سو اشتہارات شائع کیے ہیں، ان اشتہارات نے تقریباً دس کروڑ افراد تک رسائی حاصل کی ہے۔ اسی وقت تقریباً پندرہ ہزار اشتہارات شیڈو پیجز کے ذریعے ستاسی لاکھ روپے خرچ کر کے پھیلائے گئے ہیں جنہیں تقریباً پینتالیس کروڑ بار دیکھا گیا ہے۔ تحقیق میں ایسے نوے شیڈو اکاؤنٹس کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں سے اہم جھارکھنڈ چوپال اور اس سے منسلک دیگر چوپال اکاؤنٹس ہیں۔ بی جے پی کا آفیشل پیج سیاسی اشتہارات کو آگے بڑھاتا ہے اور یہ شیڈو اکاؤنٹس تفرقہ انگیز مواد پوسٹ کرتے ہیں، بشمول ہیمنت سورین حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے خلاف اشتہارات (تفصیلات ضمیمہ میں) کی چار اہم اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے: پہلا، جو مسلمانوں کو دشمن کے طور پر پیش کرتا ہے۔ دوسرا جو فرقہ وارانہ تقسیم کو فروغ دیتا ہے۔ تیسرا، جھارکھنڈ کے قبائلی وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو ایک درندے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کے سر پر سینگ ہیں۔ اور چوتھا، در اندازوں کے بارے میں سازشی نظریات کے ساتھ۔ ان پوسٹوں کے ذریعے قارئین کو ہیمنت سورین حکومت اور انڈیا اتحاد کے خلاف اکسایا کیا گیا ہے۔ اس طرح کے تقریباً نوے شیڈو پیجز ریاست بھر میں کام کر رہے ہیں جو بی جے پی کے اشتہارات کی تعداد سے پانچ گنا زیادہ پوسٹ کرتے ہیں اور چار گنا زیادہ آن لائن تاثرات حاصل کرتے ہیں۔ اکاؤنٹس پر گردش کرنے والی فرقہ وارانہ ویڈیوز میں سے ایک میں بھگوا کپڑوں میں ملبوس لوگوں کے ایک گروپ کو ہندوؤں کی شکل میں اور سبز لباس میں ملبوس ایک دوسرے گروپ کو مسلمانوں کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ہندو گروپ پہلے مسلم گروپ سے بھاگتا ہے پھر ہندو گروپ سے متحد ہو کر مسلمانوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔ ویڈیو کے ذریعے شیئر کیا گیا بنیادی سبق یہ ہے کہ اگر ہندو متحد ہو جائیں تو وہ مسلمانوں کو ختم کر سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان فیس بک پیجز پر بی جے پی کا نام یا انتخابی نشان نہیں ہے، لیکن ان کے یہ پوسٹس اس کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو اجاگر کرتے ہیں۔ فیس بک ان کو پھیلاتے ہوئے پیسہ کما رہا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صفحات پر فراہم کردہ موبائل نمبرز، ویب سائٹس اور ایڈریس جعلی تھے۔ بی جے پی کے مقابلے میں دیگر پارٹیوں نے بامعاوضہ اشتہارات کے لیے سوشل میڈیا پر بمشکل ہی پیسہ خرچ کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ ضابطہ اخلاق اور انتخابی قوانین کا اطلاق سوشل میڈیا پر بھی ہوتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے بی جے پی کو فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے اور ووٹروں کو مذہبی بنیادوں پر پولرائز کرنے کے لیے شیڈو پیجز کا استعمال کرنے کی آزادی دے رکھی ہے۔
مہاراشٹر میں نفرت انگیز اور دراندازی کا سوال حاوی
مہاراشٹر کی سیاست گزشتہ پانچ سالوں سے غیر یقینی صورت حال سے دوچار رہی ہے۔ 2019 میں بی جے پی اور شیو سینا اتحاد وزرائے اعلیٰ کے سوال پر ٹوٹ گیا جب کہ یہ اتحاد ملک کے سیاسی اتحاد میں سب سے پرانا اتحاد تھا۔ کانگریس، این سی پی اور شیو سینا نے حیرت انگیز طور پر ایک ساتھ آنے کا فیصلہ کیا جب کہ نظریاتی طور پر شیو سینا اور کانگریس کا اتحاد نہ صرف حیرت انگیز بلکہ چونکا دینے والا تھا مگر اچانک بی جے پی نے پہلے شیو سینا میں توڑ پھوڑ کرکے مہاراشٹر میں حکومت سازی میں کامیاب ہوگئی، اس کے بعد این سی پی میں توڑ پھوڑ کروادی گئی۔ مہاراشٹر اقتصادی طور پر ملک کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔ ملک کی جی ڈی پی کا سب سے زیادہ حصہ مہاراشٹر سے ہی آتا ہے۔ دوسری طرف مہاراشٹر عدم مساوات کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ کسان اسی ریاست میں خودکشی کرتے ہیں۔ اس کے کئی علاقے انتہائی غربت کے شکار ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کارخانے بند ہونے کی وجہ سے بے روزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ گجرات لابی نے کئی پروجیکٹس کو گجرات منتقل کیا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری، جس نے کسی دور میں ممبئی کو ممبئی بنانے میں کردار ادا کیا تھا، وہ اب دم توڑ رہا ہے۔ مہاراشٹر پر قرض کا اضافہ ہو رہا ہے۔ مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں گرامین بینک اور کوآپریٹیو سوسائٹیاں جو ایک زمانے میں اقتصادی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتی تھیں وہ بھی انتشار کا شکار ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال کوئی ایک سال میں پیدا نہیں ہوئی ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے کانگریس براہ راست اقتدار میں نہیں ہے۔ درمیان کے دو سال کو چھوڑ کر بی جے پی اقتدار میں ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشی عدم توازن نے مہاراشٹر کی شناخت کو ختم کر دیا ہے۔ چنانچہ اس ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے جو فلاحی اسکیموں کے نام پر ریوڑیوں کی تقسیم کی گئی ہے، وہ پولرائزنگ کی طویل مدتی کوشش کا حصہ ہے۔
انڈیا ہیٹ لیب واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک تحقیقی گروپ ہے جسے صحافیوں، ماہرین تعلیم اور محققین کی ایک ٹیم چلاتی ہے۔ اس نے اپنی رپورٹ "Critical Year for Hate Speech in India” میں 2023 میں اٹھارہ ریاستوں اور تین مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں میں مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے نفرت انگیز تقریر کے 668 واقعات کو نوٹ کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں نفرت انگیز تقریر کے واقعات سب سے زیادہ ہیں۔ یہ دستاویز کرتی ہے کہ نفرت انگیز تقریر کے کل 668 واقعات میں سے 453 (68 فیصد) بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں پیش آئے۔ نفرت انگیز تقاریر کے سب سے زیادہ واقعات مہاراشٹر میں ایک سو اٹھارہ، اس کے بعد اتر پردیش میں ایک سو آٹھ، ہریانہ میں اڑتالیس، اتراکھنڈ میں اکتالیس، کرناٹک میں چالیس، گجرات اکتیس، چھتیس گڑھ اکیس اور بہار میں دس ہیں۔ مہاراشٹر سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2024 میں آنے والے ریاستی انتخابات کے ساتھ، مذہبی پولرائزیشن کرنے کی جان بوجھ کر کوشش کی جا رہی ہے۔
چوں کہ مہاراشٹر کئی اصلاحی تحریکوں کا مرکز بھی رہا ہے، اس لیے لوک سبھا انتخابات کے دوران اس نفرت انگیز مہم سے بی جے پی اتحاد کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا، مگر اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ اسمبلی انتخابات کے دوران یہ حکمت عملی کام نہیں کرے گی۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے جس طرح کی زبان کا استعمال کیا ہے، وہ مسلمانوں کے لیے الارم ہے اور ساتھ ہی یہ اکثریتی طبقے کو نفسیاتی مریض بنانے کی بھی کوشش ہے۔ اگرچہ بعد میں وزیر اعظم مودی نے اس بیان کی شدت کو جملے کی ہیرا پھیری سے کم کرنے کی کوشش کی اور نام نہاد سیکولر جماعت اجیت پوار کی این سی پی کو منہ دکھانے کے قابل بنایا۔ مہاراشٹر میں کارخانوں کا بند ہونا، بے روزگاری، کسانوں کی خودکشی، اقتصادی ناہمواری، شہروں پر آبادی کے بوجھ میں اضافہ، سیاست دانوں اور کارپوریٹ گھرانوں کا گٹھ جوڑ اور ترقی کے نام پر شہروں کو دو حصوں میں تقسیم کر دینا اہم ایشوز ہیں جن پر انتخابی مہم کے دوران بات ہونی چاہیے۔ مگر وزیر اعظم سمیت این ڈی اے کے لیڈر اپنے ترقیاتی کاموں اور منصوبوں پر بات کرنے کے بجائے "ایک رہو گے تو محفوظ رہو گے”، بنگلہ دیشی دراندازی، اور ہندو مسلم سیاست کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ بی جے پی اور اتحادیوں کے پاس ان مسائل پر بات کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
انتخابی مہم کے دوران ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ممبئی میں 2050 تک مسلم آبادی اڑتالیس فیصد پہنچ جائے گی اور ہندو آبادی باون فیصد تک کم ہو جائے گی۔ اس مطالعے کو ٹاٹا انسٹیٹیوٹ کے پرو وائس چانسلر شنکر داس اور اسسٹنٹ پروفیسر سووک منڈل نے کیا ہے۔ عبوری مطالعہ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہ غیر قانونی تارکین وطن تعمیرات اور گھریلو کام جیسے شعبوں میں کم ہنر مند ملازمتیں لیتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی کم ہنر مند کارکنوں میں اجرت پر دباؤ اور ناراضگی پیدا ہو رہی ہے۔ کچھ سیاسی ادارے مبینہ طور پر غیر قانونی تارکین وطن کو ووٹ بینک کی سیاست کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کے لیے بنگلہ دیشی دراندازوں اور روہنگیاوں کو ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے۔ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد بی جے پی اور اس کیا حامی میڈیا واویلا مچا رہا ہے، مگر رپورٹ کی صداقت، حقانیت اور چیک اینڈ بیلنس پر توجہ نہیں دی گئی۔
سب سے اہم سوال ٹاٹا انسٹیٹیوٹ پر ہے۔ عمومی طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ ٹاٹا گروپ کے زیر انتظام چلتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ اس کے نصف اخراجات یو جی سی اور ٹاٹا ایجوکیشن برداشت کرتے ہیں۔ یہ ایک ڈیمڈ یونیورسٹی ہے۔ حالیہ برسوں میں ٹاٹا انسٹیٹیوٹ کئی بحرانوں سے دوچار رہی ہے۔ بڑے پیمانے پر ملازمین کی کٹوتی کی گئی ہے اور ادارے کی آزادی اور خود مختاری پر حملے ہوئے ہیں اور اس کے بھگوا رنگ میں رنگنے کا عمل جاری ہے۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اس مطالعے کا حجم کیا ہے۔ محققین کی ٹیم نے تقریباً تین ہزار تارکین وطن کا مطالعہ کیا ہے لیکن عبوری رپورٹ ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے قبل صرف تین سو کے نمونے کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تارکین وطن زیادہ تر دھاراوی، گوونڈی، مانخود، ماہم ویسٹ، اور امبیڈکر نگر میں رہائش پذیر ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ممبئی جیسے کثیر الآبادی شہر میں محض تین سو افراد کے نمونے پر یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ممبئی میں جلد ہی ہندو آبادی اقلیت میں آ جائے گی۔ یہ واضح ہے کہ اس کا مقصد انتخابی عمل کو متاثر کرنا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا نے پانچ نومبر 2024 کو اس رپورٹ کے حوالے سے رپورٹنگ کا اختتام ٹاٹا انسٹیٹیوٹ کے ایک فیکلٹی ممبر کے حوالے سے کیا ہے کہ "پراجیکٹ کا ڈیزائن انتہائی خراب ہے۔ ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کوئی محقق یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ ممبئی میں رہنے والا کوئی بنگلہ دیشی یا روہنگیا ہے۔”
اہم سوال یہ ہے کہ رپورٹ کے مرتبین نے کس طریقے سے تین سو دراندازوں کو شناخت کیا اور ان سے انٹرویو کیا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری گزشتہ دس سالوں سے بی جے پی کے مرکزی وزراء کی ہے، تو پھر روہنگیا اور بنگلہ دیشی بھارت میں داخل کیسے ہو رہے ہیں؟ ٹاٹا انسٹیٹیوٹ 2011 اور 2013 میں مسلمانوں کی اقتصادی صورت حال پر تفصیلی سروے کر چکا ہے۔ 2022 میں ایکناتھ شندے نے ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کو مسلمانوں کی صورت حال پر سروے کرنے کی ذمہ داری دی تھی۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ان رپورٹوں کا کیا ہوا؟ کیا حکومت نے ان رپورٹوں کی سفارشات پر عمل کیا؟
جھارکھنڈ اور مہاراشٹر اسمبلی انتخابات نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کی بے عملی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما سمیت بی جے پی کے تمام بڑے سیاستدان نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقریریں کر کے ووٹروں کو مذہبی بنیادوں پر پولرائز کر رہے ہیں اور ووٹ مانگ رہے ہیں۔ ضابطہ اخلاق کی اس سنگین خلاف ورزی کے خلاف چیف الیکٹورل آفیسر کو متعدد شکایات کرنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کے پارٹی دفتر کی طرح کام کر رہا ہے۔
ہریانہ اسمبلی انتخابات کے جو نتائج آئے، اس کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں کیا ہونے والا ہے۔ سیاست سے لاتعلقی کا دعویٰ کرنے والی آر ایس ایس نے اپنے کیڈر کو انتخابی تیاریوں کے لیے متحرک کر دیا ہے۔ بی جے پی کی پولرائزیشن اور ذات پات کی بنیاد پر صف بندی کی حکمت عملی کے ساتھ آر ایس ایس اور ہندو تنظیموں کی تحریک جیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مگر سوال کسی بھی سیاسی جماعت کی جیت اور ہار سے زیادہ ریاست اور ملک کے مستقبل کا ہے۔ بی جے پی کی نفرت انگیز مہم کے مقابلے میں چند افراد، جن میں یوگیندر یادو زمینی سطح پر متحرک ہیں، اسی طرح CJP جیسی تنظیمیں نفرت انگیز تقاریر کے خلاف قانونی کارروائی کر رہی ہیں۔ اسی طرح نفرت انگیز جرائم پر رپورٹنگ کرنے والی ہندوتوا واچ کی ویب سائٹ حکومت کی کارروائی کا نشانہ بنی ہے۔ تاہم یہ تمام کوششیں دائیں بازو کے مقابلے میں کمزور اور انتہائی محدود ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابی نتائج کی پروا کیے بغیر ہندتوا کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کیا جائے۔ مسلمانوں کو خطرے کے طور پر پیش کرنے کے بیانیے کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ جماعت اسلامی ہند نے افہام و تفہیم کے لیے پیش بندی کی ہے۔
***

 

***

 جھارکھنڈ اور مہاراشٹر اسمبلی انتخابات نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کی بے عملی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما سمیت بی جے پی کے تمام بڑے سیاستدان نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقریریں کر کے ووٹروں کو مذہبی بنیادوں پر پولرائز کر رہے ہیں اور ووٹ مانگ رہے ہیں۔ ضابطہ اخلاق کی اس سنگین خلاف ورزی کے خلاف چیف الیکٹورل آفیسر کو متعدد شکایات کرنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کے پارٹی دفتر کی طرح کام کر رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024