! انتخابی عمل میں شفافیت سے گریز جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ
سول سوسائٹی اور جمہوریت پسند اداروں کو واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنا ہوگا
نور اللہ جاوید، کولکاتا
عوامی مینڈیٹ کے تحفظ کے لیے سیاسی جماعتوں کو چوکس رہنے کی ضرورت۔ بوتھ سطح پر کارکنوں کو منظم کرنا ضروری
لوک سبھا انتخابات آخری مراحل میں ہیں۔ 4؍ جون کو مطلع صاف ہوجائے گا کہ ملک کی باگ ڈور اگلے پانچ سالوں کے لیے کن ہاتھوں میں ہو گی۔دو مہینے کی طویل انتخابی مہم کے دوران بہت سے اتار چڑھاو دیکھے گئے۔سیاسی جماعتوں کی سوچ اور سیاسی لیڈروں کے بے نقاب کردار بھی دیکھے گئے۔ اس طویل انتخابی عمل کے دوران ایک ایسا ادارہ جس کی ذمہ داری آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے اور اس بات کو یقینی بنانے کی تھی کہ ملک کا کوئی بھی شہری اپنے حق رائے دہی سے محروم نہ رہے، نہ کسی کے حق رائے دہی کی چوری ہو اور نہ کسی سیاسی جماعت کے مینڈیٹ پر کوئی اور سیاسی جماعت قبضہ کرلے، وہ اپنی ذمہ ادا کرنے سے قاصر نظر آیا، جس پر ایک خاص سیاسی جماعت کے لیے راہ ہموار کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ اگر وہ ادارہ اس پر صفائی دینے اور خود احتسابی کرنے کے بجائے خود سوالات کرنے والوں کی نیت پر سوال کھڑا کرے تو یہ ایک جمہوریت کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن پر سوالات کوئی پہلی مرتبہ نہیں اٹھائے گئے ہیں ۔پہلے بھی کمیشن پر جانب داری کے الزامات لگتے رہے ہیں مگر اس مرتبہ صرف جانب داری برتنے اور حکم راں جماعت کے سامنے سرنگوں ہونے کے الزامات کے ساتھ ساتھ حق رائے دہی پر ڈاکہ اور مینڈیٹ کی چوری کرنے کے الزامات بھی لگ رہے ہیں۔ ویسے اس مرتبہ بھی سیاسی لیڈروں کو فرقہ واریت کے سہارے مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے اور ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔علاوہ ازیں جدید بد عنوانیوں مثلاٌ بے دریغ خرچ، غلط معلومات اور نفرت انگیز تقاریر کا سلسلہ بھی جاری ہے، یہاں تک کہ حریف امیدواروں کو امیدواری سے دستبرداری پر مجبور کیا گیا، پولنگ کے دوران بوتھوں پر قبضہ کیاگیا، ووٹروں کو ڈرایا گیا ہے۔ مسلمانوں کے کئی علاقوں میں کوشش کی گئی کہ وہ ووٹ نہ ڈال سکیں۔ ان سب پر کارروائی کرنے کے بجائے کمیشن خاموش تماشائی بنا رہا ہے ۔
19اپریل کو پہلے مرحلے کی پولنگ ہوئی اور اس کے گیارہ دنوں بعد کمیشن نے حتمی ووٹنگ کی شرح جاری کی ۔اس درمیان چار فیصد ووٹوں کا اضافہ ہو گیا۔ پہلے چار مرحلوں کی پولنگ کے بعد کمیشن نے حتمی اعداد و شمار جاری کیے اس میں 1.07 کروڑ ووٹروں کا اضافہ ہوگیا۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق پہلے چار مرحلوں میں 379 حلقوں میں ووٹنگ ہوئی اور اس لحاظ سے فی انتخابی حلقہ 28,000 ووٹوں کا اضافہ ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ کمیشن کو حتمی پولنگ کی شرح جاری کرنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ دوسرے یہ کہ پولنگ کے بعد جاری کیے گئے ابتدائی اعداد و شمار اور حتمی اعداد و شمار کے درمیان اس قدر تضاد کیوں ہوا؟
اس درمیان سپریم کورٹ میں انتخابی شفافیت سے متعلق جاری مقدمے میں ایک غیر سرکاری تنظیم ’’دی ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز ‘‘(ADR) نے ایک درخواست دائر کی ہے جس میں الیکشن کمیشن آف انڈیا سے ووٹوں کی مکمل تعداد کو فوری طور پر شائع کرنے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اے ڈی آر نے عدالت کی توجہ مبذول کرائی کہ لوک سبھا انتخابات میں الیکشن کمیشن نے مرحلہ وار ووٹروں کے ٹرن آؤٹ کا ڈیٹا شائع کیا ہے۔ 19 اپریل کو ہونے والی پولنگ کے پہلے مرحلے کے اعداد و شمار گیارہ دن بعد اور 26 اپریل کو ہونے والے دوسرے مرحلے کی پولنگ چار دن بعد شائع کی گئی۔ اس کے علاوہ پولنگ کے دن جاری کیے گئے ابتدائی اعداد و شمار سے حتمی ووٹر ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار میں پانچ فیصد سے زیادہ کا فرق ہے۔اس لیے سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی کہ فارم 17-سی کو بھی الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ پر جاری کرے۔ اے ڈی آر نے کہا کہ حتمی اعداد وشمار جاری کرنے میں غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے پورا انتخابی عمل مشکوک ہوگیا ہے۔اس لیے عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فارم 17-سی کو لوڈ کردیا جائے۔دراصل فارم 17-سی وہ فارم ہے جو پولنگ ختم ہونے کے بعد ای وی ایم مشین کو سیل کرنے کے وقت پریسائڈنگ آفیسر بوتھ پر پولنگ کی مکمل تفصیل ایک فارم پر درج کرتا ہے کہ بوتھ پر کتنے ووٹرس تھے، ان میں مرد کتنے اور خواتین کتنی تھیں اور پولنگ کتنی ہوئی۔اے ڈی آر کی طرف سے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن وکالت کر رہے ہیں جب کہ ایڈووکیٹ ارون کمار اگروال نے سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلے پرنظر ثانی کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وی وی پیاٹ اور ای وی ایم کے صد فیصد ووٹوں کو ملایا جائے ۔سپریم کورٹ نے تکنیکی بنیاد پر اس درخواست کو مسترد کردیا اور اس کے ایک دن بعد سنیچر کو الیکشن کمیشن نے مکمل تفصیلات جاری کردیں۔ مگر سوال اب بھی باقی ہے کہ الیکشن کمیشن کو فارم-سی جاری کرنے میں مشکل کیا ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ حتمی ڈیٹا جاری کرنے
میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ پہلے مرحلے کی ووٹنگ کی شرح شائع کرنے میں کمیشن کو گیارہ دن اور بعد کے تین مراحل کے لیے ہر ایک میں چار دن لگے۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کہتے ہیں کہ ’’ووٹر ڈیٹا حاصل کرنے میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ ڈیٹا ریئل ٹائم میں سسٹم میں ہوتا ہے، پولنگ ختم ہونے کے پانچ منٹ کے اندر، تمام معلومات دستیاب ہوتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو جواب دینا چاہیے کہ اتنی تاخیر کیوں ہوئی ہے؟۔
سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن نے فارم-سی پیش نہ کرنے کے لیے جو دلائل دیے ہیں وہ حیرت انگیز ہیں۔کمیشن نے کہا کہ امیدواروں اور ان کے ایجنٹوں کے علاوہ کسی اور کے ساتھ ووٹر ٹرن آؤٹ شیئر کرنے کا کوئی قانونی مینڈیٹ نہیں ہے۔ کمیشن کے سینئر وکیل منیندر سنگھ نے اے ڈی آر کی نیت پر ہی سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ اے ڈی آر کی درخواست بے بنیاد شکوک و شبہات پر مبنی ہے اس کا مقصد الیکشن کمیشن کو بدنام کرنا ہے۔کمیشن نے اس درخواست پر سماعت کی بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ای وی ایم ۔وی وی پیاٹ سے متعلق جو فیصلہ دیا تھا اس میں فارم-سی سے متعلق بھی ہدایت شامل ہے۔ 26 اپریل 2024 کا فیصلہ جامع ہے۔ اے ڈی آر ضمنی نکات کو بار بار نہیں اٹھا سکتا۔ یہ 96 کروڑ ووٹرز پر مشتمل انتخابی عمل کے درمیان تعمیری فیصلہ کا اطلاق نہیں کر سکتا۔ جمہوریت کے اس تہوار میں مفاد پرست عناصر مداخلت کر رہے ہیں۔ عدالت کو ان کے ساتھ سختی سے نمٹنا چاہیے۔جب کہ سینئر وکیل اے ایم سنگھوی نے اس معاملے میں اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’ای وی ایم- وی وی پی اے ٹی‘‘ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو فارم 17-سی کے ساتھ جوڑنا ایک دھوکا ہے اور فیصلے میں فارم سی سے متعلق صرف ذکر کیا گیا تھا ۔جب کہ اے ڈی آر کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے پرشانت بھوشن نے واضح لفظوں میں کہا کہ جس طریقے سے حتمی ڈیٹا شائع کرنے میں تاخیر کی گئی ہے اور ابتدائی ڈیٹا اور حتمی ڈیٹا میں جو فرق ہے وہ شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے اور اس سے انتخابی عمل پر عوام کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا ہے۔اس کا ازالہ صرف فارم-سی کی اشاعت سے ہی ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ میں یہ معاملہ 2019 سے ہی چل رہا تھا جب عام انتخابات کے اختتام کے بعد طویل عرصے تک الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی حتمی تعداد دستیاب نہیں کروائی تھی۔ صرف ابتدائی تعداد شائع کی تھی اور بعد میں اس کو بھی ہٹا دیا گیا تھا۔ 31 مئی 2019 کو انگریزی نیوز ویب سائٹ دی کوئنٹ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے اپنی ویب سائٹ پر شیئر کیا گیا ڈیٹا، دو حلقوں میں ’ووٹر ٹرن آؤٹ‘ اور ای وی ایم پر شمار کیے گئے ووٹوں سے میل نہیں کھاتا ۔کئی حلقوں میں ای وی ایم پر گنے گئے ووٹ ان حلقوں میں ووٹروں کی کل تعداد سے زیادہ تھے۔ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں ۔جسٹس دیپانکر دتا اور ستیش چندر شرما کی تعطیلاتی بنچ نے اس معاملے کی تکنیکی بنیاد پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا ’’بڑے پیمانے پر انتخابات کے لیے بھاری انسانی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ انتخابات کے وسط میں الیکشن کمیشن (EC) کی توجہ ہٹانا نہیں چاہتے‘‘۔ سپریم کورٹ انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔
فارم سی کو لے کر الیکشن کمیشن کے رویے کو دیکھا جائے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کمیشن شفافیت کے تقاضے سے گریز کررہا ہے۔اس نے کمیشن کے طریقے کار میں شفافیت کے لیے بلند ہوتی ہوئی آواز پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔فارم سی کی تفصیلات شائع کرنے سے متعلق دلیل یہ دی ہے کہ یہ پولنگ بوتھ ایجنٹ اور کمیشن کے پاس ہوتے ہیں اس لیے اس کو عام کرنے کا کوئی قانونی مینڈیٹ نہیں ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ ہزاروں ایسے پولنگ بوتھ ہوتے ہیں جہاں تمام امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ نہیں ہوتے ۔اگر اس کو بنگال، تریپورہ اور اتر پردیش جیسی ریاستوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسے سیکڑوں بوتھ مل جائیں گے جہاں حکم راں جماعت کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کا پولنگ ایجنٹ نہیں ہوتا ۔ایسی صورت میں گڑبڑی کے امکانات بہت ہی زیادہ ہوتے ہیں ۔
اے ڈی آر کی سپریم کورٹ میں یہ دلیل کافی مستحکم ہے کہ ووٹر ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار کی قطعی تعداد کے بغیر عام لوگ پولنگ ووٹوں کی تعداد کا موازنہ نتائج میں اعلان کردہ ووٹوں کی تعداد کے ساتھ نہیں کر سکتے۔ پولنگ بوتھ پر ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد اور ای وی ایم کے ذریعے گنے جانے والے ووٹوں کی تعداد کا اندازہ صرف اس وقت لگایا جا سکتا ہے جب الیکشن کمیشن کی طرف سے ہر حلقے کی ووٹنگ کی شرح نہیں بلکہ مطلق نمبر جاری کیے جائیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی دلیل یہ ہے کہ فارم 17-سی تمام پولنگ ایجنٹوں کے لیے ہے، اس کو عام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمل ناڈو کے انفارمیشن ٹکنالوجی اور ڈیجیٹل خدمات کے وزیر پی تھیگا راجن، کمیشن کی اس دلیل کو خارج کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زیادہ تر امیدواروں (خاص طور پر چھوٹی پارٹیاں اور آزاد امیدواروں) کے پاس فارم-17 کو جمع کرنے اور ترتیب دینے کی صلاحیت نہیں ہوتی کیوں کہ ایک پارلیمانی حلقہ میں 1500 سے 2000 بوتھ ہوتے ہیں اس لیے ووٹوں کی گنتی کا عمل اسی وقت مضبوط اور شفاف ہوسکتا ہے جب فارم-17 کے ڈیٹا کو پولنگ کے بعد جلد از جلد شائع کیا جائے تاکہ گنتی کے مراکز میں موجود ہر امیدوار کے ہر ایجنٹ کے پاس ہر بوتھ کی تفصیل موجود ہو۔تمل ناڈو کے وزیر کہتے ہیں کہ 2019 تک اس تفصیل کو شائع کرنا معمول تھا مگر پراسرار طریقے سے اس کو بند کردیا گیا اور تمام پرانے فارم-17 ڈیٹا کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
جب 15 نومبر 2019 کو الیکشن پر نظر رکھنے والی ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR) اور کامن کاز نامی این جی او نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے ووٹروں کے ٹرن آوٹ ڈیٹا میں مبینہ تضادات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے تصدیق شدہ انتخابی اعداد و شمار کے جاری ہونے سے قبل انتخابی نتائج کا اعلان انتخابی نظام میں خرابی کی نشان دہی کرتا ہے۔ موجودہ نظام میں خرابیاں کہیں زیادہ سنگین اور تشویش ناک رجحان ہے اس لیے ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں گزشتہ پانچ سالوں سے اتنی اہم درخواست زیر التوا کیوں ہے؟ انتخابی نظام میں شفافیت کو یقینی بنانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ 2019 میں جو درخواستیں دائر کی گئی تھیں ان میں واضح طور پر یہ کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن نے جو حتمی اور ابتدائی رپورٹ دی تھی اس میں کافی فرق تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ کئی سیٹوں پر یہ دیکھنے میں آیا کہ کُل ووٹوں سے کہیں زیادہ ای وی ایم مشین میں ووٹ تھے۔ پہلے چار مرحلوں کی حتمی پولنگ کی جو شرح الیکشن کمیشن نے جاری کی ہے اس میں 1.7 کروڑ ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے۔ 379 حلقوں میں فی حلقہ 28 ہزار ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ لوک سبھا کے اعتبار سے یہ ووٹ کافی کم ہیں مگر کم مارجن کی صورت میں ایک ایسے امیدوار کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں جسے ووٹ کم ملے ہوں ۔(چار ٹ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کن ریاستوں میں ووٹنگ کی شرح میں فرق واقع ہوا ہے)
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات صرف کمیشن اور سیاسی پارٹیوں کا معاملہ ہے؟ اور کیا یہی دو اسٹیک ہولڈرز ہیں؟ ظاہر ہے کہ جمہوریت میں ایک بڑا اسٹیک ہولڈر عوام ہوتے ہیں۔عوام کی شمولیت کے بغیر انتخابی عمل کے مکمل ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگلا قدم کیا ہونا چاہیے؟ عوامی مینڈیٹ کی حفاظت کے لیے عوام کو اور سول سوسائٹی اداروں کو منظم ہونے کی ضرورت ہے۔ اے ڈی آر اور کامن کاز کی درخواستوں پر فوری سماعت کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگلے پانچ برسوں تک انتظار نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں اور ورکروں کو سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور سابق مرکزی وزیر کپل سبل کے اس مشورے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کپل سبل سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنان کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمام جماعتوں اور ایجنٹوں کے لیے فارم 17-سی اور ای وی ایم مشین کے ووٹوں کے درمیان جب تک مطابقت نہیں ہوجاتی اس وقت تک نتیجے کا بٹن مت دبائیں ۔اگر نتیجے میں فرق ہے تو اس سے مطلع کریں ۔
اس سارے نظام کی خرابی کی اصل جڑ عہدہ طلبی اور ہر حال میں اقتدار کا حصول ہے۔ ایک صالح نظام میں اقتدار اور حکومت عوام کی خدمت کا ذریعہ ہوتا ہے چنانچہ اسلامی نظام جمہوریت میں وہ امیدوار نااہل قرار پاتا ہے جو اپنی امیدواری خود پیش کرے۔ اس کے بجائے عام شہری کچھ نام پیش کرتے ہیں جن پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ بھارت میں جماعت اسلامی ہند اس کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے جہاں امیر کا انتخاب اراکین کرتے ہیں مگر کوئی بھی شخص اپنی دعویداری پیش نہیں کرتا۔ تاہم، بھارت جیسے کثیر آبادی والے میں اسے اپنانا ممکن تو نہیں لگتا مگر بحیثیت امت دعوت ہماری ذمہ داری ہے کہ انتخابی اصلاحات اور نظام میں شفافیت لانے کے لیے اسلامی دعوت اور اس کے پیغام کو برادران وطن تک پہنچائیں ۔ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ میدان سیاست میں صالح کردار کے حامل افراد زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہنچیں، اس کے لیے افرادسازی اور تربیت کے نظام کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم ایک طرف مسلم قیادت کے بحران کا رونا روتے ہیں اور دوسری طرف سیاسی جماعتوں میں شامل مسلم لیڈروں کے بے حسی پر آنسو بہاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے مسلم لیڈرشپ کی تیاری کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ آخری اور اہم بات یہ ہے کہ ہمیں انتخابی نظام میں شفافیت کے لیے کام کرنے والی اے ڈی آر اور کامن کاز جیسی تنظیموں کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔کیوں کہ جمہوریت کا زوال کا خمیازہ ہمیشہ اقلیتی طبقے کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ اقتدار کے حصول کے لیے وزیر اعظم اور ان کی پارٹی والے مسلسل مسلمانوں اور اقلیتوں کو نہ صرف نشانہ بنارہے ہیں بلکہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔فاششٹ قوتیں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہمیشہ ایک فرضی دشمن کھڑا کرتی ہیں، اس وقت ملک میں مسلمانوں کو ہندوؤں کے دشمن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس انتخاب میں بڑے پیمانے پر ووٹر لسٹ سے مسلم رائے ہندگان کے نام غائب ہونے اور مسلم آبادی والے علاقوں میں مسلمانوں کو ووٹ دینے سے روکنے کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ یہ صورت حال انتہائی سنگین ہے۔فاششٹ قوتوں کی بھر پور کوشش ہے کہ مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا جائے۔ الیکشن کمیشن اس معاملے میں بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر رہا ہے۔ انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے بعد مسلم تنظیموں اور جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ اس مسئلے پر کام کریں اور ایک حتمی رپورٹ مرتب کی جائے کہ ووٹر لسٹ سے نام غائب ہونے کی شرح کیا ہے اور کن علاقوں میں مسلمانوں کو ووٹ دینے سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے لیے ہرسطح پر کام کرنے اور آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے.۔
***
***
عوامی مینڈیٹ کی حفاظت کے لیے عوام کو اور سول سوسائٹی ادارے کو منظم ہونے کی ضرورت ہے۔اے ڈی آر اور کامن کاز کی درخواستوں پرفوری سماعت کی ضرورت ہے۔کیوں کہ اگلے پانچ برسوں تک انتظار نہیں کیاسکتا ۔موجودہ انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کو سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور سابق مرکزی وزیر کپل سبل کے مشورے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنان کے لیے ان کا مشورہ کہ وہ فارم 17سی اور ای وی ایم مشین کے ووٹوں کے درمیان جب تک مطابقت نہیں ہوجاتی، اس وقت تک رزلٹ کا بٹن نہ دبائیں ۔اگر رزلٹ میں فرق ہے تو اس سے مطلع کریں ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024