!انتخابات کے راستے سے ملک میں آمریت کا خطرہ

ایک ملک ایک الیکشن کے تصور میں متعدد قانونی وعملی پیچیدگیاں

شہاب فضل

ملک کا وفاقی نظام متاثر ہونے پر قانونی چارہ جوئی کا بھی امکان
ایک ملک ایک الیکشن آئینی ترمیمی بل، جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جا چکاہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور سابق وزیر قانون پی پی چودھری کی سربراہی میں انتالیس اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ایک کمیٹی مجوزہ بل کی دفعات پر غور کرے گی اور ملک میں لوک سبھا اور ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کے سلسلہ میں سیاسی پارٹیوں سے ان کی رائے جان کر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے گی۔
کمیٹی کے سربراہ پی پی چودھری اوائل عمری سے آرایس ایس سے وابستہ رہے ہیں۔ تاہم ان کا سیاسی کریئر 2014 میں شروع ہوا جب انہوں نے لوک سبھا الیکشن میں پہلی بار راجستھان کی پالی لوک سبھا سیٹ پر جیت حاصل کی۔ اس سے قبل وہ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں ایک سینئر وکیل کے طور پر پریکٹس کرتے تھے۔ قانونی امور کا ان کا تجربہ پینتالیس برسوں پر محیط ہے۔ فی الوقت وہ لگاتار تیسری بار لوک سبھا میں پالی حلقہ کی نمائندگی کررہے ہیں۔ نریندر مودی کے دوسرے ٹرم میں وہ قانون و انصاف کے مرکزی وزیر مملکت مقرر ہوئے۔ ان کے قانون کے پس منظر اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے قربت کے سبب انہیں مختلف قائمہ کمیٹیوں کا سربراہ بنایا گیا۔
اس سال کے شروع میں انڈین ایکسپریس میں شائع شدہ اپنے ایک کالم میں مسٹر چودھری نے ایک ملک ایک الیکشن کے تصور کی حمایت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس سے وسائل کی بچت ہوگی۔ اس کالم میں انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ جولائی 2019 میں خود انہوں نے ایک پرائیویٹ ممبر بل لوک سبھا میں پیش کیا تھا جس میں انہوں نے دستور ہند میں ایک نیا آرٹیکل 324A جوڑنے پر زور دیا تھا تاکہ لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرائے جاسکیں۔
ایک ملک ایک الیکشن کے سلسلہ میں جو دو بل بشمول آئینی بل (ایک سو انتیسویں ترمیم) 2024 اور مرکزی خطہ جات قوانین (ترمیم) 2024، پارلیمنٹ کے حالیہ سیشن میں پیش کیے گئے، ان پر جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی غور و خوض اور تبادلہ خیال کرے گی۔
یاد رہے کہ ایک ملک ایک الیکشن کے سلسلہ میں بطور وزیراعظم نریندر مودی کی دوسری مدت کار میں 2؍ ستمبر 2023ء کو سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے مارچ 2024 میں اپنی رپورٹ صدر جمہوریہ کے سپرد کی۔ یہ ضخیم رپورٹ اٹھارہ ہزار چھ سو چھبیس صفحات پر مشتمل ہے، جو متعلقہ افراد، اداروں اور قانونی و آئینی ماہرین سے گفت و شنید اور مشاورت کا نتیجہ ہے۔ کمیٹی نے ایک ملک ایک الیکشن کی طرف دو مرحلوں میں بڑھنے کی تجویز پیش کی ہے۔ پہلے مرحلے میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن ساتھ ساتھ کرائے جائیں اور دوسرے مرحلہ میں تین سطحی پنچایت انتخابات کو لوک سبھا و اسمبلی انتخابات کے سو دن کے اندرکرانے کی سفارش کی گئی ہے۔
ایک ملک ایک الیکشن کے حق میں حکومت کی جانب سے یہ دلائل دیے گئے کہ اس سے مالی و انسانی وسائل کی بچت ہوگی، شہری بار بار ووٹ دینے کی زحمت سے بچیں گے، حکم رانی اور پالیسی سازی میں آسانی ہوگی اور ترقیات پر بھرپور توجہ دی جاسکے گی۔ دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد پہلے عام انتخابات 52-1951 میں ساتھ ساتھ ہوئے۔ اس کے بعد 1957، 1962 اور 1967 میں بھی لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوئے۔ اس کے بعد کچھ ریاستوں میں حکومتیں تحلیل ہوئیں اور لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہونے کی روایت ٹوٹ گئی۔
مودی حکومت سبھی انتخابات کو ایک ساتھ کرانے کا خواب دیکھ رہی ہے، جس پر اپوزیشن اور قانون کے ماہرین کے کچھ تحفظات ہیں۔ خاص طور پر ملک کے وفاقی نظام اورمتعدد معاملات میں ریاستوں کو حاصل خود مختاری کو ٹھیس لگنے کا خطرہ ہے۔ علاقائی پارٹیوں نے اپنے لیے آنے والی دشواریوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ ہر ریاست میں انتخاب لڑ سکیں، یعنی پارٹیوں کے لیے الیکشن لڑنے کے لیے مساوی ماحول نہیں دستیاب ہوگا۔ مثال کے طور پر بی جے پی جیسی جماعت جو مالی اور افرادی وسائل میں دیگر پارٹیوں سے زیادہ طاقتور ہے اور مختلف کاروباری گھرانوں کا بھی تعاون اسے حاصل ہے، اقتدار میں اس کی اجارہ داری ہوجائے گی اور انتخابات کے راستے ملک میں آمریت آجائے گی۔
ایک ساتھ انتخابات کی عملی اور قانونی پیچیدگیاں
ایک ملک ایک الیکشن کے لیے کووند کمیٹی نے آئین اور ریاستوں کے قوانین میں اٹھارہ ترامیم اور آئین میں تین نئی دفعات کے اضافہ کی سفارش کی ہے۔ پورے ملک میں ہر الیکشن کے لیے ایک ہی ووٹر فہرست ہوگی۔ چونکہ یہ بل ایک آئینی ترمیمی بل ہے اس لیے اسے متعدد اسمبلیوں سے منظوری کی ضرورت ہوگی۔ اسی طرح بلدیاتی و پنچایت انتخابات کو عام انتخابات کے ساتھ کرانے کے قانون کو کم از کم پچاس فیصد اسمبلیوں کی منظوری درکار ہوگی۔
جہاں تک آئینی و قانونی ترامیم کی بات ہے وہ چیلنجوں بھری ایک بڑی مشق ہوگی، اورعملی دشواریاں بھی کم نہیں ہوں گی۔ بہرحال اس پروجیکٹ کو عملی شکل دینے کے لیے صدر جمہوریہ ایک تاریخ کا اعلان کریں گے، جب عام انتخابات کے بعد پارلیمنٹ کی پہلی نشست ہوگی۔ اس تاریخ کو لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کی مدت کے لیے بنیاد مانا جائے گا۔ اس تاریخ سے اگلے پانچ سال تک لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کی مدت ہوگی۔ اگر لوک سبھا یا اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی کسی وجہ سے تحلیل ہوجاتی ہے تو نئے انتخابات ہوں گے مگر نئی لوک سبھا یا نئی اسمبلی پانچ سال کے بجائے صرف بچی ہوئی مدت تک رہے گی۔ اس طرح اگلے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ ہوسکیں گے۔ ضمنی انتخاب کی صورت میں کئی ضمنی انتخابات کو ایک ساتھ ضم کرکے سال میں ایک بار یا عام انتخابات کے ساتھ کرانے کی تجویز ہے۔
اس قانون کو لانے کے لیے دستور ہند کے آرٹیکل 83 (پارلیمنٹ کی مدت سے متعلق)، 85، 172 (اسمبلیوں کی مدت سے متعلق)، 174، 356 اور 327 میں ترمیم کرنی ہوگی۔ اس کے علاوہ دستور میں ایک نئے آرٹیکل 82A کے اضافہ کی تجویز بھی ہے۔
کئی ماہرین قانون نے اسمبلیوں کی مدت کو لوک سبھا کی مدت کے ساتھ جوڑنے کی تجویز کو ریاستوں کی خودمختاری اور ملک کے وفاقی خدوخال سے چھیڑ چھاڑ قرار دیا ہے۔ اس سے متعلق قانون کو ریاستی اسمبلیوں کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔
اس پورے معاملے پرعدالتی چارہ جوئی کے امکان سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وفاق کا تصور دستور ہند میں شامل بنیادی ڈھانچے کے اصول سے جڑا ہوا ہے جس کے سلسلہ میں عدالت عظمیٰ کہہ چکی ہے کہ دستور کے اس پہلو سے چھیڑچھاڑ نہیں کی جاسکتی۔ ملک کے وفاقی نظام اور جمہوری روح کے ساتھ یہ قانون کتنا انصاف کرپائے گا یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔
بہرحال جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو مع سفارشات اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کرنی ہے جس کے بعد پارلیمنٹ قطعی فیصلہ کرے گی۔

 

***

 کئی ماہرین قانون نے اسمبلیوں کی مدت کو لوک سبھا کی مدت کے ساتھ جوڑنے کی تجویز کو ریاستوں کی خودمختاری اور ملک کے وفاقی خدوخال سے چھیڑ چھاڑ قرار دیا ہے۔ اس سے متعلق قانون کو ریاستی اسمبلیوں کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔ اس پورے معاملے پرعدالتی چارہ جوئی کے امکان سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وفاق کا تصور دستور ہند میں شامل بنیادی ڈھانچے کے اصول سے جڑا ہوا ہے جس کے سلسلہ میں عدالت عظمیٰ کہہ چکی ہے کہ دستور کے اس پہلو سے چھیڑچھاڑ نہیں کی جاسکتی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024