انتہائی قابل اعتراض قانون ۔سماجی انصاف کے نظریہ سے انحراف

نام نہادسیکولر نتیش کمار کا یوٹرن: رام مندر پر گرجنے والا متنازع وقف قانون پر خاموش کیوں؟

0

نوراللہ جاوید، کولکاتا

بہار کے سیاسی منظرنامے میں مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار گزشتہ تین دہائیوں سے بی جے پی کے ایک مضبوط حلیف رہے ہیں۔ وہ ان سماجوادی اور سوشلسٹ لیڈروں کی پہلی صف میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اقتدار اور کانگریس کی مخالفت کے پیشِ نظر ایک ایسی جماعت سے اتحاد کو ترجیح دی جو فکری و نظریاتی طور پر ان کے بالکل برعکس تھی۔ ایمرجنسی کے دوران ہی سوشلسٹوں اور سنگھیوں کے درمیان اتحاد کا آغاز ہوا تھا، لیکن بابری مسجد کی شہادت کے بعد ان سوشلسٹوں کو محسوس ہوا کہ اگر اقتدار میں حصہ داری چاہیے تو بی جے پی سے اتحاد کرنا ناگزیر ہے، چاہے اس کے لیے نظریاتی پسپائی ہی کیوں نہ اختیار کرنی پڑے۔
2005 میں بہار کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی، لیکن انہوں نے اعتدال اور توازن قائم رکھنے کی بھر پور کوشش کی۔ چنانچہ بی جے پی کے اقتدار میں ہونے کے باوجود، بہار میں ویسا ماحول پیدا نہ ہو سکا جیسا کہ اترپردیش، مدھیہ پردیش یا گجرات میں دیکھنے کو ملا۔ بہار میں ذات پات پر مبنی سیاست مذہبی پولرائزیشن پر حاوی رہی ہے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ نتیش کمار گزشتہ دو دہائیوں سے بی جے پی کے لیے آکسیجن کا کام کرتے رہے ہیں۔
گجرات فسادات کے بعد بھی انہوں نے بی جے پی سے علیحدگی اختیار نہیں کی، بلکہ اس وقت وہ ریلوے کے وزیر تھے اور گودھرا ٹرین حادثہ انہی کے دور میں پیش آیا۔ اگر وہ چاہتے تو ناناوتی کمیشن کو آزادانہ تحقیقات کا موقع فراہم کر سکتے تھے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔
2014 میں نریندر مودی کے عروج پر انہوں نے بی جے پی سے کنارہ کشی اختیار کی اور 2015 میں راشٹریہ جنتا دل و کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے شاندار کامیابی حاصل کی، لیکن صرف چند ماہ بعد وہ دوبارہ نریندر مودی سے ہاتھ ملا بیٹھے۔ 2020 میں بی جے پی کے اتحاد کے ساتھ انتخاب میں حصہ لیا اور اقتدار میں تو آ گئے، مگر ان کی سیاسی طاقت کمزور ہو گئی اور ان کی پارٹی سکڑ کر رہ گئی۔ بی جے پی نے مجبوری کے تحت انہیں وزیر اعلیٰ بنایا، مگر اس بار بی جے پی ان پر حاوی رہی۔
اسی لیے 2022 میں انہوں نے ایک بار پھر بی جے پی سے علیحدگی اختیار کی اور راشٹریہ جنتا دل و کانگریس سے اتحاد کیا۔ انہوں نے اپوزیشن اتحاد کا بیڑا اٹھایا اور اپوزیشن جماعتوں کی پہلی میٹنگ پٹنہ میں منعقد کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ وزیر اعظم کے عہدے کے متمنی تھے یا انہیں یہ امید تھی کہ کانگریس ان کے نام پر رضامند ہو جائے گی؟ بہر حال، ان کی تیزی سے گرتی ہوئی صحت، پارٹی میں بڑی ذاتوں کے لیڈروں کا غلبہ اور مرکزی ایجنسیوں کی جانب سے جنتا دل یو کے رہنماؤں اور ان کے قریبیوں پر چھاپوں کے بعد، نتیش کمار ایک بار پھر بی جے پی کی جھولی میں جا گرے۔
اس مرتبہ ان کی واپسی کچھ یوں رہی کہ وہ ایک بڑے قد کے لیڈر ہونے کے باوجود امیت شاہ اور نریندر مودی کے سامنے سر جھکائے پشیمانی کا اظہار کرتے نظر آئے۔ بی جے پی چھوڑنے پر جس انداز میں وہ شرمندگی کا اظہار کرتے رہے، وہ ان کے قد و قامت کے شایان شان نہ تھا۔
نتیش کمار کی طرزِ حکم رانی میں ہمیشہ مسلمانوں کے مقتدر طبقے سے تعلقات قائم رکھنے کا عنصر شامل رہا ہے۔ امارتِ شرعیہ اور پٹنہ کی مختلف خانقاہوں میں ان کی آمدورفت جاری رہی۔ اردو اخبارات کو بھی اشتہارات کے ذریعے حکومت کی جانب سے یکساں فائدہ پہنچتا رہا۔ یہی وجہ تھی کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ایک طبقے میں یہ تاثر پایا جاتا رہا کہ نتیش کمار اگرچہ بی جے پی کے ساتھ ہیں، مگر وہ سیکولرازم سے سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
گرچہ شہریت ترمیمی ایکٹ، تین طلاق بل اور دفعہ 370 کی منسوخی کے مواقع پر انہوں نے براہِ راست یا بالواسطہ بی جے پی ہی کو فائدہ پہنچایا۔ جنتا دل یو نے شہریت ترمیمی بل کی مخالفت تو کی، مگر ووٹنگ کے بجائے واک آؤٹ کیا، اور یہی رویہ تین طلاق اور دفعہ 370 کے معاملے میں بھی اپنایا۔ اس کے باوجود وہ سیکولرازم کے چمپین سمجھے جاتے رہے۔
2024 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے جنتا دل یو اور چندرا بابو نائیڈو کے قد کو بڑھا دیا۔ پچھلی دو مدتوں میں مودی حکومت کو اپنے اتحادیوں پر انحصار نہیں تھا، لیکن اس مرتبہ ان دونوں پر مکمل انحصار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو آخری لمحے تک امید رہی کہ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو وقف بل کی حمایت نہیں کریں گے۔ مگر نہ صرف یہ حمایت کی گئی بلکہ جنتا دل یو کے لیڈر للن سنگھ نے جس انداز کی تقریر کی، اس سے صاف اشارہ ملا کہ جنتا دل یو نے سماجی انصاف اور سیکولر نظریہ کو ترک کرتے ہوئے ہندتوا کی زبان اپنا لی ہے۔ راجیہ سبھا میں سنجے جھا کی تقریر بھی اسی طرز کی رہی۔
چنانچہ اس بار پٹنہ میں مسلم تنظیمیں، بالخصوص وہ امارتِ شرعیہ جو نتیش کمار کے معاملے میں ہمیشہ خاموش رہی تھی، کھل کر سامنے آ گئیں۔ پہلے افطار کا بائیکاٹ کیا گیا اور بعد میں بیانات بھی جاری ہوئے۔ امارتِ شرعیہ کی اس جرأت پر حکومت نے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے امارت کو کمزور اور تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ امارت کے موجودہ نظام سے غیر مطمئن طبقے کی سرپرستی کرتے ہوئے امارتِ شرعیہ پھلواری شریف پر شب خون مارنے کی کوشش کی گئی، جو ناکام رہی، لیکن ملت کا شیرازہ ضرور بکھر گیا۔ امارت کا معاملہ اب سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔
ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ ستمبر-اکتوبر 2025 میں بہار اسمبلی کے انتخابات پر اس تمام صورتحال کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ روایتی طور پر مسلمانوں کی اکثریت نتیش کمار سے دور ہی رہی ہے۔ 2015 کے انتخابات کو چھوڑ کر مسلمانوں نے کبھی کھل کر انہیں ووٹ نہیں دیا، البتہ 7 سے 10 فیصد کے درمیان ووٹ ضرور ملے ہیں۔ گزشتہ 20 برسوں میں جنتا دل یو کو جو 13 سے 16 فیصد ووٹ ملے، ان میں ایک چوتھائی ووٹ مسلمانوں کے تھے۔ اب جب کہ وقف ترمیمی بل قانون بن چکا ہے، سوال یہ ہے کہ ترقی کے نام پر نتیش کمار کو ووٹ دینے والا یہ طبقہ اب بھی ان کے ساتھ رہے گا یا نہیں؟
وقف قوانین کے حق میں جنتا دل یو کے مؤقف کے بعد پٹنہ میں مسلمانوں کا ردعمل شدید رہا ہے۔ بے چینی پائی جاتی ہے، لیکن جنتا دل یو سے وابستہ مسلم لیڈروں نے اس موقع پر پارٹی وفاداری کو ترجیح دی ہے۔ بہار کے موقر ادارے "ادارہ شرعیہ” کے سربراہ مولانا غلام رسول بلیاوی، جو نتیش کمار کی پارٹی سے ایم ایل سی بھی ہیں، وقف مخالف بیانات تو دے رہے ہیں، مگر انہوں نے ابھی تک پارٹی سے علیحدگی اختیار نہیں کی ہے۔
تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ جنتا دل یو میں کوئی مسلم لیڈر ایسا موجود نہیں جو پورے بہار میں اثر و رسوخ رکھتا ہو۔ سیمانچل، جہاں مسلم آبادی کافی ہے، وہاں جنتا دل یو عملی طور پر بے اثر ہو چکی ہے۔ بی جے پی مسلسل مسلم اکثریتی اضلاع کو نشانہ بنا رہی ہے اور جنتا دل یو کے لیڈر اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
جنتا دل (یو) کے مسلم لیڈر اور خود پارٹی یہ تصور دیتے ہیں کہ نتیش کمار کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی صورتِ حال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ تاہم، اگر اس کا زمینی سطح پر تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور معاشی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔
چوں کہ بیشتر مسلم گھرانوں کے لڑکے دیگر ریاستوں میں منتقل ہو چکے ہیں، اس لیے ان کی ترسیلاتِ زر کے باعث گھریلو معیشت میں کسی حد تک بہتری ضرور آئی ہے۔ اگر نیشنل فیملی ہیلتھ سروے اور ایشین ڈیولپمنٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی مختلف رپورٹوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی نمائندگی نہایت کم ہے۔ تعلیم چھوڑنے (ڈراپ آؤٹ) کی شرح مایوس کن ہے اور مسلم نوجوانوں کی اکثریت غیر منظم شعبوں میں روزگار اختیار کرنے پر مجبور ہے۔
اسی طرح سیمانچل کے اضلاع، جہاں مسلمانوں کی قابلِ لحاظ آبادی ہے، وہاں بنیادی ڈھانچے (انفراسٹرکچر) کی شدید قلت ہے۔ سرکاری اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی کے باعث کمزور طبقات آج بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مسلمانوں میں نیا مڈل کلاس طبقہ ابھر کر سامنے نہیں آ رہا ہے۔
چراغ پاسوان اور جتن رام مانجھی بہار کی سیاست میں خاندانی سیاست کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ چراغ پاسوان کی نہ اپنی کوئی سیاسی فکر ہے اور نہ ہی کوئی نظریاتی بنیاد۔ جتن رام مانجھی زندگی کے اس موڑ پر ہیں جہاں اقتدار کا حصول ہی سب کچھ بن چکا ہے۔
تاہم، ان تمام جماعتوں کی بی جے پی کے سامنے خودسپردگی کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بہار کے مسلمانوں کے لیے راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کا اتحاد ہی واحد سیاسی متبادل رہ گیا ہے۔ تیجسوی یادو نے کھل کر وقف قوانین کی مخالفت کر کے مسلم ووٹوں میں تقسیم کو روکنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ یہ سوال تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ انتخابی سیاست میں اس اقدام کا کیا اثر ہوگا، مگر یہ بات طے ہے کہ نتیش کمار نے گزشتہ دو دہائیوں میں مسلمانوں کے درمیان اپنی جو مثبت شبیہ قائم کی تھی، اسے اپنی سیاسی زندگی کے آخری مرحلے میں خود ہی ختم کر دیا۔
سوشل میڈیا پر نتیش کمار کی وہ تقریر وائرل ہو رہی ہے جو انہوں نے پارلیمنٹ میں رام جنم بھومی کی تحریک کے دوران کی تھی۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی نتیش کمار ہیں، جو اڈوانی، اٹل بہاری واجپئی اور مرلی منوہر جوشی کے سامنے گرجتے ہوئے رام جنم بھومی تحریک کو "اعلیٰ ذاتوں کی تحریک” قرار دیا کرتے تھے۔
اب نتیش کمار مکمل طور پر اپنے نظریات اور افکار سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ ان کی یہ خود سپردگی اگرچہ حیران کن نہیں، مگر افسوس ناک ضرور ہے۔ جب اقتدار ہی زندگی کا مقصد بن جائے تو انجام یہی ہوتا ہے۔

 

***

 ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ ستمبر-اکتوبر 2025 میں بہار اسمبلی کے انتخابات پر اس تمام صورتحال کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ روایتی طور پر مسلمانوں کی اکثریت نتیش کمار سے دور ہی رہی ہے۔ 2015 کے انتخابات کو چھوڑ کر مسلمانوں نے کبھی کھل کر انہیں ووٹ نہیں دیا، البتہ 7 سے 10 فیصد کے درمیان ووٹ ضرور ملے ہیں۔ گزشتہ 20 برسوں میں جنتا دل یو کو جو 13 سے 16 فیصد ووٹ ملے، ان میں ایک چوتھائی ووٹ مسلمانوں کے تھے۔ اب جب کہ وقف ترمیمی بل قانون بن چکا ہے، سوال یہ ہے کہ ترقی کے نام پر نتیش کمار کو ووٹ دینے والا یہ طبقہ اب بھی ان کے ساتھ رہے گا یا نہیں؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025