انتقامی سیاست کا شاخسانہ

بنگلہ دیش میں ہزاروں طلبا پولیس حملے سے ہلاک اور زخمی -پورے ملک میں ایمرجنسی

ڈھاکہ (دعوت انٹرنیشنل نیوز بیورو)

سرکاری ملازمتوں میں کوٹے پر ڈھاکہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے امید بندھ گئی تھی کہ شاید اب بنگلہ دیش میں حالات معمول پر آجائیں۔ لیکن وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے دوسرے دن ڈھاکہ کے تاجروں سے ملاقات کر کے بجھتی آگ پر اشتعال انگیز بیان کا تیل انڈیل دیا۔تاجروں کا نمائندہ وفد وزیراعظم کو یہ بتانے گیا تھا کہ ایک ہفتے سے جاری کرفیو نے کاروبار تباہ کردیا اور چھوٹے تاجروں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔ بات چیت کے دوران تاجروں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ کرفیو کی وجہ سے قومی معیشت کو ایک ارب ڈالر یومیہ کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر 20 ارب 48 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں اور اقتصادی ساکھ کی درجہ بندی کرنےوالے عالمی ادارے S&Pنے بنگلہ دیش کا درجہ +B سے کم کرکے BBکردیاہے۔ تاجروں نے استدعا کی کہ اب جبکہ عدالت نےکوٹہ سسٹم کا مسئلہ حل کردیا ہے تو کرفیو ختم کردیں تاکہ دکانیں اور بازار کھل سکیں۔
حسینہ واجد یہ اعدادو شمار سن کر مشتعل ہوگئیں اور کہا کہ پرتشدد واقعات اور جانی و مالی نقصانات کی ذمہ دار جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ہیں۔ان شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ انہوں نے دانت پیستے ہوئے کہا کہ انتہا پسند عناصر کو کچل دیا جائے گا۔ کرفیو ہٹانے کا مطالبہ یکسر نظرانداز کرتے ہوئےدوٹوک انداز میں بولیں کہ مکمل امن و امان سے پہلے کرفیو ختم نہیں ہوگا۔
وزیراعظم کی کڑوی کسیلی باتوں سے جہاں تاجر بدمزہ ہوئے وہیں ملاقات کی روداد سن کر طلبا بھی بپھر گئے۔ جامعہ ڈھاکہ میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے طلبا رہنماوں نے کہا کہ حکومت کی نیت میں فتور نظر آرہا ہے۔ اس دغا باز حکومت نے بہت دھوکے دیے ہیں۔ طلبا ربر اسٹیمپ عدالت کی لالی پاپ سے بہلنے والے نہیں۔ عدالتی فیصلے کی سرکاری گزٹ کی شکل میں اشاعت سے پہلے ہم احتجاج ختم نہیں کریں گے۔ پریس کانفرنس میں تمام گرفتار طلبا کی رہائی اور ہلاک و زخمی ہونے والے نوجوانوں کے لیے معاوضے کامطالبہ کیا گیا۔
اس مطالبے کا جواب میں ڈھاکہ پولیس نے بلوہ، اقدام قتل، کارِ سرکار میں مداخلت، غداری ، پاکستانی فوج کی ایما پر بنگلہ دیش کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے الزامات پر دو لاکھ تیرہ ہزار افراد پر مقدمات قائم کردیے۔زیادہ تر مقدمات “نامعلوم” افراد کے خلاف بنائے گئے۔بہت سے الزامات ایسے ہیں جن کے ثابت ہونے پر سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ پرچے کٹتے ہی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور صرف 24 گھنٹوں کے دوران 4500 طلبہ دھر لیے گئے۔ طالب علم رہنما ناہید اسلام اور آصف محمود کو ہسپتال سےگرفتار کیاگیا۔ ساتھ ہی باغی طلبا کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی اور سارے ملک میں درجنوں طلبا کو سادہ لباس پولیس نے ہلاک کردیا۔
دوسرے دن اخبارات کے مدیروں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے اپنا یہ الزام دہرایاکہ حالیہ ہنگاموں کی پشت پر بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی ہیں۔ پاکستان کے ان وفاداروں نے بنگلہ دیش کو اب تک دل سے تسلیم نہیں کیا۔ ملاؤں کو ہماری جمہوریت اور خوشحالی سے نفرت ہے۔ تاہم طلبا کے معاملے پر بولیں بچوں کو منانے کے لیے میں خود ان سے بات کروں گی۔
دوسری طرف ’بچے‘ الزام لگارہے ہیں کہ طلبا کے خلاف خصوصی آپریشن کے لیے ہندوستان کی خفیہ پولیس کے ہزاروں اہلکار بنگلہ دیش بلائے گئے ہیں اور باغیوں کو ٹھکانے لگانے کے اس آپریشن کی نگرانی قومی سلامتی کےہندوستانی مشیر اجیت دوال کررہے ہیں۔ طلبا رہنماوں کا کہنا ہے کہ ٹارگیٹ کلنگ کے ساتھ نوجوانوں کو معذور کرنے کی منظم مہم شروع کردی گئی ہے اور ہسپتال ایسے طلبا سے بھرگئے ہیں جن کے ہاتھ اور پیر نامعلوم افراد نے توڑدیے، ریڑھ کی ہڈی پر شدید ضربات سے کئی طلبا کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا۔ معذور کیے جانے والے زیادہ تر افراد جامعات کےطلبا ہیں جو شاید اب کبھی اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہوسکیں گے۔
گزشتہ ہفتے یونیسیف (UNICEF)کے ریجنل ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا سنجے وجی سیکرا(Sanjay Wijesekera)نے ایک بیان میں کہا کہ کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہروں میں پولیس کے تشدد اور اندھادھند فائرنگ سے کم ازکم 32 معصوم بچے بھی ہلاک ہوئے۔
اس خبر پر بنگلہ دیش سے باہر بھی تشویش پیدا ہوئی۔جمہوریت کش رویے اوربہیمانہ تشدد پر یورپی یونین (EU) نے بنگلہ دیش سے تجارتی مذاکرات معطل کردیے۔ منگل 30 جولائی کو EUکے ذمہ دار برائے خارجہ امور جوزف بوریل نے کہا کہ وزراعظم حسینہ واجد کی جانب سے پولیس کو ‘دیکھتے ہی گولی ماردو’ کا حکم EUکی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس کے دوسرے روز EUکی ترجمان نبیلہ مصرالی نے ایک بیان میں انکشاف کیا کہ ‘موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر شراکت داری اور تعاون کے معاہدے پر مذاکرات کا پہلا دور ملتوی کر دیا گیا ہے۔یہ مذاکرات ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہونے والے تھے۔ انہوں نےمزید کہا کہ ان مذکرات کی کوئی نئی تاریخ ابھی طے نہیں کی گئی۔
وزیراعظم حسینہ واجد نے طلبا تحریک کو اپنی سیکیولر حکومت کے خلاف بنیاد پرستوں کو غدار قراردیتے ہوئے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شِبر پر پابندی لگادی ہے ۔وزیراعظم نے کہاکہ کہ جماعتی بنیاد پرست، بنگلہ دیش کو انتہا پسند مذہی ریاست بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے ہنگامہ آرائی کی جارہی ہے۔
حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت، بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا،پارٹی کے معتمد عام مرزا فخر الاسلام عالمگیر نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت طلبا کے مسائل حل کرنے کے بجائے حزب اختلاف کو کچلنے میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا جماعت اسلامی ایک پرامن جمہوری جماعت ہے اور حسینہ واجد کی فاشسٹ حکومت اپنی مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز دبادینا چاہتی ہے۔ مرزا عالمگیر نے کہا کہ حکومت طلبا کو مشتعل کرکے حالات کو مزید خراب کرنا چاہتی ہے تاکہ ہنگامی حالت (Emergency)نافذ کرکے رہے سہے بنیادی حقوق بھی سلب کرلیے جائیں۔
جمعہ 2 اگست کو طلبا نے ملک گیر یوم سیاہ منایااور پورا بنگلہ دیش حسینہ واجد استعفیٰ دو، بھارتی مداخلت مردہ باد اور ’ہر قیمت پر مادر وطن کی آزادی‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ ڈھاکہ، سلہٹ، کھلنا، چاٹگام، نواکھالی سمیت کئی شہروں میں پولیس نے مظاہرین پر شدید تشدد کیا اور پولیس فائرنگ سے دونوجوان ہلاک ہوگئے۔
طلبا کی جانب سے 4 اگست کو سیول نافرمانی تحریک کا آغاز ہوا۔ پولیس وردیوں میں ملبوس عوامی لیگی جتھوں نے مظاہرین پر حملے کیے اور صرف ڈھاکہ میں 14پولیس والوں سمیت 93 افراد مارے گئے۔ طالب علم رہنماؤں آصف محمود، سرجیس عالم اور ابوبکر مجمدار نے ڈھاکہ مارچ کا اعلان کرتے ہوئےملک بھر کے لوگوں سے ڈھاکہ پہنچنے کی درخواست کی ۔قائدین نے کہا کہ حسینہ واجد کے استعفےٰ تک تحریک جاری رہےگی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024