انتخابی نتائج سے قطع نظر، مسلمان ملک کی ترقی اور نفرت کا مقابلہ کرنے میں فعال رول ادا کریں

جمہوری اقدار کے زوال کے لیے حکم رانوں کی پالیساں اور روّیے ذمہ دار: پروفیسر محمد سلیم انجینئر

انوارالحق بیگ

اقتدار کی تبدیلی مسئلہ کا حل نہیں ۔ مسلمانوں کو ہر حال میں مایوسی سے بچنے اور ملک میں خیرامت کا کردار ادا کرنے کی ضرورت
نئی دلی: ایک ایسے وقت میں جب کہ کچھ سیاسی لیڈر لوک سبھا انتخابات کی مہم میں اپنی تقریروں اور ریلیوں میں تفرقہ انگیز مسائل اٹھا کر ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جماعت اسلامی ہند نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ’خیر امت‘ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ملک سے نفرت کے خاتمہ اور ترقی کے لیے کام کریں۔ نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے پچھلے دنوں مرکز جماعت، دلی میں دانشوروں، ماہرین تعلیم اور سماجی و سیاسی کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان انتخابی نتائج سے قطع نظر ایک ذمہ دار شہری کے طور پر تمام انسانوں کی فلاح و بہبود، انصاف کی بالادستی اور ملک کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمے کے پر زور حامی، پروفیسر سلیم انجینئر نے موجودہ سماجی و سیاسی منظر نامے کا ایک جامع تجزیہ پیش کیا اور بتایا کہ ایک کمیونٹی کے طور پر مسلمان معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے کیا رول ادا کر سکتے ہیں۔ اس اجلاس میں مختلف ملی رہنماؤں نے شرکت کی جس میں انتخابات اور ملک کی جمہوریت اور سماجی تانے بانے پر پڑنے والے وسیع اثرات پر توجہ مرکوز کی گئی۔
سب سے بڑی جمہوریت کے لیے اہم انتخابات
ملک میں 97 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں ملک کی کل 140 کروڑ آبادی میں سے ایک اندازے کے مطابق 14 کروڑ مسلم ووٹرز شامل ہیں جو بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بناتے ہیں۔ اس حوالے سے پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے نشان دہی کی کہ ڈیڑھ ماہ پر محیط انتخابات ملک میں جمہوری عمل کی وسعت اور پیچیدگی کا ثبوت ہیں۔ پولنگ لگ بھگ مکمل ہو چکی ہے اور نتائج کا اعلان 4 جون کو کیا جائے گا۔
جمہوری اقدار خطرے میں
گزشتہ ایک دہائی کے دوران جمہوری اقدار کے زوال پر گہری تشویش ظاہر کرتے پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے اس کے لیے موجودہ حکم رانوں کی پالیسیوں اور روّیوں کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ انہوں نے جمہوری اداروں کے کمزور ہونے اور خاص طور پر مسلمانوں کے لیے جو تیزی سے نشانہ بن رہے ہیں، باہمی محبت اور سلامتی کے زوال پذیر تانے بانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارا معاشرہ گزشتہ ایک دہائی سے اقتدار میں رہنے والوں کی پالیسیوں اور رویوں کی وجہ سے جس صورتحال سے دوچار ہے وہ انتہائی تشویش ناک امر ہے۔‘‘
نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے خبر دار کیا کہ یہ منفی تبدیلیاں نہ صرف مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ پورے ملک کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ سماجی بندھنوں کا کمزور ہونا اور مسلمانوں میں خوف اور عدم تحفظ کا بڑھنا ملک کی ترقی اور امن کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپسی محبت اور احترام جو اس ملک کے شہریوں کو باندھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، شدید خطرے میں ہے، خاص طور پر مسلم کمیونٹی کے لیے، جسے غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے مسلمانوں کو ایک ذمہ دار شہری کے طور پر جمہوری عمل میں فعال طور پر حصہ لینے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے انصاف، امن اور سب کے لیے ترقی کی وکالت کی۔ انہوں نے کہا کہ سماجی سطح پر ہونے والا نقصان اتنا بڑا ہے کہ اسے ٹھیک کرنے کے لیے ایک طویل وقت اور ٹھوس کوششیں درکار ہوں گی۔ لیکن ہمارا کردار جمہوریت کی بنیادوں، آئین اور حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔
ما بعد انتخابات تین امکانی منظر ناموں پر زور دیتے ہوئے کہ موجودہ انتخابات صرف ایک اور سیاسی واقعہ نہیں ہے بلکہ ملک کے لیے ایک اہم لمحہ ہے۔ پروفیسر سلیم نے زور دے کر کہا کہ یہ نتیجہ ہندوستان میں جمہوریت اور سماجی ہم آہنگی کے مستقبل کو تشکیل دے گا۔ انہوں نے انتخابات کے بعد کے تین امکانی منظر ناموں کا خاکہ پیش کیا، جن میں سے ہر ایک ملک اور مسلمانوں کے لیے مختلف مضمرات رکھتا ہے۔
سب سے پہلے موجودہ قوتیں، جنہیں وہ ملک کے لیے خطرہ اور مسلمانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج سمجھتے ہیں، نئی طاقت کے ساتھ اقتدار میں واپس آسکتی ہیں۔ ’’یہ قوتیں، اپنے تفرقہ انگیز ایجنڈے کے ساتھ، ہماری قوم کے سماجی تانے بانے اور جمہوری بنیادوں کو مزید نقصان پہنچائیں گی۔ اس سے قوم مزید انتشار اور مشکلات میں ڈوب جائے گی، اقلیتی برادری کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے‘‘۔
دوسرے منظر نامے میں، موجودہ حکم راں قوتیں اپنی طاقت میں کمی دیکھ سکتی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک کمزور حکومت اتحاد پر منحصر رہے گی۔ اگرچہ یہ ان کے ایجنڈے کو سست کر دے گا لیکن وہ پھر بھی اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے حکومتی اداروں کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔
پروفیسر محمد سلیم انجینئر کے مطابق تیسرا اور سب سے زیادہ مطلوب منظرنامہ اپوزیشن اتحاد کی جیت ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ یہ نتیجہ ایک مکمل حل نہیں بلکہ جمہوری اقدار اور سماجی ہم آہنگی کی بحالی کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا ’’یہ ہماری خواہش اور کوشش ہے اور اب تک ہونے والے انتخابات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسی نتیجہ کا امکان بھی ہے۔‘‘
اگر اپوزیشن اقتدار میں آتی ہے، تو انہوں نے بہت زیادہ خوش فہمی میں مبتلا نہ رہنے کا مشورہ دیا، کیونکہ موجودہ صورتحال کی بنیادی وجوہات ماضی کی حکومتوں کی پالیسیوں اور اقدامات میں تلاش کی جا سکتی ہیں جو ’سیکولر پارٹیاں‘ کہلاتی ہیں ان کی حکم رانی چھ دہوں پر محیط رہی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے مایوسی کو مسترد کردیا اور اس بات پر زور دیا کہ اگر موجودہ قوتیں اقتدار برقرار رکھتی ہیں، تب بھی ملت میں چیلنجوں پر قابو پانے کی طاقت ہے۔
چیلنجوں کے باوجود، مایوسی نہیں اور امید برقرار
وسیع تر چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے مایوسی کی اس کیفیت سے خبردار کیا کہ ان کی خواہشات کے خلاف حکومت، اسلام اور مسلمانوں کے لیے تباہی کا باعث بنے گی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’’حکومت چاہے ہماری مرضی کے مطابق بنائی جائے یا اس کے خلاف، ہمیں اس ملک کے ذمہ دار شہریوں کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے ارکان کی حیثیت سے مثبت انداز اپنانا چاہیے۔‘‘
نائب امیر جماعت نے متنبہ کیا کہ ’’یہ نا امیدی کا تصور کہ اگر موجودہ طاقتیں اقتدار میں آئیں گی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا، نہ انتخابات ہوں گے نہ اسلام رہے گا نہ مسلمان باقی رہے گا، حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ مایوسی کا یہی ذہن ہمارے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہے۔‘‘
دنیا بھر میں اسلاموفوبیا اور اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کی بڑھتی ہوئی لہر کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے مثالی طرز عمل اور کردار کے ذریعے ان بیانیوں کا مقابلہ کرنے کی ہنگامی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’’اسلام کی اصل طاقت اس کی اخلاقی تعلیمات میں مضمر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب افراد اسلام قبول کرتے ہیں تو ان کے اخلاقی تانے بانے بلند ہوتے ہیں اور کوئی بھی طاقت نیک کردار کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘‘۔
قرآن مجید کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے حاضرین کو انسانیت کی فلاح و بہبود، انصاف اور انسانی وقار کو برقرار رکھنے اور ملک کو دنیا و آخرت میں ترقی و خوشحالی کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے ’’بہترین امت‘‘ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری یاد دلائیں۔ انہوں نے کہا ’’جب ہم اس تصور کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو موجودہ چیلنجز اتنے مشکل نہیں لگیں گے۔ وہ صرف اس لیے مضبوط دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نے اپنی سوچ کو محدود کر رکھا ہے‘‘
پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ’’خوف اور مایوسی کو ہمارے دلوں میں یا ملک کے دوسرے شہریوں میں جگہ نہیں ملنی چاہیے۔ ہم کسی بھی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ہم اللہ لا شریک لہ کی لا محدود قدرت پر یقین رکھتے ہیں۔ حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں ہمیں ہر حال میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس مضبوط، پر امید جذبے کی اہمیت پر زور دیا، جس کی جڑیں ایمان میں پیوست ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات عوام تک پہنچاتے ہوئے مصروف شہریوں کے طور پر ذمہ داریاں نبھانے کے لیے صحیح ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ انہوں نے حاضرین کو یاد دلایا کہ اصل چیلنج مسلم امت کے ذمہ دار فرد اور ارکان کے طور پر اپنے کردار کو برقرار رکھنے میں ہے۔
مشغولیت اور تعمیری شرکت
انتخابی نتائج سے قطع نظر، پروفیسر سلیم انجینئر نے تعاون کرنے اور چوکس رہنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اچھے کام کی تعریف کے ساتھ ساتھ غلط کام پر سخت تنقید بھی کی جانی چاہیے، لیکن یہ تعصبات کی بجائے اصولوں کی بنیاد پر ہو۔
منتخب نمائندوں کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر ان کے ساتھ مسلسل مشغولیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر انتخابی نتائج سازگار نہ ہوں تب بھی مسلمانوں کو حکومت اور نمائندوں کے ساتھ تعمیری انداز میں مشغول ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اب اگر ہم نے ان کے خلاف ووٹ دیا ہے تو بھی اپنے نمائندے کی حیثیت سے ان پر نظر رکھنا، ان سے سوال کرنا، ان کی اچھی باتوں کو سراہنا، ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔
نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے واضح کیا کہ ’’ہماری مصروفیت کسی فائدے کے حصول کے لیے نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس لیے کہ وہ ہمارا نمائندہ ہے۔ اسی طرح ہماری مخالفت بھی اصولوں پر مبنی اور ملک کی فلاح و بہبود کے لیے ہونی چاہیے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہماری مصروفیت کا مقصد حکم رانی کو بہتر بنانا اور جمہوری اور
انسانی اقدار کا تحفظ کرنا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ جو بھی حکومت بنتی ہے اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر حکومت ہماری خواہش کے خلاف بنتی ہے تو ایسا نہیں ہے کہ ہم اس سے تمام تعلق ختم کر دیں گے۔ ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہمیں قائم ہونے والی حکومت پر نظر رکھنی ہوگی، اس کے ہر عمل کی ذمہ داری لینی ہوگی اور اسے بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔
امت مسلمہ کا کردار: وسیع تر مشن
پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے اس بات پر زور دیا کہ مسلم کمیونٹی کو انتخابی نتائج یا تین ممکنہ حالات کو صرف برادری کی جیت یا ہار کی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ’’ہم محض ایک برادری نہیں ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ایک امت ہیں، ایک ایسا گروہ جس کا مقصد اور مشن برادری کے حقیر مفادات سے بالاتر ہے۔
انہوں نے حاضرین اور ملک بھر کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ ایک محدود ’کمیونٹی‘ والی ذہنیت سے آگے بڑھ کر ایک عظیم مشن کے ساتھ اپنے عظیم کردار کو قبول کریں، ملک کے تمام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں، انصاف، وقار، تکثیریت کو فروغ دیں اور اپنے عمل اور کردار سے اسلام کا پیغام پہنچائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اسلام کی اخلاقی طاقت کا مظاہرہ کرنے اور اپنے خلاف نفرت کی جھوٹی داستانوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستانی معاشرے کو ابھی تک صحیح معنوں میں اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کے طرز عمل کی اخلاقی طاقت کا تجربہ کرنا باقی ہے۔ لہذا بہتر اشتراک اور اچھے طرز عمل کے ذریعے اس کو فروغ دینا ہمارا اہم طویل مدتی مقصد ہونا چاہیے۔
نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے نشان دہی کی کہ چیلنجوں کے باوجود، ہندوستانی معاشرے میں ایک مثبت پہلو باقی ہے۔ یہاں ایک بڑی آبادی ہے جو خدا اور مذہب پر یقین رکھتی ہے اور سچائی کو قبول کرنے کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں اور پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کی حقیقی تعلیمات اور اس کے اخلاقی اقدار کو پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ہم وطنوں کے ساتھ گہرے روابط استوار کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پروفیسر سلیم انجینئر نے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنے کاموں کے ذریعے لوگوں تک پہنچیں، بات چیت کریں اور اعتماد پیدا کریں۔ ’’ہم کسی کے دشمن یا حریف نہیں ہیں۔ اسلام پوری دنیا کے لیے رحمت ہے اور اس پر ایمان رکھنے والا مسلمان جہاں بھی رہے گا اس کے لیے رحمت ہی رہے گا۔ بہت سے لوگ غلط معلومات اور پروپیگنڈے کا شکار ہیں،‘‘
اپنی تقریر کے اختتام پر پروفیسر سلیم نے مسلمانوں کو انتخابی نتائج سے قطع نظر پر امید اور مثبت رہنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا ’’اس ملک کے لوگوں کے ساتھ ہمارا رشتہ گہرا رشتہ ہونا چاہیے۔ انتخابات آئیں گے اور جائیں گے، حکومتیں بنیں گی، لیکن ہماری بنیادی اور طویل المدتی ذمہ داری ہے کہ ہم تمام ہم وطنوں کے ساتھ قریبی تعلقات کو فروغ دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسلام کا پیغام ہمارے اچھے طرز عمل کے ذریعے ان تک پہنچے‘‘۔
پروفیسر سلیم انجینئر نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں سمیت تمام طبقوں کے ساتھ کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ ان کی اصلاح اور سچائی کو پہنچانے کے لیے خلوص نیت سے کام کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے سامعین کو یاد دلایا کہ زیادہ تر لوگ اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ درست معلومات کی کمی یا آدھا سچ ہے۔ انہوں نے انہیں ایک شہری اور امت مسلمہ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کو ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے ہوئے ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کوششیں جاری رکھنے پر زور دیا۔ دعا پر اجتماع کا اختتام عمل میں آیا۔
***

 

***

 ’’اس ملک کے لوگوں کے ساتھ ہمارا رشتہ گہرا رشتہ ہونا چاہیے۔ انتخابات آئیں گے اور جائیں گے، حکومتیں بنیں گی، لیکن ہماری بنیادی اور طویل المدتی ذمہ داری ہے کہ ہم تمام ہم وطنوں کے ساتھ قریبی تعلقات کو فروغ دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسلام کا پیغام ہمارے اچھے طرز عمل کے ذریعے ان تک پہنچے‘‘۔
پروفیسر محمد سلیم انجینئر


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024