انتخابی منشور اور بھارتی نوجوان

ہندوستان کے نوجوان طبقے کو فرقہ وارانہ سیاست کا شکار ہونے سے بچایا جائے

شبانہ جاوید، کولکاتا

ملک میں بڑھتی بیروزگاری سے اقلیتی طبقے کے نوجوانوں میں مایوسی و عدم تحفظ کا احساس تیز
سماج کے دانشور طبقے نے نوجوانوں کو نمائندگی دینے فرقہ وارانہ بیانات کے خلاف تحریک چلانے کی ضرورت پر زور دیا 
کسی بھی ملک کا نوجوان طبقہ اگر بیدار ہو تو وہ ملک آسانی سے ترقی کی راہیں طے کرتا ہے۔ نوجوان ملک اور معاشرے میں تبدیلی کے اصل ہیرو ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں آج تک جتنی بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں، وہ سماجی، سیاسی، معاشی، ثقافتی، سائنسی یا سیاسی ہی کیوں نہ ہوں، ان میں سے اکثر و بیشتر کی بنیاد میں نوجوانوں ہی نظر آتی ہیں۔ ہندوستان میں نوجوانوں کی ایک بھرپور تاریخ رہی ہے۔ قدیم زمانے سے لے کر آج تک ملک کے نوجوان طبقے نے مذہبی اور سماجی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔
سرسید احمد خان نے تعلیمی میدان میں گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی تحریک نے ملک کو تعلیمی طور پر ایک منفرد پہچان دی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے سیاسی و سماجی طور پر لوگوں کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ٹیپو سلطان، رانی لکشمی بائی، بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد اور نیتا جی سبھاش چندر بوس جیسے نوجوان انقلابیوں نے انگریزوں سے لوہا لیا. بابائے قوم مہاتما گاندھی کی تحریکوں کو کامیاب بنانے اور ان کی قیادت میں ہندوستان کو آزادی دلانے میں نوجوان لیڈروں نے اہم کردار ادا کیا۔ آزادی کے بعد بھی رونما ہونے والی کئی تحریکوں اور تبدیلیوں کی قیادت نوجوانوں نے کی ہے۔ کمپیوٹر انقلاب اور نئی معاشی پالیسی بھی نوجوان ذہنوں کی پیداوار تھی۔ بین الاقوامی سطح پر انٹارکٹیکا میں پہلا ہندوستانی مشن جس کی قیادت ایس زیڈ قاسم نے کی تھی وہ ایک نوجوان تھے۔ سابق صدر جمہوریہ عبدالکلام کو ملک کا میزائل مین کہا جاتا ہے۔ جنہوں نے جوانی میں ایک ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا. ملک کے  آئی ٹی انقلاب میں عظیم پریم جی کی خدمات بھی لائق تحسین ہیں۔ اسی لیے پروفیسر معین احمد نے نوجوانوں کو سماجی اصلاح کے لیے آگے آنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو بہتر انسانی وسائل میں تبدیلی لانے کے لیے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں آج بھی روایتی انداز میں تعلیم دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہماری یونیورسٹیاں عالمی مقابلے میں پیچھے ہیں۔ تعلیمی نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ حاصل کردہ نمبروں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے بچوں میں حفظ کرنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے اور ان میں تخلیقی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ ہمیں پرائمری اور ہائیر دونوں سطحوں کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کے نوجوان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا بھر میں کام کر رہے ہیں لیکن ہم ان سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ نوجوانوں کی ترقی سے ہی ملک ترقی کرے گا۔ جس دن نوجوانوں کی شمولیت سیاست سے انتظامیہ تک، سماج سے سائنس تک، اور کھیلوں سے کاروبار تک بڑھے گی، ملک کا مستقبل اتنا ہی زیادہ روشن ہوگا۔ ہمارے ملک کے نوجوان جب امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک جاتے ہیں تو وہاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں اور نوبل جیسے باوقار اعزازات بھی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں نوجوانوں کو بہتر مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔ سابق صدر ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے کہا تھا کہ ہمارے پاس نوجوانوں کے وسائل کی شکل میں بے پناہ دولت ہے اور اگر سماج کا یہ طبقہ بااختیار ہو جائے تو ہم بہت جلد سپر پاور بننے کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود یہاں سیاست میں نوجوانوں کی شرکت بہت کم ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ نوجوانوں میں سیاست کے بارے میں منفی جذبات ہوتے ہیں، اسی لیے وہ سیاست میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔ لیکن انہیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک وہ سیاست میں حصہ نہیں لیں گے، سیاست سے منفیت نہیں جائے گی۔ ہندوستانی آئین نے اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے نوجوانوں کو ووٹ دینے کا حق دیا ہے۔ ایسے میں نوجوانوں کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے۔ ایک بار پھر ملک میں لوک سبھا الیکشن کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ اس بار 1.82 کروڑ نوجوان ووٹرس ہیں جو الیکشن میں حصہ لیں گے۔ ہر سیاسی جماعت نوجوان ووٹروں کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی۔
لوک سبھا انتخابات کی پیش رفت میں کانگریس اور بی جے پی دونوں نے اپنے اپنے انتخابی منشور جاری کیے ہیں جس میں ہندوستان کے مستقبل کے لیے اپنے وژن اور وعدوں کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ جہاں کانگریس پارٹی نے ‘نیائے پترا’ کے عنوان سے اپنا منشور پیش کیا ہے، وہیں بی جے پی نے ‘سنکلپ پترا’ کے نام سے مودی کی گارنٹی ٹیگ لائن کے ساتھ اپنا منشور جاری کیا جس میں غریبوں، نوجوانوں، کسانوں اور خواتین پر خصوصی توجہ دی گئی ہے .
بی جے پی کے انتخابی منشور میں نوجوانوں کو لبھانے کے لیے جو وعدے کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں :
نوکری کے لیے ہونے والے امتحانات میں بد انتظامی روکنے کے لیے ملک بھر میں قانون کا نفاذ۔
نوکری کے امتحانات کا شفاف طریقے سے انعقاد۔
قوم کی تعمیر میں نوجوانوں کی شمولیت۔
اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کو بڑھانا اور اسٹارٹ اپس کے لیے فنڈنگ۔
سرکاری خریداری میں اسٹارٹ اپ کی حوصلہ افزائی کرنا۔
مینوفیکچرنگ میں روزگار کے مواقع میں اضافہ۔
مزید عالمی قابلیت مراکز (GCCs) گلوبل ٹیک سنٹرز (GTCs) اور گلوبل انجینئرنگ سنٹرز (GECs) قائم کرکے ملک کو اعلیٰ درجے کی خدمات کا عالمی مرکز بنانے کی کوششوں کو تقویت دینا
نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کو یقینی بنانا اور کاروباری جذبے کو فروغ دینا۔
سیاحت میں روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنا وغیرہ
وہیں کانگریس نے ملک کے نوجوانوں کو راغب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، اپنے انتخابی منشور میں پہلی بار نوجوانوں کے لیے کہا کہ انہیں "روزگار کا حق” جیسی اسکیم دی جائے گی اور نوجوانوں کو الاؤنس بھی دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ کانگریس پارٹی نے کہا کہ وہ ملک میں پیپر لیک کے ذمہ داروں کے خلاف سخت قانون اور سزا کا بھی بندوبست کرے گی۔ اس نے اپنے منشور میں سرکاری بھرتیوں میں شفافیت لانے کے لیے اقدامات کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ملک کا نوجوان طبقہ بھی الیکشن کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ بیشتر نوجوانوں نے ملک میں گھٹتے ہوئے روزگار کے مواقع کو افسوسناک بتاتے ہوئے سیاسی جماعتوں پر نوجوان نسل کے اندر بڑھتی مایوسی کے لیے سیاسی لیڈروں کو ذمہ دار بتایا ہے۔ کولکاتا سے تعلق رکھنے والے ابھجیت داس انجینئرنگ کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سونے کی چڑیا کہلائے جانے والے ملک ہندوستان میں نوجوان روزگار کے لیے پریشان ہیں۔ اچھی تعلیم و ڈگری کے باوجود رشوت لینے کے بڑھتے رحجان نے ٹیلینٹ کی بنیاد پر نوکری کے دروازوں کو بند کر دیا ہے، جبکہ جادو پور یونیورسٹی کے طالب علم محمد دانش ریاض نے کہا کہ الیکشن میں نوجوانوں کو دینے کے لیے لیڈروں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ماحول کو فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دانش نے حیرانی کا اظہار کیا کہ آج ملک اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ ترقیاتی کاموں کے مقابلے میں نفرت اتنی حاوی ہوگئی ہے کہ اس طرح کے بیانات پر ہی لیڈروں کو کامیابی حاصل کرنے کا یقین ہوچکا ہے۔ کولکاتا یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کی طالبہ ارادھنا چٹرجی نے کہا کہ نوجوانوں کی الگ دنیا ہوتی ہے وہ کچھ کرنے کی لگن کے ساتھ اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ سیاسی اثرات اور فرقہ وارانہ بیانات سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج نوجوانوں کی بڑی تعداد فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر رہی ہے جو ملک کے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ کانگریس کے ذریعہ کرکٹ ٹیم میں ایک خاص طبقے کو مواقع دیے جانے، منگل سوتر، "بابری تالہ” جیسے وزیر اعظم کے بیانات کو حیران کن بتاتے ہوئے اردھنا نے کہا یہ کیسا بیان تھا کیا نوجوان طبقہ اس طرح کے بیان کو تسلیم کرے گا؟ اگر کسی پارٹی کو لگتا ہے کہ اس طرح کے بیانات اس کے ووٹ بینک کو مضبوط کریں گے تو یہ آنے والے دنوں میں ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ سرفراز احمد جو پیشے سے ڈاکٹر ہیں، انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے فرقہ پرست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت سے ان کے نوجوانوں میں بےچینی، عدم اعتمادی و مایوسی پائی جا رہی ہے۔ انہیں یہ احساس ہو رہا ہے کہ ان کے اپنے ملک ہی میں ان کے لیے جگہ نہیں ہے۔ مسلمان وہ طبقہ ہے جو زیادہ تر پسماندہ ہے جس کی ترقی کے وعدے کے ساتھ حکومت کو اقدامات کرنا چاہیے۔ سچر کمیٹی نے 2005 میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی تب مسلمان، دلتوں اور ہندو او بی سی سے بھی زیادہ پسماندہ تھے۔ آج بھی اس صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ سیاسی،سماجی و تعلیمی پسماندگی کے ساتھ اب مسلمان مایوسی، احساس کمتری اور عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہو رہے ہیں۔ الیکشن میں اٹھائے گئے مسائل میں بے روزگاری، غربت، بدعنوانی اور سماجی تحفظ کے بنیادی مسائل ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جو ہر سطح پر نوجوانوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں نوجوانوں کی نمائندگی پر زور دیں اور نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ اپنے حصے کا چراغ جلانے میں کوتاہی نہ کریں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 مئی تا 25 مئی 2024