انتخابات: وفاداریوں کی تبدیلی کا موسم

اہل سیاست کو اب اصول و نظریہ اور اخلاقیات سے کوئی مطلب نہیں

زعیم الدین احمد حیدرآباد

سیاسی نمائندوں کا اپنی وفاداریاں تبدیل کرنا، ایک سیاسی پارٹی کو چھوڑ کر دوسری سیاسی پارٹی میں شامل ہونا، یہ روایت کسی ایک سیاسی پارٹی کے لیے مختص نہیں رہ گئی ہے بلکہ ساری ہی سیاسی پارٹیوں میں یہ بیماری پائی جاتی ہے، اس متعددی مرض سے کوئی سیاسی پارٹی مستثنیٰ نہیں ہے۔ ایک دن جس پارٹی میں رہتے ہوئے اس سے وفاداری کا دم بھرتے تھے، اس کے کاموں کی تعریفیں کرتے تھے اور تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تھے، اگلے ہی دن اپنی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے اسی پارٹی کے خلاف کھڑے ہو کر اسے کوسنے لگتے ہیں، اس کے کاموں پر تنقید کرتے ہیں اور طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں۔
آپ نے ایسے مناظر بارہا دیکھے ہوں گے کہ ایک شخص جو کل تک پانی پی پی کر ایک پارٹی کو گالیاں دیتا تھا، اس پر نت نئے الزامات لگاتا تھا، اگلے دن وہی شخص اسی پارٹی کی تعریفوں کے پل باندھ رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج کی سیاسی پارٹیاں کوئی نظریاتی پارٹیاں نہیں رہیں، تب ہی تو اس کے کارکن بڑی آسانی سے اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کر لیتے ہیں۔
خاص طور پر ریاست تلنگانہ کی یہی صورت حال ہے۔ لیڈروں کا بی جے پی سے نکل کر بی آر ایس یا کانگریس میں جانا، بی آر ایس سے نکل کر کانگریس یا بی جے پی میں جانا ایک عام بات ہوگئی ہے۔ دراصل سیاسی پارٹیوں کے اندر کوئی اصول و ضوابط باقی نہیں رہے ہیں۔ بی آر ایس جو برسرِ اقتدار تھی اس نے موجودہ ارکان اسمبلی کو ہی دوبارہ میدان میں اتارا ہے، اور جو نئے لوگ اس بار بی آر ایس سے انتخابات لڑنے کے خواہش مند تھے انہیں مایوسی ہوئی۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ یا تو وہ اپنی خواہش کو ختم کرلیں یا کسی دوسری سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑیں۔ چنانچہ ایسے لوگوں نے اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے دوسری سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہی صورت حال بی جے پی میں بھی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی آر ایس، جس نے موجودہ ارکان کو ہی دوبارہ میدان میں اتارا ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ عوام اس کے کام سے خوش ہیں لہذا عوام تیسری بار بھی اسی کو ووٹ دے کر جتائیں گے، تو ایسی صورت میں اسے کیا ضرورت آن پڑی کہ وہ دوسری پارٹی کے افراد کو اپنی پارٹی میں شامل کرلے؟ بعض کی حالت تو یہ ہے کہ آج وہ کسی پارٹی میں تھے، انہیں ٹکٹ نہیں دیا ملا تو کل کسی دوسری پارٹی میں شامل ہوگئے، انہیں وہاں بھی ٹکٹ نہیں ملا تو وہ پھر اسی پارٹی میں واپس ہوگئے جہاں سے نکلے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں بھی سیاست کے تئیں کوئی سنجیدگی باقی نہیں رہی۔ سیاسی قائدین کی اس اچھل کود اور ان کی سیاسی خود غرضی کو دیکھ کر وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ یہ تو صرف اپنا مفاد دیکھنے والے ہیں انہیں عوام کے مفاد سے کوئی سروکار نہیں ہے، اسی لیے عوام نے بھی ان کے وعدوں کو ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیا ہے۔ آخر ان سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کی کیا وجوہات ہیں؟ کیوں سیاست اس حد تک گر گئی ہے؟ کیا اس میں سیاسی قائدین کی غلطی ہے یا عوام کی؟ یا پھر سرے سے موجودہ سیاسی نظام ہی غلط ہے؟ یہ سوالات بڑے اہم ہیں۔
اس کی دو چار بنیادی وجوہات نظر آتی ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت سیاست اپنی اصل حیثیت کھو بیٹھی ہے۔ سیاست سے اصول، اخلاقیات، نظریات غائب ہوگئے ہیں۔ پہلے کبھی سیاست کسی نظریہ پر چلتی تھی، اصولوں پر چلتی تھی، لیکن موجودہ سیاست میں اصول و ضوابط کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی ہے۔ سیاست میں اصولوں اور نظریات کا دور دور تک تعلق نظر نہیں آتا۔ پہلے کبھی سیاسی پارٹیاں عوامی خدمت کے بل بوتے پر سیاست کرتی تھیں، سیاسی لیڈر جو کبھی فلاحی کاموں کے لیے جانے جاتے تھے، مشکل حالات میں عوام کے درمیان نظر آتے تھے، لیکن بدقسمتی سے آج ویسا ماحول نہیں ہے اور نہ ہی ویسے سیاسی لیڈر ہیں جو عوام کے دکھ درد اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے سیاست میں سرگرم رہتے تھے۔ کبھی سیاست کا محور و مرکز عوامی بہبود ہوا کرتا تھا آج وہ محور و مرکز ہٹ کر مادہ پرستی، دولت و شہرت رہ گیا ہے۔ اسی لیے ایسی سیاسی پارٹیوں کی حیثیت ختم ہوتی جا رہی ہے جو کسی نظریہ کو لے کر چل رہی ہوں۔ جیسے بائیں بازو کی سیاست، آج ان کی سیاسی حیثیت اور ان کے نظریہ کی کوئی وقعت موجودہ سیاست میں نظر نہیں آتی۔ آپ یہاں سوال کرسکتے ہیں کہ پھر بی جے پی بھی ہندوتوا نظریہ کی پارٹی ہے، اس کی سیاست کیوں پھل پھول رہی ہے؟ اس کا جواب یہ کہ بی جے پی نظریاتی طور پر سکڑ رہی ہے، وہ جن اصولوں پر قائم ہوئی تھی آج انہیں وہ اپنے پیروں تلے روند رہی ہے۔ کبھی سودیشی  اس کا نعرہ ہوا کرتا تھا لیکن کیا آج وہ اس پر قائم ہے؟ بی جے پی کبھی خود کو کسان دوست، جوان دوست پارٹی کہلاتی تھی لیکن آج وہی ان کی سب سے بڑی دشمن بنی ہوئی ہے۔ جسے کبھی چھوٹے اور درمیانی کاروباری افراد کی محافظ پارٹی کہا جاتا تھا، آج اسی نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ سرمایہ داروں کی پسندیدہ پارٹی بنی ہوئی ہے۔ خود اس کے بانیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے نظریات و اصولوں سے پھر گئی ہے۔ عوام کا خیال بھی یہی ہے کہ آج کی سیاسی پارٹیوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، وہ کسی اصولوں کی بنیاد پر کھڑی ہوئی نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی پہچان پہلے عوامی خدمت، عوامی مسائل پر لڑنے، جدو جہد کرنے، حقوق کے لیے احتجاج کرنے اور اپنی بات کو منوانے سے ہوتی تھی، لیکن آج کی سیاسی پارٹیوں کی پہچان روپے کمانا، دولت کے انبار جمع کرلینا، اپنی جیبیں بھرنا ہوگئی ہے، یہی وجہ ہے کہ امیدواروں پر اگر آپ نظر ڈالیں گے تو ان میں اکثریت کروڑ پتیوں کی نظر آتی ہے، ایک ایک امیدوار کے پاس ایک دو کروڑ نہیں بلکہ اربوں روپے ہیں۔ تلنگانہ میں بی آر ایس کے 95 فیصد امیدوار اربوں روپے کے مالک ہیں۔ مجلس پارٹی کے پانچ امیدوار دسیوں کروڑ روپیوں کے مالک ہیں، یہی وجہ ہے کہ پارٹیاں ان افراد کو ٹکٹ دے رہی ہیں جن کے پاس کروڑوں روپے ہوں۔ بھلا بتائیے ایسے امیر اور صاحب ثروت افراد کیا خاک عوام کا درد رکھیں گے اور کیا عوام کی خدمت کریں گے؟ انہیں تو ’ھل من مزید‘ کی بیماری لگی ہوتی ہے۔ پھر اس میں ایک اور بات بھی شامل ہوگئی ہے۔ پہلے تو وہ دولت مند ہو، دوسرے وہ کسی مخصوص ذات، کسی مخصوص طبقے کا ہو، انتخابات میں ذات و طبقات کا عنصر بھی بہت کام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے مسلمان ان دونوں چیزوں میں کسی بھی درجے نہیں آتے اسی لیے ان کی سیاسی حیثیت نہیں کے برابر ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں یہ بات طے ہے کہ ان کے پاس مقدم چیز  انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔ اس وقت سیاسی پارٹیوں اور ان کے نمائندوں کا مقصد صرف اور صرف انتخابات میں کامیاب ہونا ہے۔ پارٹیاں ان ہی افراد کو ٹکٹ دیتی ہیں جو جیت سکیں۔ ان کے سامنے ایک ہی مقصد ‘کرو یا مرو ہر حال میں جیت درج کرو’ ہوتا ہے۔ اب جیت کا دارومدار کیا رہ گیا ہے؟ روپے تقسیم کرو، شراب پلاو اور ووٹ خریدو۔ ایک کارندہ جو اپنی سیاسی پارٹی کے لیے سالوں سنجیدگی سے کام کرتا ہے، عوام کی خدمت میں لگا رہتا ہے محنت کرتا ہے، جیسے ہی انتخابات آتے ہیں، ایک سرمایہ دار یا ایک ساہوکار پیسوں کا صندوق لے کر پارٹی قائدین کے پاس پہنچ جاتا ہے اور ٹکٹ خرید لیتا ہے۔ اسے ٹکٹ دیتے وقت یہی دیکھا جاتا ہے کہ اس کے پاس پیسہ ہے یا نہیں؟ اس کا کردار کیا ہے اس نے پہلے عوامی خدمت کی ہے یا نہیں، اس کے نظریات کیا ہیں؟ یہ ساری باتیں آج بے کار ہوگئی ہیں۔ یہی کچھ تو ہو رہا ہے آج کی سیاست میں۔ پہلے سرمایہ کاری پھر جیت کے بعد سود سمیت سرمایہ کی وصولی۔ مسلمانوں کے نام پر قائم کی گئی پارٹی کا بھی یہی حال ہے، ان کے پاس بھی کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے، ان کا بھی وہی طریقہ کار ہے جو دوسری سیاسی پارٹیوں کا ہے۔ خود کی جیبیں بھرنا، ٹکٹوں کو بیچنا یہ ساری چیزیں وہاں بھی بڑی شان کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔ دوسری طرف عوام کی صورت حال دیکھ لیجیے۔ غربت، بے روزگاری، بنیادی شہری سہولتوں کا فقدان، ان علاقوں کے نمائندے چمچماتی ہوئی گاڑیوں میں گردنیں اکڑا کر پھرتے ہوئے غریب عوام کا مذاق اڑاتے ہیں۔
چوتھی چیز یہ ہے کہ لیڈر سیاست کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا چکے ہیں، یعنی سیاست میں سرمایہ کاری کرو اور اچھا منافع کماؤ۔ گویا سیاست تجارت بن گئی ہے۔ جب اصول یہ مقرر ہوگیا تو ان کے پاس سیاسی اقدار کی کوئی اہمیت باقی رہی نہ ہی عوامی خدمت کا کوئی جذبہ۔ یہی وجہ ہے کہ ذاتی منفعت کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جو پارٹی مناسب لگتی ہے وہ اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔
پانچویں چیز، سیاسی پارٹیوں نے بھی اپنی فطرت بدل لی ہے، پہلے کوئی فرد پارٹی چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں شامل ہوتا تھا تو دوبارہ اس کو اپنی پارٹی میں شامل نہیں کیا جاتا تھا، لیکن آج صورتحال بالکل برعکس ہوگئی ہے، اب کوئی بھی کبھی بھی کسی بھی پارٹی میں شامل ہوسکتا ہے، نکل سکتا ہے اور نکل کر دوبارہ پرانی پارٹی میں واپس آ سکتا ہے۔اسی لیے بڑی آسانی کے ساتھ وفاداریاں تبدیل ہو رہی ہیں۔ ان کے پاس اقدار و اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ تمام ہی سیاسی پارٹیاں اس وقت کھلے دروازے کی پالیسی اپنا رہی ہیں۔
چھٹی چیز ان سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کا عوام نے بھی اثر لینا چھوڑ دیا ہے، انہیں ان کی سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی سے کوئی مطلب نہیں ہے، کیوں کہ ان کا کسی بھی پارٹی میں رہنا ایک ہی بات ہے، جو کام وہ ایک سیاسی پارٹی میں کریں گے وہی کام وہ دوسری سیاسی پارٹی میں رہ کر جاری رکھیں گے، عوامی خدمت کا تو کوئی تصور ان کے پاس ہے ہی نہیں۔
ایسے ماحول میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمیں وہ اصول اپنانا چاہیے جو عوام کے لیے مفید ہو۔ ہمیں مجبوراً ’بڑے شیطان سے بچنے کے لیے چھوٹے شیطان کا ساتھ دیا جائے‘ کے اصول کو اپنانا پڑے گا۔ بی جے پی ہماری سب سے بڑی دشمن اور ہندوتوا نظریات کی حامل سیاسی پارٹی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کوئی پارٹی بحیثیت مجموعی اس میں شامل تو نہیں یا اس کا ساتھ دینے والی تو نہیں؟ اگر نفس مسئلہ یہی ہی ہے تو ہمیں اس پارٹی کا کسی بھی صورت میں ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اگر کوئی پارٹی بحیثیت مجموعی اس میں شامل نہیں ہے لیکن اس کا درپردہ ساتھ دینے کا امکان ہو یا بوقتِ ضرورت اس کا ساتھ دے سکتی ہو تو ایسی پارٹی کا بھی ہمیں ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ ایسی صورت میں ہمارے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے، وہ یہ کہ ایسی سیاسی پارٹی کا ساتھ دینا چاہیے جو نظریاتی طور پر ہندوتوا کی مخالف ہو، وہ کسی بھی صورت میں ہندوتوا نظریہ کی حامل پارٹی میں شامل نہ ہوتی ہو، یہ ہوسکتا ہے کہ اس کے کچھ افراد پارٹی چھوڑ دیں لیکن وہ مجموعی طور پر اس میں شامل نہیں ہوتی ہو۔
***

 

***

 سیاسی پارٹیوں کی پہچان پہلے عوامی خدمت، عوامی مسائل پر لڑنے، جدو جہد کرنے، حقوق کے لیے احتجاج کرنے اور اپنی بات کو منوانے سے ہوتی تھی، لیکن آج کی سیاسی پارٹیوں کی پہچان روپے کمانا، دولت کے انبار جمع کرلینا، اپنی جیبیں بھرنا ہوگئی ہے، یہی وجہ ہے کہ امیدواروں پر اگر آپ نظر ڈالیں گے تو ان میں اکثریت کروڑ پتیوں کی نظر آتی ہے، ایک ایک امیدوار کے پاس ایک دو کروڑ نہیں بلکہ اربوں روپے ہیں۔ تلنگانہ میں بی آر ایس کے 95 فیصد امیدوار اربوں روپے کے مالک ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 نومبر تا 18 نومبر 2023