انسانیت جھوٹ ومکر کے جال میں

سیاست سے معاشرت تک کوئی شعبہ دروغ گوئی سے پاک نہیں

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

بہتر معاشرت کے لیے جھوٹ سے بچنے اور انسانوں کو جھوٹ سے باز رکھنے کی ضرورت
بے بنیاد باتوں کو پھیلانا، افواہیں پھیلانا، جھوٹی خبریں پھیلانا معاشرے میں بد امنی کا سبب بنتے ہیں۔ جھوٹ آپس میں بدظنی، لڑائی جھگڑے و خون خرابے کا باعث بنتا ہے۔ کبھی کبھی تو بڑے بڑے فساد کا سبب بن جاتا ہے اور پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر اسے تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جھوٹ کو سارے گناہوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔ انسانوں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ کوئی بات بلا تحقیق کے اپنی زبان سے نہ نکالیں۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے اس کا جواب دینا پڑے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡئُوۡلًا (بنی اسرائیل:36)
(کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے) یعنی بلا تحقیق کوئی بات نہ کہو ورنہ اس پر تمہیں روز قیامت پکڑ ہو گی۔ انسان جو کلمہ بھی اپنی زبان سے نکالتا ہے اس کو فرشتے تحریر کر لیتے ہیں۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ جو بات اس نے کہی ہے اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا، اس کو ایک ایک بات کا جواب دینا ہوگا۔ جو بات اپنی زبان سے نکالتا ہے وہ فرشتے لکھ لیتے ہیں اور اس کو اللہ کے حضور پیش کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر اس کو قیامت میں جزا وسزا ملے گی۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْہِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ‘‘ (ق:18)
(کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو) جھوٹ بولنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِيْنَ‘‘ (آلِ عمران:61)
(جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو)
احادیث میں جھوٹ کو کبیرہ گناہ میں سب سے بڑے گناہ کے طور پر کہا گیا ہے۔’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’کیا میں تمہیں وہ گناہ نہ بتلاؤں جو کبیرہ گناہوں میں سے ہیں؟صحابہ کرام نے عرض کیا: ہاں! اے اللہ کے رسول! آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر آپ بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا: ’’خبردار! اور جھوٹ بولنا بھی کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے‘‘
ایسا جھوٹ جس میں فتنہ و فساد اور لڑائی جھگڑا ہوتا ہو یا ایک آدمی پر جھوٹ کی وجہ سے ظلم ہو رہا ہو، صرف وہی ممنوع نہیں ہے، بلکہ لطف اندوزی اور ہنسی مذاق کے لیے بھی جھوٹ بولنا ممنوع ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے، تاکہ اس سے لوگ ہنسیں، لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے، ایسےشخص کے لیے بربادی ہو، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو‘‘
ان آیات اور احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جھوٹ گناہ کبیرہ ہے اور جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہے۔ لیکن دور حاضر میں جھوٹ بولنا ایک معمولی بات سمجھنی جانے لگی ہے۔ جھوٹ کو بہت ہی خوبصورت بنا کر پیش کیا جانے لگا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں رہا جہاں جھوٹ کا سہارا نہ لیا جاتا ہو۔ آج معاشرے میں جھوٹ ایک صنعتی شکل اختیار کر چکا ہے۔ میدان سیاست تو جھوٹ کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ سیاست داں جھوٹ اس طرح بولتے ہیں گویا جھوٹ بولنا ان کا پیدائشی حق ہو۔ جھوٹ کی بھی کئی اقسام پیدا ہو گئی ہیں، انہیں مختلف اصطلاحات سے پکارا جانے لگا ہے۔اہل دانش نے جھوٹ کی سات اقسام بیان کی ہیں جو معاشرے میں رائج ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جسے سیاہ جھوٹ کہا جاتا ہے، جس میں صرف خود کو مصیبت سے مکمل طور پر بچانا مقصود ہوتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جسے سرخ جھوٹ کہا جاتا ہے۔ یہ دوسروں سے بدلہ لینے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس جھوٹ میں جھوٹا شخص دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنا بھی نقصان کر لیتا ہے۔ تیسری قسم وہ ہے جسے سرمئی جھوٹ کہا جاتاہے۔ اس میں جھوٹے شخص کا بھی کچھ فائدہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی دوسرے کا بھی فائدہ ہوجاتا ہے۔ چوتھی قسم ہے سفید جھوٹ۔ یہ جھوٹ ہمارے سماج کا جزلاینفک بنا ہوا ہے جس میں کسی کو جذباتی طور پر تکلیف سے بچانے کے لیے بولا جاتا ہے۔ تشدد اور جارحانہ رویہ سے بچنے کے لیے ہر کوئی سفید جھوٹ بولتا ہے یعنی نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کی تعریف کرنی پڑتی ہے۔ پانچویں قسم ہے مفاد پر مبنی جھوٹ۔ اس جھوٹ میں ڈاکٹر مریضوں کو اور ان کے لواحقین کو مریض کی حقیقی حالت سے آگاہ نہیں کرتے مریض کو علاج ہونے کی تسلی دی جاتی ہے جب کہ حقیقت حال اس کے بر عکس ہوتی ہے۔ چھٹی قسم ہے کینہ پرور جھوٹ۔ یہ جھوٹ کی خطرناک شکل ہے جس میں جھوٹا شخص ذاتی مفاد کے لیے معاملات کو مخفی رکھتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ ساتویں قسم ہے دغا بازی پر مبنی جھوٹ۔ اس قسم کے جھوٹ میں جھوٹا شخص افواہ سازی کا کارخانہ بن جاتا ہے جس میں وہ اپنے شکار کے کردار اور ساکھ۔ کو نشانے پر لے لیتا ہے جس کے نتائج بہت ہی خوف ناک ثابت ہوتے ہیں۔ ایک اور قسم کا جھوٹ بھی معاشرے میں عام ہے، یہ جھوٹ بڑی سطح پر بولا جاتا ہے جیسے ملکوں کے درمیان، جنگوں میں، سیاسی جماعتوں کے مابین خصوصی طور پر اس کا چلن پایا جاتا ہے۔ اس قسم کے جھوٹ کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ اس جھوٹ سے سب واقف ہوتے ہیں یعنی بولنے والے اور سننے والے کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ جو بات کہی جارہی ہے وہ جھوٹ ہے۔ مثال کے طور پر سیاسی نمائندے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام سے مختلف وعدے کرتے ہیں لیکن خود اس کو اور عوام کو معلوم ہوتا ہے کہ اس پر عمل درآمد نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی وہ جھوٹ بولتا چلا جاتا ہے۔ جنگوں میں بھی یہی طریقہ کار اپنایا جاتا ہے، ایک ملک دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے مخالف ملک کے اتنی چیزیں تباہ و تاراج کر دی ہیں لیکن مخالف ملک اس کی تردید کر دیتا ہے، اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کا کچھ نقصان نہیں ہوا ہے۔ حالاں کہ دونوں کو معلوم رہتا ہے کہ کس کا کیا نقصان ہوا ہے، اس کی تازہ مثال روس اور یوکرین جنگ ہے۔ ان دونوں ممالک کو معلوم ہے کہ جنگ میں دونوں کے کیا نقصانات ہو رہے ہیں پھر بھی جھوٹ پر جھوٹ بولے چلے جا رہے ہیں۔ اس قسم کے جھوٹ کو "رانیو” ایفکٹ کہا جانے لگا ہے۔ جھوٹ اب صرف ایک لفظ نہیں رہا بلکہ اس کو ایک فلسفہ، ایک خیال بھی کہا جانے لگا ہے۔ اس جھوٹ نے بہت سارے اداروں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہ اصطلاح اس وقت کیوں زیر بحث ہے؟
روس یوکرین جنگ کے بارے میں دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ روس چند ہفتوں میں یوکرین جنگ جیت جائے گا، اس پر اپنا قبضہ جما لے گا۔ درحقیقت ان دونوں ممالک کے درمیان کوئی برابری کا مقابلہ ہی نہیں تھا۔ روس کی فوجی طاقت کے سامنے یوکرین کی کیا حیثیت ہے لیکن ایسا حقیقت میں ہوا نہیں، روس کی توقعات سے زیادہ یوکرین مزاحمت کر رہا ہے اور ابھی بھی ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ یوکرین کی پشت پر یورپ کی بڑی بڑی طاقتیں اور امریکہ بہادر کھڑا ہوا ہے۔ روسی دفاعی ماہرین اور دفاعی حکمت عملیاں بنانے والے ادارے جنگ کی طوالت پر غور وفکر کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس جنگ کی طوالت کی ایک وجہ "رانیو” کے اثرات ہیں، یہ رانیو ایفکٹ حقیقت حال سے عوام کو واقف ہونے نہیں دیتا۔ اس جھوٹ کے بارے میں سب کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حقیقت نہیں ہے جھوٹ ہے، لیکن پھر بھی اس کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ بولنے والے اور سننے والے دونوں کو معلوم ہوتا ہے کہ جو بات کہی جا رہی ہے وہ جھوٹ ہے۔ خبریں جھوٹی ہوتی ییں، رپورٹنگ جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ جھوٹ اس قدر منظم ہوتا ہے کہ اس کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ جھوٹ نظم کا حصہ بن جاتا ہے، اس جھوٹ میں سارے لوگ اداکاری کرنے لگتے ہیں۔ بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ ایک ملک بادشاہ تھا جس کو نا سننے کی عادت نہیں تھی وہ کوئی تنقید برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ ایک روز وہ بغیر کپڑوں کے ننگ دھڑنگ باہر آجاتا ہے، لیکن اس کی ناراضگی کے خوف سے کوئی بھی اسے نہیں کہتا کہ وہ ننگا ہے، سب اس کی تعریف کرتے ہیں کہ اس کے کپڑے بے مثال ہیں، لاجواب ہیں۔ آخر ایک چھوٹا سا لڑکا یہ کہہ دیتا ہے کہ وہ ننگا ہے۔ اس کہانی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لوگ جانتے ہوئے جھوٹ بولتے ہیں اور قیادت سچ سننے سے کتراتی ہے۔ یہی کیفیت سیاسی قائدین کی بھی ہوتی ہے، ان کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہی جیت رہے ہیں نتائج آنے تک ان کو خبر نہیں ہوتی، وہ مصنوعی خوش آمدوں کا ایک ہالہ بنا لیتے ہیں اور اسی میں جینا چاہتے ہیں۔ وہ حقیقت کو سننا نہیں چاہتے، یہی وجہ ہے کہ انہیں صحیح معلومات فراہم نہیں کی جاتیں، ان کے حواری انہیں وہی کچھ سناتے ہیں جو وہ سننا چاہتے ہیں، اس کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ میدان ہار رہا ہے لیکن وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا، وہ خود ساختہ مصنوعی ہالے میں اس وقت تک جیتا ہے جب تک وہ بازی پوری طرح سے ہار نہیں جاتا۔
یہی کیفیت ایک ایسے شخص کی بھی ہوتی جو کسی بیماری میں مبتلا ہو، وہ حالت انکاری میں مبتلا ہوتا ہے وہ اس وقت تک اس حالت میں ہوتا ہے جب تک کہ بیماری اس کو لے نہیں ڈوبتی۔ یہ حالت کارپوریٹ اداروں کے اندر بھی پیدا ہوتی ہے، ان کے اندر بھی ایک موقع ایسا آتا ہے کہ وہ حقیقت قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، ناکامی کے وجوہات سب کو معلوم ہوتی ہیں، سب علیحدہ علیحدہ ناکامی کی وجوہات پر گفتگو بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن ناکامی کی وجوہات جاننے کے باوجود اجتماعی طور پر حقیقت کو قبول نہیں کرتے، کیوں کہ وہ جھوٹ کے مصنوعی ہالے میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ انسان کی وہ حالت ہے جس میں وہ صرف اس کی پسندیدہ بات کو ہی سننا چاہتا ہے، وہ صرف اپنی تعریف ہی سننا پسند کرتا ہے، وہ اس بات کو سننے میں خوشی محسوس کرتا کہ وہی باصلاحیت ہے، وہی خوبصورت ہے، لیکن یہی چیز اسے بالآخر لے ڈوبتی ہے۔ اس قسم کے جھوٹ سے لڑنا مشکل ہے۔ جب اس قسم کا معاشرہ پروان چڑھتا ہے تو حقیقت پسندی معاشرے سے غائب ہو جاتی ہے۔ اسی لیے آپ نے غور کیا ہوگا کہ معاشرے میں تصنع پسندی کا بول بالا ہے، لوگ ایک مصنوعی دنیا میں جینے کو پسند کرنے لگے ہیں، جھوٹی شان جتاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال شادی بیاہ کی تقاریب ہیں، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس درجے تصنع پسندی سے کام لیا جاتا ہے، عام زندگی میں اس کی اتنی استطاعت نہیں ہوتی کہ وہ ایک پرتعیش کار میں سفر کرے لیکن شادی کے دن وہ اس میں اس طرح جاتا ہے جیسے وہ اس کار کا مالک ہو۔ اس قسم کی جھوٹی شان میں نہ صرف اس کا دنیاوی نقصان ہے بلکہ اخروی خسران بھی۔ یہ جھوٹ لوگوں کی دنیا بھی برباد کرتا ہے اور آخرت میں ایسوں کا انجام اور بھی دردناک ہے۔
***

 

***

 دور حاضر میں جھوٹ بولنا ایک معمولی بات سمجھنی جانے لگی ہے۔ جھوٹ کو بہت ہی خوبصورت بنا کر پیش کیا جانے لگا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں رہا جہاں جھوٹ کا سہارا نہ لیا جاتا ہو۔ آج معاشرے میں جھوٹ ایک صنعتی شکل اختیار کر چکا ہے۔ میدان سیاست تو جھوٹ کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ سیاست داں جھوٹ اس طرح بولتے ہیں گویا جھوٹ بولنا ان کا پیدائشی حق ہو۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 14 جنوری 2023