
عبدالحی اثری فلاحی، نئی دلی
ہادی اعظم، محسن انسانیت، رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال ہوگئے ہیں۔ زمانے نے ہزاروں کروٹیں بدلی ہیں، کفر و شرک کی آندھیاں مختلف رنگ بدل کر یلغار کرتی رہی ہیں لیکن آپ کا پیغام آج بھی برقرار اور موثر ہے۔ دنیا کے ہر گوشے میں مسلمان بستے ہیں اور اللہ کی کبریائی و محمد ﷺ کا ذکر ہر جگہ گونجتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو آخری رسول اور معلم کتاب و حکمت بنا کر بھیجا۔ آپ کو انسانیت کے لیے ہدایت و رہنمائی کا آخری صحیفہ، قرآن مجید عطا کیا گیا۔ آپ نے انسانیت کو بامقصد زندگی سے روشناس کرایا اور ایک عظیم انقلاب برپا کیا جس نے تاریخ انسانی کا دھارا موڑ دیا۔
آج بھی انسانیت مختلف مصائب، مشکلات اور بے چینی کے گرداب میں مبتلا ہے۔ ظلم و زیادتی، لاقانونیت، قتل و غارت گری، خود غرضی اور مفاد پرستی کا دور دورہ ہے۔ معاشرتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اخلاقی اقدار کی حیثیت کمزور ہو چکی ہے۔ اس بحران کے درمیان دنیائے انسانیت آج ایک بار پھر اسی در کی محتاج ہے جس نے آج سے ساڑھے چودہ سال پہلے سسکتی اور بلکتی انسانیت کو جہالت و ضلالت، کفر و شرک، ظلم و ناانصافی اور اسی قبیل کی بے شمار برائیوں سے نجات دلایا۔ آج پھر ضرورت ہے اس نسخۂ کیمیا کی جو رسولِ کریم ﷺ نے بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے استعمال فرمایا تھا۔ یہ خالق کائنات کا عطا کردہ نسخہ تھا جس نے گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں مبتلا انسانیت کو روشن شاہ راہ پر کھڑا کر دیا۔ جس نے مسِ خام کو کندن اور چرواہوں کو دنیا کا امام بنایا تھا۔
انسان کی سب سے بڑی ضرورت خدائی ہدایت ہے جس کے بغیر دنیا و آخرت کی کامیابی ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ضرورت کا انتظام کیا اور ہر دور میں منتخب بندوں کو رسول بنا کر اپنی ہدایت انسانوں تک پہنچایا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک یہ سلسلہ جاری رہا اور آپ کی بعثت پوری انسانیت کے لیے روشنی کا سرچشمہ ہے۔
سب کے لیے رحمت
رسولِ کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپؐ کی رحمت کسی ایک فرد یا کسی ایک شہر و ملک کے لیے محدود نہیں، بلکہ یہ پوری انسانیت اور تمام جہانوں پر محیط ہے۔ آپ کی ذات بذاتِ خود رحمت کا مجسمہ ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَمَآ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلاَّ رَحۡمَۃً لِلۡعٰلَمِیْنَ
’’اے نبیؐ! ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (الانبیاء: ۱۰۷)
نبی کریم ﷺ پوری کائنات کے لیے پیکر رحمت ہیں۔ جس طرح ہوا کا بہاؤ اور بادلوں سے بارش اللہ کی رحمت ہیں، اسی طرح آپ کی زندگی اور تعلیمات بھی انسانیت کے لیے سراپا رحمت ہیں۔ آپ کی نبوت و رسالت لوگوں کے لیے باعث زحمت نہیں بلکہ باعث خیر و بھلائی اور سکون ہے۔ اس لیے تمام انسانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپ کا استقبال کریں اور آپ کی لائی ہوئی دعوت کو قبول کریں۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے رحمتِ خداوندی کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دنیا و آخرت میں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
آپؐ کی ذات بذاتِ خود مجسم رحمت تھی۔ طائف کے سفر میں جو سلوک آپ کے ساتھ ہوا اس کا تصور بھی انسان کی بساط سے باہر ہے لیکن اس پر آپؐ کی دعائے خیر ہی ممکن تھی:
’’اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، یہ لوگ نہیں جانتے۔‘‘
آپ کو اپنے بدترین دشمنوں سے بھی جنگ کرنی پڑی، لیکن آپ نے ہمیشہ انصاف اور رحم دلی کا مظاہرہ کیا۔ مشہور واقعہ ہے کہ جب مکہ فتح ہوا، تو آپ کے سامنے وہ دشمن دست بستہ سر جھکائے کھڑے تھے جنھوں نے تیرہ سال تک آپ کو اذیتیں دیں اور مدینہ میں بھی چین سے رہنے نہ دیا۔ رحمت اللعالمین نے ان سب کو معاف کر دیا اور فرمایا:
’’آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، جاؤ، تم سب آزاد ہو۔‘‘
آپؐ نے کسی کو عمر بھر تکلیف نہیں پہنچائی، دوسروں کی زیادتیوں کا کبھی انتقام نہیں لیا، ہر کسی سے عفو و درگزر فرمایا اور ضرورت کے وقت دیا، نہ ہونے پر بعد میں فراہم کرنے یا سکوت اختیار کرنے کا طریقہ اپنایا۔ یہی آپؐ کی حقیقی رحمت، انصاف اور انسانیت نوازی کا مظہر ہے۔
رحمت کی متعدد شکلیں اور مختلف درجے ہیں اور انسان اس کے تمام پہلوؤں کا شمار کرنا ممکن نہیں رکھتا۔ پیاسے کو پانی پلانا، بھوکے کو کھانا کھلانا، ضرورت مندوں کو لباس فراہم کرنا، مہمان نوازی کرنا، مسافر کو راستہ دکھانا، ناداروں اور کمزوروں کو سہارا دینا، بچوں، ضعیفوں، غلاموں اور ماتحتوں پر ترس کھانا، جانوروں کے ساتھ نرمی برتنا اور ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہونا—یہ سب رحمت کی ظاہری اور عملی شکلیں ہیں۔
حقیقی رحمت وہ ہے جو انسانیت کو ہلاکت اور تباہی کے گڑھوں میں گرنے سے بچائے، روح کو سکون و آرام فراہم کرے، اور اخلاق و کردار کے ذریعے دنیا و آخرت میں کامیابی کی راہیں ہموار کرے۔ رسولِ کریم ﷺ کی زندگی اور تعلیمات میں رحمت کی یہی دونوں جہتیں بخوبی نمایاں ہیں۔
مشہور شاعر الطاف حسین حالی نے حضورؐ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کے غم کھانے والا
رسولِ کریم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں، لیکن آپؐ کے رحمت ہونے کا مفہوم تمام جہانوں کے لیے باقی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی تعلیمات اور لائی گئی ہدایات دنیا کے ہر انسان کے لیے رحمت اور رہنمائی کا سبب ہیں۔ آپ کا پیش کیا ہوا نظامِ حیات دنیا کے لیے بھلائی اور کامیابی کا ضامن ہے اور جو نمونہ آپ نے اپنی زندگی میں عمل کرکے پیش کیا وہ تمام انسانوں کے لیے ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔
مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آپؐ کی رحمتِ عالمیت کو دنیا کے سامنے واضح کریں کیونکہ پوری انسانی تاریخ میں صرف آپ وہ واحد ہستی ہیں جن کو حقیقی معنوں میں دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
آپ کی زندگی ہر انسان کے لیے نمونہ
رسول اکرمؐ کی زندگی ہر انسان کے لیے ایک کامل نمونہ ہے
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ
’’ در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۲۱)
اس دنیا میں بہت سے بڑے آدمی پیدا ہوئے۔ فرماں روا، فاتحین، فلسفی، مصلح، شعرا، ادبا، صنعت کار اور فن کار۔ ایک سے بڑا ایک آدمی پیدا ہوا ہے۔ لیکن دنیا ان بڑے آدمیوں کے متعلق بہت کم جانتی پے۔ نہ جانے کتنے بڑے انسان ایسے ہیں جن کے نام تک تاریخ میں محفوظ نہیں رہے اور جن بڑے آدمیوں کے حالات ملتے ہیں وہ بھی مختصر اور ادھورے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا دائرہ محدود تھا۔ ان میں سے کسی کی زندگی ایسی نہیں تھی جو ہمیشہ کے لیے اور پوری دنیاکے انسانوں کے لیے مثالی بن سکے۔ ان میں ہر فرد کی رہ نمائی اور ہدایت کا سامان ہو اور وہ ہرزمانے میں قابل عمل ہو۔
اگر کوئی اچھا فرماں روا تھا تو اس کا دامن ظلم و ناانصافی سے پاک نہ تھا۔ اگر کوئی معلمِ اخلاق تھا تو اخلاقی جرأت سے محروم تھا۔ اگر کوئی مصلحِ تھا تو قائدانہ صلاحیت سے محروم تھا۔ اگر کوئی اچھا ادیب یا شاعر کہلاتا تھا تو اس کی فکری بصیرت سطحی اور یک رخی تھی۔ اور اگر کوئی روحانیت کا دل دادہ تھا تو عملی زندگی سے ناواقف اور دنیا کے احوال و کوائف سے بے خبر تھا۔
اس کے برعکس، رسولِ کریم ﷺ کی پاک زندگی کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں کوئی زندگی اتنی مکمل اور جامع نہیں جسے سینوں اور صحیفوں میں محفوظ کیا گیا ہو، جتنی کہ حضرت محمد ﷺ کی مقدس زندگی۔ یہ زندگی عام اجتماعی دائرے سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے گوشوں تک ہر معاملے کے لیے نمونہ پیش کرتی ہے، اور یہ مثالیں قیامت تک کے لیے کافی اور رہنمائی کا سبب ہیں۔
انسانیت کے نجات دہندہ
رسولِ کریم ﷺ محسنِ انسانیت اور نجات دہندہ ہیں۔ آپؐ ایسے وقت دنیا میں تشریف لائے جب پوری انسانیت تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ تہذیب اپنی شمعیں گل کر چکی تھی اور دنیا کے اکثر حصوں میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ انسانوں کو کسی قسم کی آزادی حاصل نہ تھی۔ انبیائے کرام کی تعلیمات تحریف و تاویل کے غبار میں گم ہوچکی تھیں۔ انسان خواہش پرستی کی ادنیٰ سطح پر گر کر جانوروں کی طرح زندگی گزار رہا تھا، اور جو زور والا تھا اس نے کمزوروں کو دبا رکھا تھا۔
ایسی صورتحال میں رسولِ پاک ﷺ کو انسانیت کا نجات دہندہ بنا کر بھیجا گیا۔ آپؐ غریبوں کے حامی، غلاموں کے مولا اور بے کسوں کے دستگیر ہیں۔ آپ نے ہمیشہ مساوات کی تعلیم دی اور عورتوں کو ان کے حقوق عطا کیے۔ آپ بیواؤں، ناداروں، یتیموں اور مسکینوں کے پشت پناہ تھے۔
آپؐ نے وہ طریقۂ حیات بتایا جس میں انسانیت کی فلاح و بہبود کا راز مضمر تھا۔ آپ نے خدا کی وحدانیت کا درس دیا، لوگوں کا تزکیہ کیا اور انسان کی پہچان کرائی۔ آپ نے رنگ و نسل کے امتیاز کو مٹاکر انسانیت کو اتحاد و اتفاق کے راستے پر چلایا۔ آپ کے فیض سے انسانیت سیراب ہوئی۔
رسولِ کریم ﷺ نے اپنے بعد یہ ذمہ داری مسلمانوں کے سپرد کی تھی کہ وہ قیامت تک انسانیت کے نجات دہندہ بنیں۔ جب بھی انسانی مسائل الجھ جائیں یا کوئی بحران پیدا ہو تو مسلمانوں کو سہارا بننا چاہیے۔ لیکن انہوں نے اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں کوتاہی کی۔ آج پھر ضرورت ہے کہ مسلمان انسانیت کے نجات دہندہ بنیں اور محسنِ انسانیتؐ کے کردار کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔
ہر انسان آپؐ کے در کا محتاج ہے
جب ہم محسنِ انسانیتؐ کے کارناموں پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہیں۔ آپؐ نے انسان کو ہر زمانے اور ہر ماحول میں ایسی اخلاقی اور عملی ہدایات سے نوازا ہے جو ہر حال میں یکساں مناسبت کے ساتھ درست اور کارآمد ہیں۔ آپؐ انسانیت کے سب سے الگ اور ممتاز راہنما ہیں۔ آپؐ کی سیرت ہر دور کے لیے ہے اور ہر دور میں اسی طرح تازہ محسوس ہوتی ہے جیسے اس سے پہلے کے دور میں تھی۔
کچھ لوگ دورِ جدید کی ظاہری ترقیات اور بدلتی ہوئی دنیا کی ضروریات کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور میں آپ کی تعلیمات شاید زیادہ کارگر نہیں، لیکن یہ صرف دور جدید کی چمک دمک، مغربی اثرات اور سیرتِ نبوی سے مسلمانوں کی بے تعلقی کی وجہ سے ہے۔
یہ مثال ایسی ہے جیسے کوئی ڈاکٹر نسخہ لکھ دے لیکن دوا نہ خریدے یا تھوڑی دوا لے کر گھر میں رکھ دے اور کبھی کبھار استعمال کرے، پھر شکایت کرے کہ دوا کا اثر نہیں ہوا۔
بہت سے لوگ سیرتِ نبوی کے پاس ہیں لیکن رہنمائی حاصل نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ جدید زمانے کے مسائل میں اس کا کوئی حل نہیں۔ سیرتِ نبوی ایسے لوگوں کو چیلنج کرتی ہے کہ وہ بتائیں کون سا شعبہ ہے جہاں اس سے رہنمائی حاصل نہیں ہو رہی۔
اگر آج دنیا میں مسلمان مظلوم، پس ماندہ اور کمزور ہیں، تو یہ رسولِ پاکؐ کا قصور نہیں، بلکہ ہمارا ہے کہ ہم نے ان کی دی ہوئی ہدایات کو بھلا دیا اور ان سے رہنمائی لینا بند کر دیا ہے۔
سیرتِ نبویؐ، ہر زمانے کے لیے رہنمائی
رسول اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ ہر مرض کی دوا، ہر مسئلے کا حل اور ہر چیلنج کا جواب ہے۔ دور حاضر کی تمام مشکلات اور مصائب کا حل آپؐ کی تعلیمات اور اسوۂ نبوی کی پیروی میں موجود ہے۔ زمانہ کتنی ہی ترقی کر لے، انسان علم و اکتشاف کے کتنے ہی مراحل طے کر لے، وہ ہمیشہ اسی ہستی کا محتاج رہے گا۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ سیرت طیبہ چودہ سو سال پرانی ہے اور عصر حاضر میں کارگر نہیں، لیکن رسول اکرم ﷺ صرف عرب دورِ جاہلیت کے لیے نبی نہیں تھے بلکہ ہر زمانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ آپؐ نہ صرف انبیاء کے سردار ہیں بلکہ خاتم النبیین بھی ہیں۔ آپؐ کا پیغام اور سیرت طیبہ قدیم بھی ہے اور جدید بھی۔ قدیم ہونے کا مفہوم اصلاح کی روح سے آگاہ ہونا ہے اور جدید ہونے کا مطلب اس روح کے اظہار کے لیے نئے طریقے اختیار کرنا ہے۔
رسول کریم ﷺ نے دنیا کو جہالت اور گمراہی سے نجات دلائی۔ آج بھی انسانیت کی حالت اسی سے قریب ہے۔ صرف اسی شمعِ ہدایت کی روشنی ہی سے حقیقی نجات ممکن ہے۔ دنیا کسی بھی زمانے میں حقیقی انسانیت کی تلاش کرے گی تو اسے مجبوراً حضور اکرم ﷺ کی طرف جھکنا پڑے گا، اور جتنا وہ اس پاک ہستی کی طرف جھکے گا، اتنا اس کی زندگی میں سکون، اطمینان، یقین، اعتماد، نکھار اور حسن پیدا ہوگا۔ جیسے تاریکی میں ہر انسان روشنی کا محتاج ہے، اسی طرح یہ دور اور اس دور کا ہر انسان اس پاک ہستی کا ہر وقت محتاج رہے گا۔
مضون نگار سے رابطہ : 9015203553
***
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ سیرت طیبہ چودہ سو سال پرانی ہے اور عصر حاضر میں کارگر نہیں، لیکن رسول اکرم ﷺ صرف عرب دورِ جاہلیت کے لیے نبی نہیں تھے بلکہ ہر زمانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ آپؐ نہ صرف انبیاء کے سردار ہیں بلکہ خاتم النبیین بھی ہیں۔ آپؐ کا پیغام اور سیرت طیبہ قدیم بھی ہے اور جدید بھی۔ قدیم ہونے کا مفہوم اصلاح کی روح سے آگاہ ہونا ہے اور جدید ہونے کا مطلب اس روح کے اظہار کے لیے نئے طریقے اختیار کرنا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2025