انسانی تہذیب پر ماحول کے اثرات

صالح معاشرہ کی تعمیر میں عفت و حیا کا نمایاں کردار

عمارہ فردوس،جالنہ

انسانی وجود اپنے ظاہری اعضاء و جوارح کے ساتھ ساتھ حواس انسانی سے مکمل اور پرفیکٹ ہوتا ہے ۔ حواس کے درست ہونے پر ہی انسانی صحت کا انحصار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوقات کو مختلف حواس سے نوازا ہے،پرندے اپنے حواس کے ذریعہ ہی وقت کا تعین کرتے اور خطرات کو بھانپ لیتے ہیں،چوپائے شکاری کو دیکھے بغیر دوڑ پڑتے ہیں، پالتو جانور اپنے بیٹھنے کی جگہ صاف کرکے بیٹھتے ہیں، جانور اپنے مالک کی پہچان حواس کے ذریعہ کر پاتے ہیں ۔ جانوروں کی یہ ساری ادائیں عقل کے بغیر محض حواس کی بنا پر ہیں، گویا خالق نے مخلوقات کے وجود کو حواس جیسی نعمت سے زینت بخشی ۔
انسان کا وجود حواس کے ساتھ ساتھ عقل کی روشنی سے مزین ہوکر غیر معمولی اور اشرف ہوجاتا ہے ، اس کو شعور و ادراک کی منزل سے گزارنے کے لیے اللہ نے کتاب ہدایت کے ساتھ اپنے برگزیدہ نبیوں کو مبعوث فرمایا۔ ویعلمھم الکتاب و الحکمہ و یزکھم
معاشرہ کی تعمیر میں ماحول کا اثر :
انبیاء علیہم السلام نے ہر دور میں انسانوں کی انفرادی تربیت کے لیے معاشرتی تربیت کو لازم قرار دیا، انہوں نے معاشرہ کو تبدیل کرنے کے لیے ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو اجتماعیت کا روپ دیا، تاکہ ان کی جماعت معاشرہ کی باڈی بن کر تہذیب و کلچر کو فروغ دے سکیں، انسان جس جگہ پیدا ہوتا ہے وہاں کا ماحول اس کے وجود پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ابتداء میں انسانی وجود فطرت سلیمہ پر ہوتا ہے۔حدیث میں اس کی صراحت یوں کی گئی ۔۔کل مولود علی الفطرت فابواہ و یھودانہ و یمجسانہ و ینصرانہ۔۔۔ مذکورہ حدیث اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ انسان کی ابتدائی پوزیشن سلیم الفطرت تھی، لیکن جن ہاتھوں میں وہ پہنچا اور جس معاشرے کا حصہ بنا اسی کے مطابق ڈھلتا گیا، گویا ماحول کی گود انسانی تربیت کا اہم حصہ ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسانی فطرت کسی آئیڈیل کی محتاج ہوتی ہے، وہ روشنائی سے مرتب اصولوں کو عملی شکل میں دیکھنا چاہتی ہے، نظریات و اصول کی درجنوں کتابیں انسان کو پڑھوا دی جائیں، نظریات کی تبلیغ عام ہو جائے لیکن ہمیشہ انسانی نگاہ نظریات و اصولوں پر چلنے والے آئیڈیل کی متلاشی رہی ہے۔ اسی لیے رب العالمین نے اپنے نبیوں کے ذریعہ یہ انتظام فرمایا جو ہر دور میں روشنی کا مینارہ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی نظریہ کو جب تک انفرادی و اجتماعی زندگی میں برت کر نہ دکھایا جائے اس وقت تک اس کا نفوذ نہیں ہوسکتا، یہی وہ بات ہے جس کو قرآن لتکونوا شھداء علی الناس کے الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ اور حقیقت یہ کہ انسانی فطرت محسوسات کے ذریعہ بہت جلد اثر قبول کرتی ہے۔ کسی بھی نظریہ کا نفوذ معاشرہ کی ساخت کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اسی سے کلچر و تہذیب فروغ پاتے ہیں اور پوری قوت کے ساتھ افراد کے ذہنوں کو متاثر کرتے ہیں۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے ادوار کا مطالعہ اسی بات کی یاد دہانی کرواتا ہے، انبیاء کے مختلف ادوار میں معاشرے نے افراد کے کردار پر جو اثرات مرتب کیے وہ اس زمانے میں رواج پانے والا ماحول تھا جس نے لوگوں کی عادتوں کو خود بہ خود متاثر کیا۔ ہر نبی کے دور میں اجتماعی برائیاں لوگوں کی عادتوں پر اثر انداز ہوتی گئیں، تمام نبیوں نے اپنے زماں و مکاں کے مطابق دعوتی حکمت عملی اختیار کیں، نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ نے سب سے پہلے اسلام لانے والوں کی ایک جماعت تیار کی، اس جماعت نے معاشرہ کا حصہ بن کر معاشرہ کی ساخت کو تبدیل کیا جس کے سبب بتدریج ایک اسلامی کلچر فروغ پایا ،قدریں تبدیل ہوئیں، تہذیب پروان چڑھی۔ اسلام کے ماننے والوں نے جب اسلام کے اصولوں کو انفرادی و اجتماعی زندگی کا حصہ بنایا تب فطرت انسانی پر تیزی سے اس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے۔ انسان جو فطرت سے بغاوت کرکے چوپایوں جیسی زندگی بسر کررہا تھا، اسلام کی شکل میں اسے پناہ گاہ نصیب ہوگئی، اس کی فطرت سلیمہ کو بسیرا میسر آگیا ، یہ بڑی تبدیلی اس ماحول کا نتیجہ تھی جس کو چند نفوس نے اپنے اعمال و کردار سے تیار کیا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس معاشرہ نے پوری دنیا میں اپنا اثر دکھایا ،اور اس کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ نبی اکرمؐ کا یہ عظیم انقلاب محض تئیس سال کی مدت میں برپا ہوا کیونکہ اسلام کے ماننے والوں نے ایک اجتماعیت بن کر ماحول پر اپنا اثر مرتب کیا تھا ۔۔
مشترکہ اقدار معاشرہ کے لیے قیمتی سرمایہ:
معاشرہ کا اپنا ایک وجود ہوتا ہے جس معاشرے میں انسان بستے ہیں وہاں انسانی مسائل کو حل کرنے کے لیے انسانوں کی فطرت سے ہم آہنگ قوانین وضع کرنا معاشرہ کا خود اپنا تقاضا ہوتا ہے، معاشرہ اپنی ساخت سے پہچانا جاتا ہے کہ آیا یہاں انسان بستے ہیں یا جانور؟ انسانوں کے بنیادی اخلاق چاہے تکثیری سماج کیوں نہ ہوں، مشترکہ اقدار کہلاتے ہیں اور یہی مشترکہ اقدار ایک معاشرہ کی جان ہوتے ہیں، یہی اس کی ساخت کو مضبوط کرتے ہیں ، یہی اخلاقیات انسان کو انسان بناتے ہیں ۔ فطری اوصاف وہ ہیں جس کے ذریعہ انسانی طبیعت سکون پاتی ہے، انصاف ،ہمدردی ،طہارت و نظافت ، حیا و پاکبازی ،رحمدلی وغیرہ یہ اقدار معاشرہ کو بیمار ہونے سے بچاتے ہیں۔ اس کا وجود برقرار رکھتے ہیں ۔معاشرہ جب ان اقدار سے عاری ہوتو بکھر جاتا ہے ،ٹوٹ جاتا ہے، وہاں انسان انسان نہیں رہتا، جانورں جیسی زندگی گزارتا ہے اور معاشرہ کا بکھرتا وجود امن و سکون سے محروم ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ انسانوں کے ہاتھوں برپا ہونے والا یہ فساد جس کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے ۔۔ظہر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس ۔۔۔
فطرت سے بغاوت ہلاکت ہے:
انسانوں نے جب بھی اپنی فطرت سے بغاوت کرکے بنیادی انسانی اخلاقی قدروں سے منہ موڑا، قومیں ہلاک ہوگئیں۔ سورہ ہود میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے،بے شک اس کی پکڑ بڑی سخت اور درد ناک ہوتی ہے ۔) رسول صلی اللہ ﷺ کا ارشاد ہے "جس قوم میں بد کاری پھیل جاتی ہے،یہاں تک کہ لوگ کھلم کھلا اسے کرنے لگتے ہیں اس میں وبا پھیلتی ہے اور ایسی تکلیفیں پھیلتی ہیں جو گزرے ہوئے لوگوں میں کبھی نہیں رہیں”(ابن ماجہ)
ایک عربی شاعر احمد شوقی کہتا ہے:
انما الامم الاخلاق ما بقیت
(امتیں اس وقت تک باقی رہتی ہیں جب تک ان کا اخلاق باقی رہتا ہے)
چند اوصاف انسان کو انسان بنانے کے لیے لازمی ہیں،جو اللہ نے انسان کے خمیر میں رکھا ہے،اگر انسان ان بنیادی اوصاف سے انکاری ہے یا اس کا وجود اس سے عاری ہے تو قرآن ایسے اعمال پر انہیں "کالانعام” کہتا ہے ۔
مشترکہ اقدار معاشرہ کے ستون ہوتے ہیں ،وہ معاشرہ اکھڑ جاتا جہاں بنیادی انسانی اخلاق زوال پذیر ہوں، اسی لیے اسلام میں ان اخلاقیات کی تعلیم پرزور انداز میں پیش کی گئی جس سے انسان کی انسانیت باقی رہے تاکہ خدا کی زمین پر انسانی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو،تکثیری سماج میں بھی ہر مذہب کی تعلیمات ان بنیادی اخلاقی قدروں پر کھڑی ہوئی ہیں۔ اس کے پیچھے بھی یہی تصور کار فرما ہے کہ انسانوں کا معاشرہ انسانوں جیسا لگے نہ کہ حیوانی معاشرہ نظر آئے؟ انسانی بنیادی اخلاقی قدریں معاشرہ کے اعضاء و جوارح ہیں ۔ان کے بغیر کسی انسانی معاشرہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
موجودہ حالات نے معاشرہ کو کہاں پہنچا دیا ہے:
تشویش ناک بات یہ ہے کہ اگر بنیادی انسانی قدریں اتنی اہمیت رکھتی ہیں تو موجودہ صورت حال خطرات کا الارم بجا رہی ہے۔ ماحول پر چھایا اخلاقی زوال تیزی کے ساتھ حواس انسانی پر اثر انداز ہورہا ہے۔بچے، نوجوان، ادھیڑ عمر افراد،خواتین ہر کوئی اس لپیٹ میں تیزی کے ساتھ شامل ہورہا ہے۔فحاشی کے دروازے ہر جگہ کھلے ہوئے ہیں جس کو اسلام شدت کے ساتھ بند کرنا چاہتا ہے سورہ انعام آیت نمبر ١٥١ میں ارشاد ہے "فرما دیجیے کہ آو میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں ۔۔۔اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ ہوں”
انٹرنیٹ نے اس وقت اپنی ایک نئی دنیا قائم کرکے سب کو اس کا اسیر بنالیا ہے، ذہنوں پر نقش گلیمر، عریانیت، صارفیت پسند کلچر، آزاد روی ،اباحیت پسندی ،عیش پسندی، کیریئر ازم، عورت کی آزادی کے نام پر فیمنزم کی یلغار۔۔۔۔۔
یہ سیلاب امڈ پڑا ہے اور ہر ایک کا تانا بانا آپس میں بے حیائی کے ساتھ جڑ کر فحش معاشرہ کا حیا باختہ لائف سٹائل ہے ۔ مغرب کا وہ ٹوٹتا بکھرتا معاشرہ جس کے ٹوٹ پھوٹ کے انجام کو دیکھ کر مغربی مفکرین خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ فطرت سے جنگ لڑ کر ہم نے جس حیوانی کلچر کو فروغ دیا ہے اس نے ہمارے معاشرہ کی بنیادوں کو ہلاکر بھیانک ترین انجام سے دوچار کردیا ہے۔
دیار مغرب ہوس میں غلطاں
شباب عریاں ،شراب ارزاں
جسے بھی دیکھو، غریق عصیاں
ہم ایسی تہذیب کیا کریں گے
پاکیزہ معاشرہ کی تعمیر میں متوقع کردار:
مضمون کے ابتدا میں ہی یہ بات عرض کی گئی کہ ماحول جیسا تیار ہوتا ہے ،وہ تیزی کے ساتھ انسانی حواس کو متاثر کرکے اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا بڑھتا ہے، اس وقت جب اس عریاں کلچر نے اپنی جڑیں معاشرہ میں مضبوطی کے ساتھ پیوست کردی ہیں اس کو مکمل طور پر ختم کرنا اب مشکل ہوچکا ہے، لیکن اس کے باوجود ایک متبادل طرز زندگی ان جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مددگار بن سکتی ہے ۔۔ بے حیائی کے اس طوفان بلا خیز کا مقابلہ کرنے کے لیے امڈتے سیلاب پر بند باندھنے کے لیے، چند اہم کام قابل غور ہیں:
١۔متبادل ماحول کو پروان چڑھانا ہوگا ۔
ماحول بہت تیزی سے انسانی زندگیوں کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ اسی لیے عملی شہادت ایمانی زندگی کا تقاضا ہے۔ انسانی اعمال زمین کا حصہ بنتے ہیں ،زمین پر نمو پاتے ہیں اور انسان زمین پر ان اعمال کے اثرات دیکھتا ہے ۔۔
ہم پاکیزہ ماحول کی آبیاری کریں ،ہمارے مسلم کالج مثالی کالج کہلائیں ،ہمارا مسلم معاشرہ حیا کے کلچر کو عام کرنے والا ہو۔
ہمارے بچے پورے سماج میں اپنی امتیازی خصوصیات کے لیے معروف ہو جائیں ۔
٢۔ میڈیا اور سوشل میڈیا ہمارے ہاتھوں میں آکر ایک اچھی اور پاکیزہ تہذیب کو فروغ دینے کا ذریعہ بنے ،
اس وقت میڈیا کی زد میں سارا ماحول ہے ،جو سب کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو اسلام کے حق میں ایک سنہرا موقع بنایا جاسکتا ہے ۔وقت کے ساتھ پروان چڑھنے والی ضرورتیں داعی کے لیے قیمتی مواقع فراہم کرتی ہیں۔ اگر ہماری نسلیں میڈیائی کلچر میں اپنا رنگ بھریں تو یہ ماحول ہمارا تیار کردہ ہوجائے گا ، یقیناً ماحول ہم بناتے ہیں اور نسلوں کو اس کے حوالے کردیتے ہیں اس لیے کیوں نہ ایک اجتماعیت ایسی ہو جو ماحول ساز بنے،ان شاءاللہ وقت کروٹ لے گا۔ نفوذ کی راہیں ہمارا انتظار کررہی ہیں۔
٣۔ ہمارے بچے ہماری خصوصی توجہ کے مستحق ہیں،سوشل میڈیا پر تعمیری کام ان کے ذریعہ کروائیں۔ ہمارا بچہ اس حقیقت کا بخوبی اندازہ کرلے کہ مشین اس کے ہاتھوں میں ہے نہ کہ وہ مشین کے ہاتھوں میں؟ یہ کانسیپٹ میڈیا کے سحر زدہ ماحول کو کافی حد تک کنٹرول کرسکتا ہے، مائیں بچوں کی تربیت اس انداز اور اس رخ پر کریں ۔ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا ادراک کرکے، معاشرہ کی اہمیت ان کے دلوں میں جاگزیں کریں ۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بچہ جب تک معاشرہ کو اپنا حصہ نہیں سمجھے گا اس وقت تک وہ اپنی قابل قدر صلاحیتوں کو خدا کا عطیہ نہیں سمجھ سکتا۔ خدا نے اپنی زمین پر ایک پاکیزہ ماحول تیار کرنے کے لیے بندوں میں ہر طرح کی صلاحیت ودیعت کی ہے ،وہ چاہتا ہے کہ اس کی زمین پر اس کے صالح بندے تعمیری کام کریں نہ کہ تخریبی؟ یہ تصور بچوں کے ذہنوں پر اول دن سے ثبت کیا جائے۔قیامت کے دن زمین کی گواہی اسی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کہ کھلے اور چھپے سارے اعمال پر وہ گواہ بن رہی ہے ۔۔بچوں کو اس تصور کے ذریعہ تخریب سے بچا کر تعمیری ذہنیت کا نقش بٹھایا جاسکتا ہے ۔
٣۔ خواتین اس کام میں سب سے بہترین رول ادا کرسکتی ہے ۔
اب تک کا سارا سروے بتاتا ہےکہ مغربی ہتھکنڈوں کو پروان چڑھانے میں عورت کا سہارا لیا گیا، کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عورت کی گود میں مستقبل تیار ہوتا ہے،نسلیں دنیا میں قدم رکھتے ہی جن ہاتھوں میں کا سہارا بنتی ہے وہ عورت کے ہاتھ ہیں،نقش اول نقش کالحجر کی طرح عورت ،انسانی ذہن پر جس تخم کی آبیاری کرے، اسی کا شجر نکل کر برگ و بار لاتا ہے ۔۔مغرب کا فحش کلچر اس گود پر بڑی حکمت کے ساتھ حملہ آور ہوا، اسی لیے پوری صدی فحش انقلاب کا پیش خیمہ بنی، تیزی کے ساتھ دنیا تبدیل اسی لیے ہوئی کہ ۔۔یہ بڑی تبدیلی عورت کے ذریعہ لائی گئی ۔۔اس وقت عورت کو اس کا حقیقی مقام یاد دلانے کی ضرورت ہے، عورت اپنی اہم ذمہ داریوں کا ادراک کرکے تربیت کے میدان میں مضبوط قدم جمائے ۔۔حقیقت یہ ہے کہ اگر معاشرہ کی دس عورتیں اس کام کو سنبھال لیں تو دس ہزار افراد پر مشتمل ایک پاکیزہ نسل، پاکیزہ ماحول، پروان چڑھا سکتی ہیں۔ جہاں خوشگوار اخلاق پر مبنی فضائیں تیزی کے ساتھ فطرت انسانی کے قلوب پر دستک دیتے ہوئے گزریں گی جن کے ذریعہ انسان بہت جلد اپنی فطرت سلیمہ پر قابو پاکر ایسے پاکیزہ معاشرہ میں ضم ہوتا چلا جائے گا ۔۔ہماری خواتین کو ایک مضبوط کمٹمنٹ کی ضرورت ہے ،اس معاہدے پر اپنی زندگی لگادینے کی ضرورت ہے ،ان شاءاللہ ایک مختصر دورانیہ ہی اس کے خوبصورت نتائج پیش کرے گا ۔بس خواتین ایک با حیا ماحول بنانے میں اپنا اور اپنے بچوں کا کردار پیش کرے ۔
٤۔ آخری اور اہم بات، اسلامی تحریکات مکمل اتحاد کے ساتھ ہر شہر اور مقام پر ایک ایسی سوسائٹی کا نقشہ تیار کریں جس میں چلتے پھرتے عہد نبوی کے ماڈل نظر آیں۔ جہاں مخلوط سوسائٹی مشروع اختلاط کے ساتھ کام کرکے دکھائیں اور کسی فتنہ کا برپا ہونا تو درکنار، اندیشہ ہی نہ رہے ۔جس طرح عہد نبوی کی خواتین دینی مجلسوں میں مردوں کے ساتھ حاضر رہتیں،مسائل دریافت کرتیں، لیکن شرعی حدود کی پاسداری کے ساتھ۔
اس سوسائٹی میں مثالی کالجز،مثالی درسگاہیں، مثالی بینک،مثالی صفائی و ستھرائی اور مثالی بازار موجود ہوں ۔جن کے گھروں میں قرآن کے دروس کی محفلوں کا انعقاد عہد نبوی کی یاد دلاتا ہو ۔جن کی مساجد میں مرد و خواتین ایسے نماز ادا کرنے آتی ہوں کہ فتنوں کے دور میں بغیر کسی فتنے کے یہ مساجد مثالیں قائم کردیں ۔۔
ہر عمل کا ظہور ممکن ہے ، اگر پندرہ سو برس قبل قرآنی معاشرہ ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں قرآنی نور کو بکھیر سکتا ہے جہاں انسانیت مکمل طور سے ناپید ہوچکی تھی تو آج بھی بغیر کسی تردد کے ہم یہ بیڑا اٹھا سکتے ہیں ان شاء اللہ ۔
یاد رکھیں کہ اس دور کی تاریخ لکھی جا رہی ہے ۔۔۔ہر طوفان تاریخ میں درج ہوتا ہے لیکن اس طوفان پر روک لگانے والے اس وقت کو تبدیل کرنے والے، اس پر اپنی قوتیں صرف کرنے والے اس تخریب پر بندھ باندھ کر تعمیر کرنے والے دونوں جہاں میں کامیاب و کامران ہوجاتے ہیں۔
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہوسکے تو خود انقلاب پیدا کر

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024