انسانی صحت کے ہمہ جہت کھلواڑ کا پردہ فاش

میڈیکل ایجوکیشن گھوٹالے میں سیاست، کارپوریٹ اور مذہبی ٹھیکیداروں کا گٹھ جوڑ بے نقاب

نوراللہ جاوید، کولکاتا

جعلی میڈیکل کالجوں کا جال،بدعنوان ڈاکٹروں سے اخلاقیات کی امید کیسے کی جائے؟
دواساز کمپنیوں کو کھلی چھوٹ، ڈاکٹروں کو مہنگے تحفے، مریضوں کو زہر
غیر معیاری دوائیوں کی فروانی، ریگولیٹر تماشائی ۔ تعلیم، علاج اور دوا ۔منافع خوری کے شکنجے میں
انسانی زندگی کے لیے صحت بنیادی اہمیت رکھتی ہے، اور ہر شہری کا صحت مند ہونا حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ مگر جب حکومتیں ہی انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے لگیں تو پھر شہری کیسے صحت مند رہ سکتے ہیں؟
معاشی امور کے ماہرین بتاتے ہیں کہ بھارت دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں کوئی ایک گمبھیر بیماری بھی مڈل کلاس کو غربت کے دلدل میں دھکیل سکتی ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ بھارت میں صحت کا شعبہ انسانی خدمت کے بجائے دولت بٹورنے کا ایک ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔
اس مہینے کے پہلے ہفتے میں بھارت کی تاریخ کا سب سے بڑا میڈیکل تعلیم گھوٹالہ سامنے آیا ہے۔ اس نے جہاں ایک طرف سیاست، کارپوریٹ اور مذہبی ٹھیکیداروں کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا ہے، وہیں میڈیکل تعلیم، دواسازی اور دیسی علاج کے فروغ کے نام پر لوٹ مار کی ادارہ جاتی بدعنوانی کی حقیقت کو آشکار کر دیا ہے۔
ایک سال قبل میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے نیٹ امتحانات میں گھوٹالے نے ملک بھر کو ہلا دیا تھا۔ اور اب میڈیکل کالجوں کی منظوری میں مرکزی وزارتِ صحت، نیشنل میڈیکل کمیشن، مڈل مین اور میڈیکل کالجوں کے سربراہوں کی ملی بھگت سے رشوت خوری ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں جعلی ڈاکٹرز سسٹم کا حصہ بن رہے ہیں۔
دوسری طرف ملک میں افراطِ زر کی شرح چھ سے سات فیصد ہے تو دوائیوں اور دیگر طبی آلات میں مہنگائی کی شرح چودہ سے پندرہ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ حکم راں جماعت نے دوا ساز کمپنیوں سے الیکٹورل بانڈز کے نام پر 420 کروڑ روپے چندہ جمع کیا ہے، اور اس کے عوض ان کمپنیوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ دوائیوں کی قیمتیں من مانی طریقوں سے طے کریں۔
اسی کے ساتھ مودی کے دور میں دیسی طریقہ علاج کے فروغ کے نام پر چند مذہبی باباؤں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے جو آئے دن سپریم کورٹ اور قانون کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ کسی سائنسی تصدیق یا تجربے کے بغیر بھیانک بیماریوں کے علاج کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت ملک میں انسانی صحت کے ساتھ ہمہ جہت کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ان حالات کے لیے ذمہ دار کون ہے؟ کیا جعلی میڈیکل کالجوں کی منظوری حکومت اور وزرا کی مدد کے بغیر محض چند اعلیٰ افسر دے سکتے ہیں؟ نیشنل میڈیکل کمیشن، جو ایک ریگولیٹری اتھاریٹی ہے اور طبی تعلیم، پیشہ ور افراد، اداروں اور تحقیق کی نگرانی کا ذمہ دار ہے، میڈیکل کالجوں کو منظوری دینے کا اختیار رکھتا ہے، میڈیکل پریکٹیشنروں کو رجسٹر کرتا ہے اور ملک بھر میں طبی بنیادی ڈھانچے کا جائزہ لیتے ہوئے طبی طریقوں کی نگرانی کرتا ہے۔ اگر اس کے ممبران رشوت خوری میں ملوث ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان کے تقررات کس نے کیے ہیں؟
گزشتہ ہفتوں میں میڈیکل کالجوں کی منظوری میں بڑے پیمانے پر رشوت خوری کے ایک بڑے ریکٹ کا پردہ فاش ہوا ہے، جس نے ملک میں پرائیویٹ میڈیکل ایجوکیشن کی ناکامی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ پرائیویٹ کالجوں کی منظوری بازار میں سبزیوں کی طرح نیلام کی جا رہی ہے۔ اخلاقیات، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور سماجی ذمہ داری سے عوام کا اعتماد مکمل طور پر متزلزل ہو چکا ہے۔
چوں کہ پرائیویٹ کالجوں کو منظوری کے لیے کروڑوں روپے رشوت دینی پڑتی ہے، اس لیے بھارت میں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے طبی تعلیم انتہائی مہنگی ہے۔ بھارت کے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس کورس مکمل کرنے پر اسی لاکھ سے ایک کروڑ روپے سے زیادہ خرچ آتا ہے، جبکہ بیرونِ ملک یہ تعلیم اس لاگت کے ایک چوتھائی میں مکمل ہو جاتی ہے— یعنی ساڑھے چار سال میں تعلیم پر پینتیس لاکھ روپے سے بھی کم خرچ آتا ہے۔
اس سال 2025-26 کے بجٹ سے قبل مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے جو اقتصادی سروے پیش کیا تھا، اس میں بھی سفارش کی گئی تھی کہ ’’ملک میں صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ طبی تعلیم کی لاگت کو کم کیا جائے۔‘‘
طبی تعلیم کو درپیش چیلنجوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے سروے میں کہا گیا کہ زیادہ فیسوں کی وجہ سے ہزاروں طلبا سالانہ تقریباً پچاس ممالک، خاص طور پر کم اخراجات والے جیسے چین، روس، یوکرین، فلپائن، اور بنگلہ دیش میں تعلیم حاصل کرنے بیرونِ ملک جاتے ہیں۔
مگر بیرونِ ممالک سے تعلیم حاصل کر کے واپس آنے والے ڈاکٹروں کو بھارت میں ’فارن میڈیکل گریجویٹ نیشنل ایگزٹ ٹیسٹ‘ میں کامیاب ہونا لازمی ہوتا ہے، اور اس میں کامیابی کی شرح محض پندرہ سے بیس فیصد ہے۔ اس وجہ سے سیکڑوں طلبا تعلیم حاصل کرنے کے باوجود سسٹم کا حصہ نہیں بن پاتے اور انہیں بدعنوان ریکٹ کی مدد لینی پڑتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب غیر اخلاقی ڈاکٹروں کی کھیپ تیار ہوگی تو ان سے یہ کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ علاج کے دوران اخلاقیات کا مظاہرہ کریں گے؟
تاہم، اس پوری بحث میں جو چیز پیچھے رہ گئی ہے، وہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سی بی آئی جو ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے میڈیکل ایجوکیشن بدعنوانی کے انکشاف کا دعویٰ کر رہی ہے، کیا وہ اس سوال پر غور کرے گی کہ اتنا بڑا گھوٹالہ وزرا اور سیاست دانوں کی مدد کے بغیر انجام دیا جا سکتا ہے؟
اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وزیرِ صحت، جن کے محکمے میں اتنے بڑے گھوٹالے انجام دیے جا رہے ہیں، کیا انہیں اخلاقی ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہیے؟ چوں کہ مرکزی وزیرِ صحت جے پی نڈا بی جے پی کے قومی صدر بھی ہیں اور وزیرِ اعظم مودی کے منظورِ نظر بھی، تو پھر اخلاقیات کے اصولوں کے نفاذ کی امید کہاں باقی رہتی ہے؟
میڈیکل کالجوں کی منظوری میں گھوٹالے
جون کے آخری ہفتے میں رائے پور کے راوت پورہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اینڈ ریسرچ میں ایک اسٹنگ آپریشن کے دوران سی بی آئی نے رشوت لیتے ہوئے چھ افراد کو گرفتار کیا۔ رشوت لینے والوں میں بھارت میں اعلیٰ میڈیکل تعلیم کو ریگولیٹ کرنے والے ادارہ نیشنل میڈیکل کمیشن (NMC) کے اہلکار شامل تھے۔ این ایم سی کے اہلکاروں کو پچپن لاکھ روپے رشوت اس لیے دی جا رہی تھی تاکہ وہ میڈیکل کالج کے معائنہ میں نرمی برتیں اور منظوری دینے میں آسانی پیدا کریں۔
مگر گرفتار شدہ افراد سے پوچھ تاچھ کے بعد معلوم ہوا کہ یہ گرفتاریاں صرف برفانی تودے کا سرا ہیں۔ جیسے جیسے جانچ گہری ہوتی چلی گئی، ایک مکمل ریکیٹ کا پردہ فاش ہوا، جس میں مڈل مین، این ایم سی کے جائزہ لینے والے، مرکزی وزارتِ صحت کے اعلیٰ افسران اور پرائیویٹ کالجوں کے سربراہان مل کر اس گھوٹالے کو انجام دے رہے تھے۔
سی بی آئی کی جانچ میں جو حقائق سامنے آئے، ان کے مطابق مرکزی وزارتِ صحت کے اعلیٰ افسران میڈیکل کالجوں کے معائنہ کے خفیہ پروگرام کو پہلے ہی لیک کر دیتے تھے۔ اس لیے میڈیکل کالج ڈمی فیکلٹی ممبران اور جعلی مریضوں کا انتظام پہلے ہی کر لیتے تھے۔ جانچ میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ این ایم سی کی معائنہ رپورٹ پہلے ہی تیار کر لی جاتی تھی اور ہر ایک کی قیمت مقرر تھی۔
ماہرین نے کہا کہ مبینہ اسکام کا دائرہ متعدد ریاستوں تک پھیلا ہوا ہے، جو ایک مربوط کوشش کی تجویز کرتا ہے، جس کا اثر ملک بھر میں چالیس سے زیادہ اداروں پر پڑتا ہے، اور اس سے ملک بھر میں طبی تعلیم کی سالمیت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
7 جولائی کو سی بی آئی نے ایک ایف آئی آر داخل کی جس میں چونتیس افراد کو نامزد کیا گیا ہے، جن میں وزارتِ صحت و خاندانی بہبود، این ایم سی اور مختلف نجی اداروں کے سینئر افسران بھی شامل ہیں۔ اس میں ہائر ایجوکیشن ریگولیٹری باڈی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے سابق چیئرمین بھی شامل ہیں۔
مبینہ سازش حساس ریگولیٹری معلومات کے غیر مجاز لیک ہونے، لازمی معائنہ کے عمل میں ہیرا پھیری اور بڑے پیمانے پر رشوت خوری کے گرد گھومتی ہے۔ ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس گھوٹالے کا مرکز مرکزی وزارتِ صحت ہے۔ وزارت کے افسران کی ایک ٹیم خفیہ معلومات پرائیویٹ کالجوں کو فراہم کرتی تھی۔
اس گھوٹالے میں جو بڑے نام سامنے آئے ہیں ان میں روی شنکر مہاراج بھی شامل ہیں۔ روی شنکر مہاراج وسطی بھارت میں مشہور مذہبی رہنما ہیں اور راوت پورہ گروپ آف انسٹیٹیوٹ کے سربراہ ہیں۔ پروفیسر ڈی پی سنگھ، جو یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے سابق چیئرمین اور ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز (TISS) کے موجودہ چانسلر ہیں۔ دیگر نمایاں افراد میں میں راجستھان کے ادے پور میں گیتانجلی یونیورسٹی کے رجسٹرار میور راول اور ریگولیٹرز و کالج مالکین دونوں سے تعلق رکھنے والے ایک اہم ثالث جیتو لال مینا شامل ہیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ کالجوں کو مبینہ طور پر معائنے کی تاریخوں اور معائنہ کرنے والوں کے ناموں کے بارے میں پہلے ہی آگاہ کر دیا جاتا تھا۔ سی بی آئی کے مطابق، بائیومیٹرک حاضری میں دھوکہ دہی، ڈمی مریضوں کی موجودگی، اور یہاں تک کہ کچھ معائنہ کاروں نے کالج کا دورہ کرنے سے پہلے ہی مثبت رپورٹ تیار کر لی تھی۔
جعلی حاضری، جعلی مریضوں کے ریکارڈ، سب کچھ ڈیجیٹائز کر کے دھوکہ دہی کی گئی۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں تین میڈیکل کالجوں نے مبینہ طور پر ہر ایک کو پچاس لاکھ روپے رشوت دی۔ ایک حیران کن مثال میں رشوت کی رقم کا کچھ حصہ یعنی پچھتر لاکھ روپے مبینہ طور پر راجستھان میں ہنومان مندر کی تعمیر کے لیے بھیجا گیا۔
سِول سوسائٹی کی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کے نیٹ ورک "پیپلز ہیلتھ موومنٹ آف انڈیا” کی قومی شریک کنوینر امولیا ندھی نے ایک مضمون میں لکھا:
’’یہ صرف ایک گھوٹالہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ادارہ جاتی تباہی ہے۔ ریگولیٹرز دلال بن گئے ہیں۔ ہندوستان کے طبی مستقبل کی حفاظت کے ذمہ دار لوگ ہی اسے بیچ رہے ہیں۔ کالجوں نے حساس ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لی ہے، اس سے بڑھ کر افسوسناک بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ اگرچہ بدعنوانی کی روک تھام کے قانون اور تعزیراتِ ہند کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے مگر اگر ملوث کالجوں یا ڈاکٹروں کے لائسنس منسوخ نہیں گئے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ اخلاقی تعلیم نہیں ہو رہی۔ ایسے کالجوں کو بند کر دینا چاہیے ورنہ ہم غیر اخلاقی ڈاکٹر پیدا کر رہے ہیں، جو دھوکہ دہی سے پریکٹس کریں گے اور انسانی جانوں سے کھیلیں گے۔‘‘
دوا ساز کمپنیوں کو کھلی چھوٹ کیوں؟
حکومت نے عوامی صحت کے تحفظ کی بجائے، منافع خور کارپوریٹ مفادات کا ساتھ کیوں دیا؟ ادویات ہر فرد کی بنیادی ضرورت ہے لیکن ہندوستان میں یہ ضرورت اب صرف امیروں کی پہنچ میں ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں مرکزی حکومتوں نے دوا ساز کمپنیوں، خاص طور پر ملٹی نیشنل اداروں کو وہ آزادی دے دی ہے کہ جس نے عام آدمی کو صحت کی سہولت سے محروم کر دیا ہے۔
ایک وقت تھا جب حکومت ادویات کی قیمتوں پر کنٹرول رکھتی تھی۔ ’’ڈرگ پرائس کنٹرول آرڈر‘‘ (DPCO) کے تحت ضروری اہم اور عام ادویات کو تین زمروں میں تقسیم کر کے قیمتیں پیداواری لاگت کی بنیاد پر طے کی جاتی تھیں۔
1975 میں ہاتھی کمیٹی نے دو ٹوک الفاظ میں سفارش کی تھی کہ ادویات پر حکومتی کنٹرول لازمی ہے تاکہ ہر شہری کو کم قیمت پر معیاری دوا میسر ہو۔ اسی بنیاد پر 1979 میں حکومت نے DPCO کے ذریعے قیمتوں پر سخت کنٹرول کیا۔
لیکن پھر کیا ہوا؟ 1990 کے لبرلائزیشن کے بعد دھیرے دھیرے اس نظام کو کمزور کیا گیا۔
1987 میں کئی ادویات کو کنٹرول سے نکال دیا گیا۔
1995 میں ضروری ادویات کی فہرست 140 سے کم کر کے صرف 76 کر دی گئی۔
2013 میں ایک نئی فہرست تو بنائی گئی مگر کنٹرول مزید نرم کر دیا گیا۔
مارکیٹ فورسز کو قیمت طے کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔
اس تبدیلی کے سنگین نتائج نکلے: دوا ساز کمپنیاں بے لگام منافع کمانے لگیں اور غریب مریض دوا خریدنے کی استطاعت سے محروم ہو گئے۔
2005 میں دواؤں پر ایکسائز ڈیوٹی کا نظام بدلا گیا۔ پہلے یہ پیداواری لاگت پر لگتی تھی، مگر اب ایم آر پی پر لگتی ہے—یعنی اگر کسی دوا کی لاگت سو روپے ہے اور ایم آر پی تین سو روپے، تو ٹیکس چوبیس روپے لگے گا، نہ کہ آٹھ روپے۔ اس سے قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔
پھر جی ایس ٹی آیا، جس میں بارہ فیصد سے اٹھارہ فیصد تک سلیب لگا کر دواؤں کو مزید مہنگا کر دیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’سب کے لیے دوا‘‘ کا نعرہ ختم ہوا اور بازار کا منافع عروج پر پہنچ گیا۔
لبرلائزیشن کے بعد سرکاری دوا ساز اداروں کو یا تو بند کیا گیا یا نجی ہاتھوں میں سونپ دیا گیا۔ مقامی، سستی دوا تیار کرنے کی صلاحیت کو ختم کر کے، درآمدی مہنگی دوا پر انحصار بڑھایا گیا۔یہ مسئلہ صرف پالیسی یا معیشت تک محدود نہیں۔ سیاسی جماعتوں اور دوا ساز کمپنیوں کے درمیان ملی بھگت کا ثبوت اب انتخابی بانڈز کی شکل میں سامنے آ چکا ہے۔
• 37 بڑی دوا ساز کمپنیوں نے تقریباً ایک ہزار کروڑ روپے کے بانڈز خریدے۔
• الزام ہے کہ ان کمپنیوں کو معیار سے گری دوائیں بنانے، جعلی ادویات پھیلانے، اور عوامی جان کے ساتھ کھلواڑ پر کوئی کارروائی نہ کرنے کی قیمت ادا کی گئی ہے۔
• جعلی ادویات کی شکایات پر بھی حکومت خاموش ہے اور صرف نمائشی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔
عوام کا سوال:
اگر ادویات ضروریاتِ زندگی میں شامل ہیں تو انہیں مارکیٹ کی رحم و کرم پر کیوں چھوڑ دیا گیا؟
اگر ہاتھی کمیشن نے حکومت کو واضح راستہ دکھایا تھا تو اسے کیوں نظر انداز کیا گیا؟
کیا حکومتیں صحت کو شہریوں کا بنیادی حق تسلیم کرتی بھی ہیں یا اسے بھی منافع کا ذریعہ بنا چکی ہیں؟
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو سستی، معیاری اور آسانی سے دستیاب ہونے والی ادویات فراہم کرے۔ لیکن موجودہ حکومتی پالیسیوں نے عوام کو کارپوریٹ مفادات کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔ اگر فوری طور پر دوا ساز صنعت میں شفافیت، قیمتوں پر کنٹرول اور سیاسی مفادات کا احتساب نہ ہوا تو ہندوستان میں صحت عامہ کا بحران گہرا ہوتا جائے گا۔
مرکزی اور ریاستی ڈرگ ریگولیٹرز کی طرف سے جون میں جو دوائیوں کی جانچ کی گئی ہے ان میں 185 دوائیاں معیار کے مطابق نہیں ہیں۔ 18 جولائی کو جاری رپورٹ کے مطابق اینٹی بائیوٹکس، ذیابیطس اور بی پی کی دوائیں، وٹامن سپلیمنٹس معیاری نہیں پائے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوا میں نقصان دہ مائیکروجنزم پائے گئے ہیں، جو کھانے کے بعد مریض کے جسم میں انفیکشن کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ ممکنہ طور پر مریضوں میں انتہائی سنگین پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے، جیسے سیپسس یا شدید انفیکشن کی وجہ سے موت بھی ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف حکومت کو اور سپریم کورٹ کو بھی توجہ دلائی جا چکی ہے کہ دوا ساز کمپنیاں بڑے پیمانے پر ڈاکٹروں کو تحائف دیتی ہیں تاکہ وہ اس کے برانڈ کی دوائی لکھیں۔ ہاتھی کمیشن نے سفارش کی تھی کہ ڈاکٹروں پر فرض ہے کہ وہ کسی مخصوص کمپنی کی دوا تجویز نہ کریں۔
فیڈریشن آف میڈیکل اینڈ سیلز ریپریزنٹیٹو ایسوسی ایشن آف انڈیا نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرتے ہوئے درخواست کی تھی کہ فارما کمپنیوں کے مبینہ غیر اخلاقی طریقوں کو روکنے کے لیے فارماسیوٹیکل مارکیٹنگ پریکٹسز کا یکساں ضابطہ تیار کرنے کی مرکزی حکومت کو ہدایت دی جائے۔
درخواست گزار نے سپریم کورٹ کی توجہ دلائی تھی کہ Dolo-650 بنانے والی کمپنی نے ڈاکٹروں کو گولیوں کی سفارش کرنے کے لیے ایک ہزار کروڑ روپے کی رشوت دی ہے۔ اس کے علاوہ فارما کمپنیاں میڈیکل پریکٹیشنروں کو سونے کے سکے، ایل سی ڈی، ٹی وی، فریج، لیپ ٹاپ اور بہت کچھ تحفے میں دیتی ہیں جو بدلے میں اس کمپنی کی دوائیاں تجویز کرتے ہیں۔
حکومت نے بھی پارلیمنٹ میں تسلیم کیا ہے کہ اسے فارما فرموں کے غیر اخلاقی رویوں کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔
سِٹیزن سوِک ایکشن گروپ کے تجزیے کے مطابق، 2008-2009 اور 2016-17 کے درمیان سات بڑی ہندوستانی فارما فرموں نے مارکیٹنگ پر 34,187 کروڑ روپے خرچ کیے۔ فی الحال فارماسیوٹیکل مارکیٹنگ کے طریقوں کے لیے کوئی ریگولیٹر نہیں ہے۔
ان فرموں پر لگام لگانے کے لیے حکومت نے 2015 میں فارماسیوٹیکل مارکیٹنگ پریکٹسز کا یکساں کوڈ لایا تھا، مگر کووڈ کے رہنما خطوط کو رضاکارانہ طور پر نافذ کیا گیا تھا۔ خلاف ورزی کی صورت میں کارروائی کا کوئی انتظام نہیں تھا، اس لیے یہ کوڈ مکمل طور پر غیر عملی ثابت ہوا اور کھلے عام ڈاکٹروں کو تحائف دیے جا رہے ہیں اور ڈاکٹر مہنگی برانڈ کی دوائیاں لکھ رہے ہیں۔

 

***

 ہاتھی کمیٹی کی سفارشات کے تحت دواؤں کو عام آدمی کی پہنچ میں رکھنے کے لیے قیمتوں پر حکومتی کنٹرول نافذ کیا گیا تھا، مگر 1990 کے بعد کی معاشی پالیسیوں نے یہ کنٹرول ختم کر دیا۔ دوا ساز کمپنیوں کو منافع خوری کی کھلی چھوٹ ملی اور پیداواری لاگت کی جگہ MRP پر ایکسائز اور بعد میں جی ایس ٹی لگا دی گئی، جس سے دوائیں مہنگی ہو گئیں۔ معیار کی نگرانی کمزور پڑ گئی اور جعلی و غیر معیاری ادویات کی بھرمار ہو گئی۔ فارما کمپنیاں سیاسی جماعتوں کو انتخابی بانڈز کے ذریعے بھاری رقوم دے کر احتساب سے بچ نکلتی رہیں۔ یوں دوا سیاست اور منافع کا گٹھ جوڑ عوامی صحت کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025