انسان کی رسائی سورج کی دہلیزتک

آدتیہ ایل ون مشن بھارت کے لیے فخر کا لمحہ۔ نئےانکشافات کی امید

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

یہ تمام باشندگان ملک کے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ کرہ ارض سے تقریباً پندرہ لاکھ کلو میٹر دور پر آدتیہ ایل ون اپنے مطلوبہ ہدف پر پہنچ گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسرو کے سائنس داں بے حد مشکل اور پیچیدہ مہمات کو بسہولت اپنے ہدف تک پہنچا رہے ہیں۔ ایسی مہمات کی اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام کامیابیاں کم سے کم اخراجات پر مل رہی ہیں۔
بھارتی خلائی ایجنسی (اسرو) کے ذریعہ لانچ کیے گئے پہلے شمسی مشن آدتیہ L-1 کو 6؍ جنوری 2024 کو بڑی کامیابی ملی۔ آدتیہ L-1 کرہ ارض سے 15 لاکھ کیلومیٹر دور لیگرینج پوائنٹ1 کے ہیلو آربٹ میں پہنچ گیا ہے اور اسے آربٹ میں نصب کردیا گیا ہے۔ اسرو کے منصوبہ کے مطابق آدتیہ ایل ون پانچ سالوں تک قابل عمل رہے گا اور سورج کا مطالعہ کرے گا۔ یہ سورج کے کئی راز افشا کرے گا۔ آدتیہ ایل ون کو ہیلو آربٹ میں نصب کرنے کے لیے اسرو نے 6؍ جنوری کو چار بجے اس کے انجنوں کو اسٹارٹ کیا تھا۔ اس کے بعد بہت ہوشیاری سے اسے آربٹ میں نصب کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال اگست میں چاند کے جنوبی قطب پر چندریان تھری کی کامیاب لینڈنگ کے ہفتہ بھر میں شمسی معلومات یکجا کرنے کے لیے آدتیہ ایل ون مشن کی شروعات کی گئی تھی۔ یہ تمام باشندگان ملک کے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ کرہ ارض سے تقریباً پندرہ لاکھ کلو میٹر دور پر آدتیہ ایل ون اپنے مطلوبہ ہدف پر پہنچ گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسرو کے سائنس داں بے حد مشکل اور پیچیدہ مہمات کو بسہولت اپنے ہدف تک پہنچا رہے ہیں۔ ایسی مہمات کی اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام کامیابیاں کم سے کم اخراجات پر مل رہی ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سائنس داں ششدر ہیں۔ ہمارے ملک کے سائنس داں ان حدود کو وسعت دے رہے ہیں جو وقت کے ساتھ دنیا بھر کے لیے مفید اور کار آمد ثابت ہوں گی۔ ابتدائی اشارات سے پتہ چلتا ہے کہ مشن انتہائی کامیاب ہے اور اطلاعات کی ترسیل میں بھی آسانی ہو رہی ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ آدتیہ ایل ون آئندہ پانچ سالوں تک بذریعہ تحقیق انسانیت کے لیے نت نئے انکشافات کرے گا۔ اس مشن سے دیگر پلانٹس پر بھی مستقبل قریب میں تجربہ و تحقیق میں آسانی ہوگی۔ اس طرح پہلے ہی شمسی مشن میں بھارت نے خلا میں سورج کی نگرانی کرنے والی آبزرویٹری قائم کرلی ہے۔ مثلاً لنگریج پوائنٹ تک رسائی حاصل کر کے آدتیہ ایل ون کرہ مرض کے قریبی پلانٹس پر پڑنے والے اثرات کا تجزیہ کر سکے گا۔ گزشتہ سال دو ستمبر کو چھوڑے گئے شمسی مشن کا نشان زد آربٹ میں کامیابی سے پہنچانا ہمارے سائنس دانوں کی ذہانت اور غیر معمولی منصوبہ بندی کا حاصل ہے۔ واضح رہے کہ آدتیہ ایل ون مشن مقام تک پہنچایا گیا ہے وہاں سورج اور کرہ ارض کا قوت ثقل (Gravital Force) متناسب رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے خلائی کرافٹ کو ایندھن کی کم ضرورت ہوتی ہے اور وہ ایندھن میں زیادہ وقت تک سائنس داں تحقیقی عمل بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔ اصلاً آدتیہ میں موجود 7 پے لوڈس سورج کی خارجی پرت، توانائی اور خلا میں ہونے والی سرگرمیوں کا مطالعہ کریں گے ساتھ ہی ان وجوہات کا مطالعہ جو کرہ ارض اور خلا میں ہونے والے دیگر سرگرمیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ مثلاً شمسی بہاو کی خاطر ہی کرہ ارض پر کئی طرح کے سائنسی واقعات بھی سامنے آتے ہیں جس میں Electromagnetic diffractionکے حادثات بھی ہیں۔ اب سائنسداں سورج کے Diffraction اور زمین پر پڑنے والے اثرات کی منفعت بھی معلومات اکٹھا کر پائیں گے۔ یقیناً آدتیہ مشن کی کامیابی سے ہمارے سائنس دانوں کی معلومات میں اضافہ ہوگا جس سے تغیر زمانہ سے انسانیت کو فلاح اور خلائی خطرات سے تحفظ حاصل ہوگا۔ توقع ہے کہ 4 کروڑ ڈالر بجٹ والے اس آدتیہ مشن سے مستقبل قریب میں ملک کو فائدہ ہوگا۔
2؍ ستمبر 2023 کو لانچ کے بعد آدتیہ 16 دنوں تک کرہ ارض کے چاروں اطراف گردش کرتا رہا۔ اس دوران پانچ بار آربٹ تبدیل کیا گیا ہے تاکہ صحیح اور مناسب رفتار ملے۔ پھر اسے آربٹ میں بھیج دیا گیا۔ یہاں سے شروع ہوا 109 دنوں کا طویل سفر آدتیہ جیسے ہی اپنے مقام پر پہنچا اس کی ایک Orbit Maneuvering کرائی گئی تاکہ ایل پوائنٹ کے چاروں اطراف موجود ہیلو آربٹ میں چکر لگاتا رہے۔ آدتیہ ایل ون پانچ سالوں تک سورج کا مطالعہ کرے گا۔ یہ بھارت کی پہلی خلائی آبزرویٹری ہے۔ یہ سورج سے اتنے فاصلہ پر تعینات ہوگا کہ اسے گرمی تو لگے گی مگر خراب نہ ہو کیونکہ سورج کی سطح سے تھوڑ اوپر یعنی فوٹو اسفیئر کی درجہ حرارت تقریباً 5,500 سنٹی گریڈ رہتا ہے اور مرکز کا درجہ حرارت 1.5 سنٹی گریڈ لاکھ کروڑ رہتا ہے۔ ایسے حالات میں کسی گاڑی یا اسپیس کرافٹ کی وہاں تک رسائی ممکن نہیں ہوگی۔
آدتیہ ایل ون کا دائرہ عمل بھی کافی دلچسپ ہے۔ شمسی طوفانوں کی وجہ شمسی لہروں اور زمینی بایو اسفیئر پر اس کا کب اثر ہوتا ہے؟ آدتیہ سورج کی شعاعوں کی وجہ سے خارج ہونے والی گرمی اور گرم ہواوں کا مطالعہ کرے گا۔ شمسی اسفیئر کو سمجھنے کی کوشش ہوئی۔ سورج ہمارا تارہ ہے اس سے ہی ہمارے سولر سسٹ کو توانائی ملتی ہے۔ اس کی عمر تقریباً 450 کروڑ سال بتائی جاتی ہے۔ بغیر اس توانائی کے جو سورج سے حاصل ہوتی ہے زمین پر زندگی نا ممکن ہے۔ سورج کی قوت ثقل (Gravity) کی وجہ سے ہی نظام شمسی میں سبھی سیارے (Planets) بُکے ہوئے ہیں۔ سورج کے کور میں نیوکلیر فیوژن ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے سورج چہار جانب آگ اگلتا نظر آتا ہے۔ سورج کا غائر مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ نظام شمسی کے باقی سیاروں (Planets) کی سمجھ پڑھ سکے۔ یہ سورج ہی ہے جس کی وجہ سے کرہ ارض پر ریڈیائی شعاعیں اور لہریں، گرمی میگنیٹک فلڈ اور چار زڈ ذارت کا بہاو ہوتا رہتا ہے۔ اسی بہاو کو شمسی ہوا یا سولر ونڈ کہتے ہیں۔ جو زیادہ توانائی والے پروٹونیس سے تیار ہوتے ہیں۔ اس سے سولر میگنیٹک فلڈ کا بھی پتہ چلتا ہے جس میں بہت زیادہ دھماکا ہوتا رہتا ہے۔ کورونل ماس ایجکشن (CME) کی وجہ سے آنے والے شمسی طوفان سے کرہ ارض کو کئی طرح کے نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے خلائی موسم کی جانکاری بے حد ضروری ہے یہ موسم سورج کی وجہ سے بنتا بگڑتا ہے۔ آدتیہ ایل ون مشن کی پروجیکٹ ڈائرکٹر نگار شاجی نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ یہ مشن محض سورج کا مطالعہ کرنے میں ہی مدد نہیں کرے گا بلکہ تقریباً 400 کروڑ روپے کا پروجیکٹ شمسی طوفانوں کا بہتر طریقے سے معلومات فراہم کرے گا جس سے ملک کے پچاسوں ہزار کروڑ روپے کے پچاسوں سٹیلائٹ کو تحفظ بھی ملے گا اس کے علاوہ جو بھی ملک اس طرح کی مدد کا خواستگار ہوگا انہیں بھی مدد دی جائے گی۔ یہ پروجیکٹ ملک کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس سٹیلائٹ کے سولر الٹرا وائیلیٹ امیجینگ ٹیلی اسکوپ نے سورج کی پہلی بار فول ڈسک تصویریں بھی لی تھی۔ یہ سبھی تصویریں 200 سے 400 نینو میٹرو ویبھ لینتھ کی تھیں۔ اس طرح سورج گیارہ مختلف رنگوں میں نظر آئے گا۔ اس ٹیلی اسکوپ نے سورج کے کرومو اسفیئر اور فوٹو اسفیئر کی تصویریں بھی لی ہیں۔ کرومو اسفیئر سورج کی سطح سے دو ہزار کلو میٹر اوپر تک ہوتی ہے ۔ اس سے قبل سورج کی تصویر چھ دسمبر 2023 کو لی گئی تھی۔ اس طرح امید ہے کہ ملک کی خلائی تحقیق ملک اور سماج کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 3 فروری 2024