زعیم الدین احمد حیدرآباد
ایک لاکھ 70 ہزار مقدمات تیس سال سے تصفیہ طلب ہیں
قانون کے گلیاروں میں ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ انصاف میں تاخیر دراصل انصاف کا انکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے انصاف کا کیا حاصل جو تاخیر سے ملا ہو۔ اسی طرح ایک اور کہاوت بھی مشہور ہے کہ جلد بازی میں کیا ہوا فیصلہ انصاف کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں حالتیں اپنی انتہائی کیفیات کو ظاہر کرتی ہیں۔ اسی لیے اعتدال کا راستہ ہی بہترین راستہ ہے۔
ہمارے ملک کی عدالتوں اور ان کے فیصلوں کی صورت حال پر پہلی بیان کردہ حالت پوری طرح صادق آتی ہے، کیوں کہ یہاں انصاف کا حصول آسان نہیں ہے، لوگوں کو اس کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے، بسا اوقات نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ فیصلہ آنے تک ملزم کی جان ہی چلی جاتی ہے، یہاں جلد انصاف ملنے کا خواب میں بھی نہیں سوچا جاسکتا۔ یہاں فیصلے ہمیشہ تاخیر سے آتے ہیں۔ تاخیر سے ملنے والے اس انصاف سے متعلق ایک اور کہاوت بھی بہت مشہور ہے کہ مقدمہ ہارنے والا کمرہ عدالت میں روتا ہے اور جیتنے والا گھر آکر روتا ہے۔ روتے بہرحال دونوں ہیں، ہارنے والا اس لیے روتا ہے کہ وہ مقدمہ ہار گیا، جیتنے والا اس لیے روتا ہے کیوں کہ اس دوران اس کی عمر کے برسوں نکل گئے، اس کا وقت اور پیسہ سب کچھ برباد ہوگیا۔ گویا وہ مقدمہ جیت کر بھی ہار گیا۔ حق و انصاف کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ فیصلوں میں تاخیر ہے، اور یہ تاخیر دنوں کی نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط ہوتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ایسے ملزمین ہیں جن پر ابھی صرف الزام ہی لگا ہے، سالوں سے وہ جیلوں میں سڑ رہے ہیں، ان کی ضمانتوں کی درخواستوں کو سنا ہی نہیں جاتا، کسی کو ضمانت ملتے ملتے برسوں گزر جاتے ہیں، کسی کے دس سال تو کسی کے بیس سال۔ جب کہ یہ ان کے مقدمات کی سماعت نہیں ہوتی ہے۔ یہ تو صرف ضمانت کی درخواستیں ہوتی ہیں۔ اپنے ٹرایل کے دوران وہ اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال جیل کے سلاخوں کے پیچھے گزار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی غیر معمولی تاخیر کی کیا وجوہات ہیں؟ حکومت کا کہنا ہے کہ عدالتوں کو ضمانتوں کی درخواستوں کی سماعت پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔ اس کے برعکس سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ Bail is roll, jail is exception یعنی ضمانت دینا ضابطہ ہے، جب کہ جیل بھیجنا استثنائی کیفیت ہے۔
ہمارے ملک میں عدالتیں تین سطحوں پر کام کرتی ہیں، پہلی عدالت عظمٰی یعنی سپریم کورٹ ہے جسے فیڈرل کورٹ بھی کہتے ہیں، دوسری عدالت عالیہ یعنی ہائی کورٹ اور تیسری ضلعی عدالتیں۔ ان عدالتوں میں دو قسم کے مقدمات لڑے جاتے ہیں ایک دیوانی یعنی سیول مقدمات، دوسرے فوجداری یعنی کریمنل مقدمات۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارے میں آخر کتنے مقدمات زیرِ التوا ہیں؟ ہمارے ملک کی جملہ عدالتوں میں تقریباً پانچ کروڑ سے زیادہ مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ اور یہ اعداد و شمار خود مرکزی حکومت کے جاری کردہ ہیں۔ ان میں ایک لاکھ 70 ہزار مقدمات ایسے ہیں جو تیس سال سے زیرِ التوا ہیں، اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مقامات میں حکومت خود سب سے بڑی مدعی ہے، ان زیرِ التوا مقدمات میں سے 50 فیصد مقدمات حکومت کے ہیں۔ ان زیرِ التوا مقدمات کا بہت بڑا حصہ زمین اور جائیدادوں سے متعلق ہے، تمام دیوانی مقدمات میں تقریباً 66 فیصد تنازعات زمین اور جائیدادوں سے متعلق ہیں، ان میں سے تقریباً 25 فیصد مقدمات کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا۔ ہمارے کے لیے قابلِ فخر بات یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ زیر التوا مقدمات ہمارے ملک میں ہی ہیں، ہمارا ملک کسی اور چیز میں آگے ہو نہ ہو لیکن عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات میں ضرور آگے ہے۔ نیتی آیوگ کے مطابق ہماری عدالتوں میں زیر دوراں مقدمات کو نمٹانے کے لیے 324 سال سے زیادہ کا وقت درکار ہے۔
ہم نے بارہا پڑھا ہے کہ ایک شخص کو جس پر قتل کا الزام تھا اسے بیس سال بعد ناکافی شواہد کی بنا پر جیل سے رہا کردیا گیا۔ کئی مسلم نوجوانوں کو ٹاڈا تحت گرفتار کیا گیا تھا جن پر دہشت گردی کا الزام تھا ان میں کسی کو اٹھائیس سال بعد تو کسی کو پچیس سال بعد باعزت بری کردیا گیا۔ آخر اس تاخیر کی کیا وجوہات ہیں؟
پہلی وجہ ججوں اور عدالتی عملے کی کمی: ملک میں اس وقت ججوں کی تعداد دس لاکھ آبادی پر 21 ہے۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی کل تعداد 34 ہے، وہیں ہائی کورٹس میں 1108 اور ضلعی عدالتوں میں 24,631 ججز ہیں۔ اس آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے ہزار ججوں کی جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ لا کمیشن آف انڈیا اور جسٹس وی ایس ملیمتھ کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ ججوں کی تعداد کو بڑھایا جانا چاہیے، ان کی سفارش تھی کہ ہر دس لاکھ کی آبادی پر 50 ججز ہونے چاہئیں یا ہر 20 ہزار کی آبادی پر ایک جج ہو۔ اگر یورپ اور امریکہ سے موازنہ کیا جائے تو ہمارا تو کوئی مقام ہی نہیں ہے۔ یورپ میں فی دس لاکھ کی آبادی پر 210 جج ہیں اور امریکہ میں فی دس لاکھ پر 150 جج ہیں۔ ملک میں زیرِ التوامقدمات پر جو پیسہ خرچ ہوتا ہے وہ دو فیصد جی ڈی پی کے برابر ہے۔ عالمی انصاف پروجیکٹ کے مطابق ہمارے ملک کی درجہ بندی 142 ممالک میں، دیوانی انصاف میں 111 اور فوجداری انصاف میں 93 ہے۔ ضمناً ایک بات عرض کر دوں کہ ایک جج سال میں دو سو پانچ دن یا اس سے کچھ زائد دن ہی کام کرتا ہے، باقی دنوں میں چھٹیاں ہوتی ہیں۔
دوسری وجہ ناکافی بجٹ ہے۔ ہمارے ملک میں سپریم کورٹ کے اخراجات مرکزی حکومت، اور ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں کے لیے ریاستی حکومتیں بجٹ فراہم کرتی ہیں۔ ہمارا ملک عدالتوں کے تمام اخراجات پر اپنی جی ڈی پی کا 0.08 فیصد ہی خرچ کرتا ہے، جبکہ امریکہ اپنے سالانہ بجٹ کا دو فیصد عدالتوں پر خرچ کرتا ہے، وہیں ہماری ریاستیں اپنی عدالتوں کے تمام اخراجات کے لیے اپنے سالانہ بجٹ کا ایک فیصد سے بھی کم خرچ کرتی ہیں۔
تیسری وجہ انفراسٹرکچر کی کمی۔ یہ بھی ایک وجہ ہے تاخیر کی۔ ضلعی عدالتیں بنیادی ڈھانچے کی کمی کا شکار ہیں۔ صرف 20,143 عدالتی کمرے ہی موجود ہیں جب کہ 24,631 ججوں کی تعداد ہے۔ نچلی عدالتوں میں سے صرف 40 فیصد عدالتوں میں ہی بیت الخلا کی سہولتیں پائی جاتی ہیں، زیریں عدالتوں میں بھی ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، ویڈیو کانفرنسنگ رومز اور جیل کے افسروں سے ویڈیو کنیکٹیویٹی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
چوتھی وجہ غیر موثر قانون سازی۔ تنازعات اور شکایات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے متاثرہ فرد کو اطمینان نہیں دلایا جاتا اور نہ ہی منصفانہ طریقے سے اس کا مسئلہ کیا جاتا ہے۔ قانون ساز اسمبلیوں منظور شدہ قوانین میں خامیاں پائی جاتی ہیں، اسی طرح قانون نافذ کرنے والے ادارے عدالتوں میں مقدمات کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ ججوں نے اس معاملے میں کئی مرتبہ تنقید کی بھی ہے کہ قانون ساز ادارے اور نافذ کرنے والے ادارے اپنی تمام تر صلاحیتوں کا استعمال نہیں کرتے جس کی وجہ سے خراب حکم رانی ہو رہی ہے اور اسی وجہ سے عدالتوں پر بھی بوجھ پڑ رہا ہے۔
پانچویں وجہ قوانین کا غلط استعمال۔
عدالتوں میں مقدمات طے شدہ قواعد کے مطابق چلتے ہیں، انہی پرانے قواعد و ضوابط کے استعمال کی وجہ سے مقدمات میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ وکلا بغیر کسی تردد کے بغیر روک ٹوک کے غیر متعلقہ دلائل کے ساتھ بحث کرتے ہیں اور عدالتوں کا وقت ضائع کرتے ہیں، جس کی وجہ سے عدالتی کارروائی میں تاخیر ہوتی ہے، علاوہ ازیں وہ اپنے مقدمات کی درخواستیں طویل تحریروں میں جمع کراتے ہیں جو اتنی طویل ہوتی ہیں کہ ان کو پڑھنے میں ہی کئی دن لگ جاتے ہیں۔
ان ساری وجوہات کی وجہ سے فیصلوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔ حکومت بھی اس معاملے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ وہ ججوں کو چھٹیاں دینے کی مخالفت تو کرتی ہے لیکن پارلیمنٹ کتنے دن کام کرتی ہے اس کا موازنہ نہیں کرتی۔ ججوں کی تعداد بڑھانے سے پہلو تہی کرتی ہے، مخلوعہ جائیدادوں کو پر نہیں کرتی۔ ایسے قوانین بنانے کی کوشش نہیں کرتی جس سے مجرم جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔ قانون سازی میں بھی فرقہ وارانہ رنگ نظر آ رہا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے انصاف کے بجائے تعصب کی عینک پہنے ہوئے ہیں۔
***
***
عالمی انصاف پروجیکٹ کے مطابق ہمارے ملک کی درجہ بندی 142 ممالک میں، دیوانی انصاف میں 111 اور فوجداری انصاف میں 93 ہے۔ایک جج سال میں دو سو پانچ دن یا اس سے کچھ زائد دن ہی کام کرتا ہے، باقی دنوں میں چھٹیاں ہوتی ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 4 فروری تا 10 فروری 2024