!انصاف کی امید پر لاش جلائی نہیں دفنائی جائے گی

اتر پردیش کی راہ پر چلنے کی کوشش میں بامبے ہائی کورٹ کی سرزنش ایک بہتر اقدام

ڈاکٹر سلیم خان

ایک شندے کے اشارے پر دوسرے شندے کی نگرانی میں تیسرے شندے کے ذریعہ چوتھے شندے کا انکاؤنٹر!
ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات 2017 سے منعقد نہیں ہوئے کیونکہ حزب اختلاف کو توڑ کر اپنی حکومت بنا لینے کے بعد بھی بی جے پی کو یقین ہے کہ وہ الیکشن جیت نہیں سکتی۔ ممبئی میں پچھلے بلدیاتی انتخابات کے وقت بی جے پی کے دیویندر پھڈنویس وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے پورا زور لگا دیا اور چاہتے تھے کہ اڈانی کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے کسی طرح ممبئی میونسپل کارپوریشن پر قبضہ کرلیا جائے مگر وہ صرف دو نشستوں سے پچھڑ گئے یعنی شیوسینا کے 84 اور بی جے پی کے 82 امیدوار کامیاب ہوئے۔اسی لیے دھاراوی میں اڈانی کےڈریم پروجیکٹس پر اب بھی خطرات کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔ دھاراوی دراصل دو حلقہ ہائے انتخاب میں منقسم ہے۔ ان میں سے ایک شیوسینا اور دوسرے پر کانگریس کے امیدوار کامیاب ہوگئے ہیں اور ان دونوں نے اڈانی کے سروے کے کام میں روکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ ایسے میں اگر بلدیہ اور ریاست کی سطح پر بھی بی جے پی ناکام ہوجاتی ہے تو بے چارے گوتم اڈانی کے لیے تو بے شمار مسائل پیدا ہوجائیں گے۔
ریاستی حکومت کے چور دروازے سے بلدیہ پر قبضہ قائم رکھنے کی خاطر ’نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا‘ کا نعرہ لگانے والے الیکشن کو ملتوی کرنے کی چال چل رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ڈبل انجن سرکار کے باوجود ایک شہر کا انتخاب لڑنے سے ڈرتے ہوں وہ بھلا صوبائی انتخاب کیسے جیتیں گے؟ کیونکہ جو ڈر گیا وہ مرگیا والا مکالمہ انتخابی سیاست کے سلسلے میں کلی طور پر صادق آتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ملک بھر کے ہزاروں میونسپل کارپوریشنوں میں سے ایک ممبئی اگر بی جے پی کے قبضے میں نہ ہو تو کیا فرق پڑتا ہے؟ ممبئی چونکہ ملک کا معاشی دارالحکومت ہے اس لیے شہر کی بلدیہ کا بجٹ کئی چھوٹے اور متوسط ریاستوں سے زیادہ یعنی 59,954.75 کروڑ روپے ہے۔ یہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے۔ کئی سال قبل مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ منوہر جوشی نے جو ممبئی کے میئر بھی رہ چکے تھے یہ کہا تھا کہ وہاں پر ٹھیکوں پر تقریباً 40 فیصد رشوت کا رواج عام ہے۔ پچھلے 30 سالوں میں یہ شرح کتنی بڑی ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اسی کمائی کے لیے ہر سیاسی جماعت اس کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتی ہے۔
بلدیاتی انتخابات ہوجائیں تو میونسپل کارپوریشن کے سارےٹھیکے کارپوریٹرس کے زیر نگرانی چلتے ہیں اور گوناگوں وجوہات کی بنیاد پر ان کے ذریعہ کیے جانے والے کاموں سے عوام کو راحت ملتی ہے مثلاً سڑکوں وغیرہ کی مرمت ہوجاتی ہے۔ فی الحال ممبئی لاوارث ہوگئی ہے۔ سڑکوں پر بڑے گڈھے پڑے ہوئے ہیں۔ ریاستی حکومت کے تحت کام کرنے والے ایک کمشنر کے ذریعہ بلدیہ کا کام چلایا جا رہا ہے نتیجے لوگ پریشان ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں یہ ہوتا تھا کہ کم ازکم گنیش چترتھی کے تہوار پر سڑکوں کی مرمت ہوجاتی تھی مگر اس بار وہ زحمت بھی نہیں کی گئی۔ بعید نہیں کہ سرکاری فائلوں میں اس کا خرچ دکھا دیا گیا ہو! ویسے شہر کو چراغاں کرنے کے لیے بتیاں لگائی گئی تھیں جن کی روشنی میں گڈھے اور بھی نمایاں ہوگئے تھے۔ اس دکھاوے کے ٹھیکے سے بلدیاتی افسر اور ریاستی سرکار دربار کی جیب تو گرم ہوگئی ہوگی مگر عوام کے ارمان ٹھنڈے ہوگئے۔ اس لیے کہ وہ تو ہوا میں نہیں اڑتے بلکہ زمین پر چلتے ہیں۔
مرکز میں وزارت سڑک کا قلمدان مہاراشٹر کے نتن گڈکری سنبھالے ہوئے ہیں مگر وہ ہائی وے کی تعمیرات سے موٹی کمائی کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ انہوں نے بڑی ٹھاٹھ باٹ سے ممبئی میں ’اٹل سیتو‘ نام کا پُل بنایا جس میں چند ہفتوں کے اندر گڈھے پڑگئے۔ نئی سڑکوں پر یہ گڈھے چیخ چیخ کر رشوت کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ تو ایک مثال ہے دیگر فلاح و بہبود کے کاموں کا بھی ابتر حال ہے۔ اس کے باوجود مہایوتی اگر ممبئی سے اپنے ارکان اسمبلی کو کامیاب کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ عوام تو اس کو سبق سکھانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی کا ایک مظاہرہ پچھلے دنوں ممبئی یونیورسٹی کے سینیٹ الیکشن میں ہوا۔ وہاں پر اصل مقابلہ شیوسینا کی طلبا تنظیم ودیارتھی سینا اور بی جے پی کی اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے درمیان تھا۔ بی جے پی کی قیادت کرنے والے بیشتر رہنما اے بی وی پی سے آئے ہیں اس لیے اپنی طلبا تنظیم سے ان کی انسیت فطری ہے۔ ان لوگوں نے اس انتخاب میں دلچسپی بھی لی مگر نتیجہ یہ نکلا کہ ساری کی ساری نشستوں پر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن کی طرح یونیورسٹی کے سینیٹ الیکشن بھی پچھلے دو سال سے ملتوی ہورہے تھے۔ دو بار اعلان کرنے کے باوجود سیاسی دباؤ کی وجہ سے الیکشن ٹال دیا گیا۔بالآخر عدالت نے ریاستی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے فوری طور پر انتخابات کرانے کا حکم دیا تب جا کر بادلِ ناخواستہ الیکشن کروایا گیا جس میں بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ سینیٹ کے لیے 24؍ ستمبر کو ووٹنگ ہوئی تھی مگر نتائج 28 کو جاری کیے گئے۔ اس میں اُدھو ٹھاکرے گروپ کی یووا سینا نے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کو زبردست زک پہنچاتے ہوئے سبھی دس رجسٹرڈ گریجویٹ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلی۔اس سے اےبی وی پی کو زبردست جھٹکا لگا۔ یہ انتخابی نتائج بلدیاتی الیکشن میں آنے والے نتیجوں کا پیش خیمہ ہیں۔ اڈانی فی الحال بنگلا دیش اور سری لنکا کی سیاسی صورتحال سے پریشان ہے مگر ممبئی کا جھٹکا ان سب کو مات کر دے گا اور آگے چل کر دھاراوی پراجیکٹ اگر پوری طرح مسترد نہ بھی ہو تب بھی اس کا منافع بہت کم کر دیا جائے گا۔
ممبئی سے متصل ضلع تھانہ ہے۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کا تعلق اسی ضلع سے ہے۔ اس میں دو حلقۂ انتخاب ہیں جس میں سے ایک میں انہوں نے اپنے بیٹے ششی کانت شندے کو کامیاب کروا کے ایوان پارلیمنٹ میں بھیجا ہے۔ بدلا پور اسی حلقۂ انتخاب کا ایک شہر ہے جو پچھلے کئی ماہ سے عصمت دری سانحہ کی وجہ سے میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ وہاں پر ایک اسکول میں دو ننھی منی بچیوں کے ساتھ جنسی دست درازی کا معاملہ سامنے آیا۔ بچیوں کے والدین نے شکایت کے لیے پولیس تھانے سے رجوع کیا تو دو دنوں تک ٹال مٹول کی گئی۔ ایک بچی کی حاملہ ماں کو کئی گھنٹوں تک پولیس تھانے میں انتظار کروایا گیا کیونکہ وہ جس اسکول کے انتظامیہ کو موردِ الزام ٹھیرا رہی تھی اس کے تار اوپر کے لوگوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ آتش فشاں اس وقت پھٹ پڑا جب لوگ سڑکوں پر آگئے اور انہوں نے ممبئی کی لائف لائن لوکل ٹرین کو تین گھنٹوں کے لیے روک دیا۔ اس غیر معمولی احتجاج کے بعد کمبھ کرن کی نیند سونے والے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے جاگے مگر ششی کانت ہنوز سوئے ہوئے ہیں۔
بدلا پور معاملے میں عوام کا غم و غصہ کم کرنے کے لیے اسکول کے چپراسی اکشے شندے کو گرفتار کرلیا گیا۔ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے اس لیے وہ اسے جلد ہی بھولنے لگے۔ درمیان میں شیواجی کا مجسمہ ٹوٹا تو حزب اختلاف اور عوام کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوگئی اور یہ معاملہ تقریباً رفع دفع ہوگیا۔ ریاستی حکومت کے لیے یہ عافیت کی بات تھی مگر سنسکرت کا محاورہ ہے ’وناش کالے ویپریت بدھی‘ یعنی تباہی کے وقت انسان کا دماغ الٹ جاتا ہے اور ایسے میں وہ شخص دشمن کی ضرورت سے بے نیاز ہوکر خود اپنی بربادی کا سامان کرنے لگتا ہے۔ ریاستی انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں برسرِ اقتداربمحاذ کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں نہ جانے کس بیوقوف نے وزیر اعلیٰ یا وزیر داخلہ کو اکشے شندے کے انکاونٹر کا مشورہ دے دیا۔ اس کام کے لیے ان لوگوں نے سنجے شندے نامی بدنامِ زمانہ پولیس افسر کا استعمال کیا۔ صورت حال ایسی عجیب و غریب بنی کہ اکشے شندے کو جس پولیس والے نے ہلاک کیا وہ بھی شندے ہے۔ جس حلقہ انتخاب میں یہ انکاونٹر ہوا وہاں رکن پارلیمنٹ ششی کانت بھی شندے اور اس کے والد ریاستی وزیر اعلیٰ ایکناتھ بھی شندے ہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک شندے کے اشارے پر دوسرے شندے کی نگرانی میں تیسرے شندے کے ذریعہ چوتھے شندے کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اور ان کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ نے سوچا ہوگا کہ اس انکاونٹر کے ذریعہ وہ یوگی کی طرح اپنی مقبولیت بڑھالیں گے لیکن ہائی کورٹ نے مداخلت کرکے رنگ میں بھنگ ڈال دیا اور ایسے ایسے سوالات کردیے کہ سرکاری وکیل کے ہوش اڑ گئے۔ جنسی ہراسانی کیس میں ماخوذ ملزم اکشے شندے کے باپ نے بامبے ہائی کورٹ میں اپنے بیٹے کے انکاؤنٹر کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ سماعت کے دوران عدالت نے مہاراشٹر پولیس کی کارروائی پر سوالات اٹھائے۔ بامبے ہائی کورٹ نے کہا کہ اسے انکاؤنٹر نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ایک عام آدمی گولی نہیں چلا سکتا۔ ملزم کو گولی سے ہلاک کرنے کے بجائے پولیس اسے قابو میں کر سکتی تھی۔ اس لیے پہلی نظر میں ہی یہ واقعہ عجیب لگتا ہے۔ عدالت نے اس معاملے کی کسی آزاد ایجنسی سے تفتیش کرانے کی سفارش کی۔
اس موقع پر ہائی کورٹ نے اسکولوں میں بچوں کی حفاظت کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کے حوالے سے پیش رفت پر بھی اپنی مایوسی کا اظہار کیا کیونکہ اسے معلوم ہوا کمیٹی کے کسی بھی رکن کو ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں ہائی کورٹ کا حکم نہیں پہنچایا گیا۔جسٹس ڈیرے نے سوال کیا کہ ’کیا آپ اس بارے میں سنجیدہ ہیں؟ آپ نے ہمیں اپنے عزم کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ رپورٹ ہفتے کے اندر جمع کرائی جائے لیکن یہ صرف کاغذ پر نہیں ہوسکتی کیونکہ آپ کا عمل آپ کے الفاظ کے خلاف ہے‘۔ عدالت کی اس ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کو جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ تو اس نے نہیں کیا بلکہ وہ کر دیا جو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اکشے شندے کے گھر والوں کا الزام ہے کہ ان کے بیٹے کی موت فرضی انکاؤنٹر میں ہوئی ہے۔ اس کے والد ایس آئی ٹی کے ذریعہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اکشے شندے کا انکاونٹر اس قدر بھونڈے انداز میں کیا گیا کہ اس کو رفع دفع کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ سارا کام پولیس کی بند گاڑی کے اندر ہی کر دیا گیا جبکہ وکاس دوبے کے معاملے میں کم از کم ملزم کو نیچے اتر کر بھاگنے کا موقع دیا گیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ پولیس اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے اس سے آگے نکل گئی اور اس سے قبل کے وہ مڑ کر کسی اور سمت بھاگتا انکاونٹر کی گولی سیدھی اس کی پیشانی میں جا لگی۔ اس کے باوجود یوگی کے رام راج میں یو پی کی ایس آئی ٹی کو انکاونٹر میں بھی کوئی غلط بات نظر نہیں آئی اور اس نے کلین چٹ دے دی۔ اکشے شندے کے والد پرامید ہوں گے کہ ایس آئی ٹی کی تفتیش مکمل ہونے سے قبل ریاستی انتخابات کے بعد حکومت بدل جائے گی اور نئی حکومت کے تحت کام کرنے والی ایس آئی ٹی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اکشے کے والد کا مرکزی ایجنسی سی بی آئی کے بجائے ایس آئی ٹی پر اصرار ہے۔
سی بی آئی، ویسے تو مرکزی حکومت کے پنجرے کا طوطا ہے مگر اس نے بھی کولکاتا کے معاملے میں اجتماعی عصمت دری کے شواہد نہ ہونے کا اعتراف کرکے بی جے پی کے لیے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ اکشے شندے کے والد نے اپنے بیٹے کو ہندو طور طریقوں سے نذرِ آتش کرنے سے انکار کر کے نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ملزم کی آخری خواہش تھی۔ اور اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ اگر مستقبل میں جانچ کے لیے لاش کو نکالنا پڑے تو وہ زمین کے نیچے موجود رہے۔ عدالت نے اکشے شندے کے پسماندگان کے اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ سہولت فراہم کرے۔ تھانے ضلع کا انتظامیہ نے عدلیہ کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس کام کے لیے کسی سنسان مقام کا تعین کرے گی۔ اس فیصلے میں بھی اشارہ ملتا ہے کہ اکشے شندے کے والد حزب اختلاف سے پر امید ہیں کیونکہ اس نے حکومت پر اسکول انتظامیہ کو بچانے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔
اکشے شندے کو جب پولیس کی گاڑی میں لے جایا جا رہا تھا تو اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں۔ عدالت نے پوچھا کہ وہ کیسے کھل گئیں تو پولیس کا جواب تھا کہ اس نے پانی مانگا تو ہتھکڑی کھولنی پڑی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کوئی پولیس والا اپنے ہاتھ سے اسے پانی پلا دیتا تو کون سا آسمان پھٹ پڑتا؟ جج صاحب نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی پستول چلائی ہے تو انہوں نے نفی میں جواب دے دیا۔ اس پر جج صاحب بولے میں نے چلائی ہے اور بلا تربیت اسے کوئی بھی استعمال نہیں کر سکتا بلکہ اس کا لاک بھی نہیں کھول سکتا۔ اس کے بعد جب سوال ہوا کہ شندے نے پستول کا لاک کیسے کھولا تو پولیس کا جواب تھا چھینا جھپٹی کے دوران کھل گیا۔
یہ ناقابلِ یقین ہے کہ چار پولیس والوں کی موجوگی میں ایک ایسا ملزم جس کا کوئی مجرمانہ پس منظر نہیں تھا ان سے پستول چھین کر تین گولیاں چلا دیتا ہے اور ان میں سے ایک گولی پولیس والے کے پیر میں لگتی ہے۔ یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ ملزم نے تو پیشانی کے بجائے پیر میں گولی مارنے کا احتیاط ملحوظِ خاطر رکھا مگر تربیت یافتہ پولیس اسے بھول کر سیدھے سر میں گولی مار دیتی ہے تاکہ بچنے کا کوئی امکان نہ رہے۔ ایسے میں جب جج صاحب نے پوچھا کہ تین میں سے ایک گولی تو پولیس والے کے ران میں لگی باقی دو کہاں گئیں تو اس کا کوئی جواب پولیس کے پاس نہیں تھا۔ ہندی فلمیں اپنی حماقتوں کے لیے مشہور ہیں لیکن ایسی حماقت تو وہاں بھی نہیں ہوتی اسی لیے مقامی اخبارات میں اس پر دلچسپ تبصرے کیے گئے۔ مراٹھی اخبار سامنا نے لکھا کہ اگر شندے اور پھڈنویس یہ دکھاوا کر رہے ہیں کہ انہوں نے اکشے شندے کا انکاونٹر کرکے بدلاپور کی متاثرہ بچیوں کو فوری انصاف دلایا ہے تو پھر ضلع تھانے کی اکشتا مہاترے کو بھی فوری انصاف دیا جائے جو مندر میں تین پجاریوں کی ہوس کا شکار بنی تھی۔
شیوسینا کے ترجمان روزنامہ سامنا میں ریاستی وزیر داخلہ دیویندر پھڈنویس کے ضلع میں پچھلے چھ ماہ کے دوران 200؍ سے زائد بہنوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ذکر کرکے کہا گیا کہ وہ بہنیں بھی ایسے ہی انصاف کی توقع رکھتی ہیں۔ سامنا اپنا اداریہ اس پر ختم کرتا ہے کہ یہ انکاؤنٹر ہمیشہ کی طرح جعلی ہے۔ وزیر داخلہ ماسٹر مائنڈ کو بچانا چاہتے ہیں۔پربھات نامی مراٹھی اخبار نے لکھا کہ یہ کلیدی ملزم کو مار کر کیس ختم کرنے کی کوشش ہے۔ انڈین ایکسپریس کے ہندی اخبار ’جن ستہ‘ نے پولیس پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ وہ یا تو اپنی کوئی خامی چھپانا چاہتی ہے یا پھر اسے عدالتوں پر اعتماد نہیں اس لیے وہ خود فیصلے لینے اور سزا دینے پر یقین کرنے لگی ہے۔ اخبار کے مطابق عدالت نے پولیس کی کہانی کو خارج کر دیا۔ عوام کے لیے بھی اس کہانی پر یقین کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ بہت جلد منعقد ہونے والے صوبائی انتخابات میں اس غیرقانونی حکومت کو مسترد کر نے کا انتظار کر رہے ہیں بشرطیکہ انہیں ممبئی میونسپل کارپوریشن کی طرح التواء میں نہ ڈال دیا جائے لیکن جب بھی الیکشن ہوگا یونیورسٹی جیسے نتائج ہی سامنے آئیں گے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024