فیصل فاروق
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی ہدایت پر عدالتوں میں نظر آنے والی ’انصاف کی دیوی‘ کی مورتی کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی ہٹا دی گئی۔ اب تک راقم کا خیال تھا کہ انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی پٹی کا مطلب یہ ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران عدالت چہرہ دیکھ کر فیصلہ نہیں سناتی بلکہ ہر انسان کو برابر سمجھا جاتا ہے، سب کے لیے ایک ہی طریقے سے ’انصاف‘ کیا جاتا ہے۔ لیکن آج راقم کی ’آنکھوں پر بندھی پٹی‘ کھل گئی!
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ’لیڈی جسٹس‘ یعنی ’انصاف کی دیوی‘ کی تاریخ کئی ہزار سال پرانی ہے۔ اِس کا تصور قدیم یونانی اور مصری تہذیب سے تعلق رکھتا ہے۔ انصاف کی دیوی کی قدیم تصاویر مصر کی دیوی ’مات‘ سے ملتی جلتی ہیں۔ ’مات‘ قدیم مصری معاشرے میں سچائی اور نظم و ضبط کی علامت تھی۔ یونانی افسانوں میں انصاف کی دیوی ’تھیمس‘ اور اس کی بیٹی ’ڈیکی‘ ہے۔ ڈیکی کو ’آسٹریا‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ قدیم یونانی لوگ دیوی تھیمس اور اس کی بیٹی ڈیکی کی پوجا کرتے تھے۔ ڈیکی کو ہمیشہ ترازو اٹھائے ہوئے دکھایا گیا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ وہ انسانی قانون پر حکم رانی کرتی ہے۔ قدیم روم میں ڈیکی کو ’جسٹی سیا‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ یونانی دیوی تھیمس امن و امان اور انصاف کی نمائندگی کرتی تھی، جب کہ روم کی دیوی ’مات‘ نے نظم و ضبط کی پیروی میں کھڑے ہوتے ہوئے تلوار اور سچائی کے پروں کو تھام رکھا تھا۔ حالانکہ انصاف کی موجودہ دیوی کا براہ راست موازنہ روم کی دیوی ’جسٹی سیا‘ سے کیا جاتا ہے۔ انگریزی کا لفظ ’جسٹس‘ یعنی انصاف بھی اسی سے وضع کیا گیا ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ ۱۰ نومبر کو چیف جسٹس کے با وقار عہدے کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے والے ہیں۔ ممکن ہے موصوف کو یہ خیال آیا ہوگا کہ جاتے جاتے کچھ ایسا کارنامہ انجام دیا جائے کہ زمانہ یاد کرے۔ پھر کیا تھا انہوں نے ’لیڈی جسٹس‘ یعنی ’انصاف کی دیوی‘ کا مجسمہ تبدیل کر دیا۔ دراصل ’انصاف کی دیوی‘ کی جو مورتی عدالتی کمروں میں نظر آتی تھی وہ اب دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ آنکھوں سے پٹی ہٹائی گئی اور ایک ہاتھ میں موجود تلوار جو کہ سزا کی علامت ہوتی تھی اسے ہٹا کر اس کی جگہ آئین کی کتاب تھما دی گئی ہے۔ خیر سے دوسرے ہاتھ میں ترازو تھا جو اب بھی ہے اور حسب سابق موجود رہے گا۔ اخباری رپورٹس کی مانیں تو غالباً ’انصاف کی دیوی‘ کی مورتی میں کی گئی تبدیلیوں سے عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ قانون اندھا نہیں ہے۔ اب انصاف ہوگا اور برابر ہوگا۔
اِس قدم کی جہاں کچھ لوگ بہت تعریف کر رہے ہیں وہیں کچھ لوگوں نے اِس پر اپنا سخت اعتراض ظاہر کیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے بار سے مشاورت کے بغیر کی گئی تبدیلیوں پر اعتراض کی قرارداد بھی منظور کی ہے۔ ’انصاف کی دیوی‘ کی مورتی میں کی گئی ان تبدیلیوں کے ذریعے چیف جسٹس آئین میں درج مساوات کے حق کو نچلی سطح پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ ان کا ارادہ بہت نیک معلوم ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات ہے کہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے ایک مفاد عامہ کی عرضی کو خارج کر دیا تھا جس میں ملک کی تمام عدالتوں میں زیر التوا پانچ کروڑ سے زیادہ مقدمات کو نمٹانے کے لیے تین سال کا ٹائم فریم مانگا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اگرچہ مطالبہ درست ہے لیکن انصاف کی فراہمی کے نظام کے سامنے مقدمات کے سیلاب کو دیکھتے ہوئے یہ عملی طور پر ناممکن ہے۔ حالانکہ ’انصاف میں تاخیر، انصاف نہ ملنے کے برابر ہے۔‘
(فیصل فاروق ممبئی میں رہائش پذیر کالم نگار اور صحافی ہیں۔
رابطہ : [email protected] )
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024