!انصاف، آزادی، مساوات اور اخوت کی کم زوری ۔ بھارت کے آئین کی کم زوری
حکومت ،بھارتی آئین کی اعلیٰ اقدار کا عہد پھر سے دہرائے اور قانون کی حکمرانی قائم کرے
شہاب فضل
شہریوں میں آئین کے تحفظ کا احساس ، بیداری مہمات کے ذریعہ نوجوانوں کو باخبر کرنے کی کوشش
بھارت کا آئین ملک میں ایک منصفانہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی نظام کے لیے عملی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ آئینیت یا کانسٹیٹیوشنلزم ایک متحرک عمل ہے جس میں وقت اور ضرورت کے اعتبار سے ایسی تبدیلی ممکن ہے جو ملک اور اس کے عوام کی سماجی بہبود اور ترقی کے لیے سود مند ہو۔
ملک میں آئین کے نفاذ کے پچہترویں برس میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں گزشتہ دسمبر میں بحث ہوئی جس میں حکم راں جماعت اور اپوزیشن دونوں نے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی جس سے یہ ابھر کر سامنے آیا کہ حکم راں جماعت اور اپوزیشن کی دل چسپی اس بات میں زیادہ تھی کہ ملک کے مسائل کے لیے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھیرائیں۔ بی جے پی بشمول وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس پر 1975 میں ملک میں ایمرجنسی لگانے کا الزام عائد کیا تو کانگریس نے کہا کہ اِس وقت ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی ہے اور شہریوں کے حقوق کچلے جارہے ہیں۔
آئینِ ہند کی روح اس کی تمہید اور حکومتی پالیسی کے رہنما اصولوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سیکولرزم، وفاقیت، اختیارات کی علیحدگی، عدلیہ کی آزادی، حکومت چننے کا شہریوں کا حق، عدم امتیاز و تعصب، اقلیتی حقوق کا تحفظ اور دیگر بنیادی خصوصیات میں دستور کا اعلیٰ مقصد نظرآتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ان سب پر حکومت کی طرف سے ضرب لگی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ وہ آئین کی محافظ ہے۔ زبان پر جو کچھ ہے عمل اس کے برعکس ہے۔ پارلیمنٹ میں جب آئین پر بحث ہورہی تھی تو قول و عمل کا یہ تضاد ابھر کر سامنے آیا۔ وزیر اعظم بھی پارٹی لائن سے اوپر نہیں اٹھ سکے اور انہوں نے پارلیمنٹ میں انتخابی جلسہ کی طرح اپنی بات رکھی۔ وہ نہرو خاندان اور ایمرجنسی سے آگے نہیں جا سکے اور عوامی ریلی کی طرح اپنے خطاب میں انہوں نے یونیفارم سِول کوڈ کی وکالت کی۔
آئین کی تمہید اور اس سے متصادم حرکات
آئین کی تمہید کچھ یوں ہے: ‘‘ہم بھارت کے عوام عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک خود مختار سوشلسٹ سیکولر عوامی جمہوریہ بنائیں اور اس کے تمام شہریوں کے لیے سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، فکر، اظہار خیال، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی اور مساوات بہ اعتبار حیثیت و موقع یقینی بنائیں اور عوام میں اخوت کو فروغ دیں جس سے فرد کی عظمت اور قوم کی اتحاد و سالمیت کا تیقن ہو، اپنی دستور ساز اسمبلی میں آج 26 نومبر 1949 کو یہ دستور اپناتے ہیں، جاری کرتے ہیں اور اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں’’۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم بھارت کے عوام نے آئین میں مذکور وعدوں کو جزوی طور سے ہی پورا کیا ہے۔ انصاف، آزادی، مساوات اور اخوت و بھائی چارہ، یہ چار اعلیٰ قدریں تمہید میں تو موجود ہیں مگر سماج میں انہیں کم زور کیا جارہا ہے۔ ملک کی ایک بڑی آبادی غربت کا شکار ہے اور بنیادی حقوق و انصاف سے محروم ہے۔ انتخابات اس لیے ہوتے ہیں کہ شہری اپنی پسند کے امیدوار اور اپنی پسند کی حکومت کا انتخاب کریں مگر اب الیکشن ایک آرٹ بن گیا ہے جس میں کسی بھی قیمت پر پارٹیاں جیت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک جانے سے روکا جاتا ہے۔ انہیں مذہب کے نام پر ورغلایا جاتا ہے۔ وزیر اعظم سے لے کر وزرائے اعلیٰ تک مذہب کے نام پر نفرت پھیلاتے ہیں اور آئین سے طاقت پانے والے ادارے اور حکام خاموش رہتے ہیں۔ ایسی منافرت انصاف اور بھائی چارہ کا گلا گھونٹتی ہے، پھر بھی حکومت ڈھٹائی سے آئین کا محافظ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ مساوات، انصاف اور بھائی چارہ جب ایجنڈے پر نہ ہوں تو اقلیتوں، دلتوں، خواتین، قبائلیوں اور حاشیہ پر رہنے والی تمام کمیونٹیز کا منفی طور پر متاثر ہونا لازمی ہے۔
آئین پر پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث تبھی بامعنیٰ ہوسکتی تھی جب حکومت آئین میں مذکور اعلیٰ اقدار کو از سرنو دہراتے ہوئے ان کے حصول کا عزم ظاہر کرتی۔
آئینی التزامات کے سلسلہ میں بیداری مہم
ایسے وقت میں جب یہ الزام عام ہوجائے کہ حکومتوں کی جانب سے شہری حقوق سلب کیے جارہے ہیں یا ایسے قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں جو آئین کی روح سے متصادم ہیں، یہ لازم ہو جاتا ہے کہ آئین کے التزامات کے سلسلہ میں بیداری پیدا کی جائے اور ان حقوق کے تحفظ کے سلسلہ میں کیا تدبیریں کی جاسکتی ہیں ان پر بات چیت ہو اور انہیں عملی جامہ پہنایا جائے۔ ملک میں چنندہ جگہوں پر چھوٹی سطح پر سماجی جہدکاروں نے ایسے اقدامات کیے ہیں تاکہ خاص طور سے بچوں اور نوجوانوں میں آئین کے اصولوں کے سلسلہ میں بیداری پیدا ہو۔
اتر پردیش کے وارانسی کے ولبھ آچاریہ پانڈے ایسے ہی ایک شخص ہیں جنہوں نے وارانسی میں نومبر 2022 میں آئین کے سلسلہ میں ایک بیداری مہم شروع کی۔ آشا ٹرسٹ کے بینر تلے ان کی ٹیم اسکولوں اور کالجوں میں جاکر بچوں کو آئین کے بنیادی نکات کے بارے میں بتاتی ہے۔ انہوں نے دو صفحے کا ایک پرچہ اور کچھ پوسٹر تیار کیے ہیں جن میں آئین کی تمہید لکھی ہے، انصاف، آزادی، مساوات اور اخوت و بھائی چارہ کے تصورات کی وضاحت کی گئی ہے، آئین کی روشنی میں شہریوں کے حقوق و فرائض بیان کیے گئے ہیں اور بنیادی حقوق سے متعلق آئین کے آرٹیکلز کا ذکر کیا گیا ہے۔ تمہید کے جملوں کو دس نکات میں مزید واضح کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آئین کیسے تیار ہوا، ڈرافٹنگ کمیٹی میں کون لوگ شامل تھے، اس میں خواتین کا کیا کردار ہے، یہ سب اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ آئین کی بنیادی باتوں کو بچے جان سکیں۔
مسٹر پانڈے نے بتایا کہ جب بچے اس پرچے اور پوسٹر کو پڑھ لیتے ہیں تو چار پانچ دن بعد ان کا ٹسٹ لیا جاتا ہے جس میں پچیس سوالات ہوتے ہیں۔ کامیاب بچوں کو انعامات و سرٹیفیکٹ دیے جاتے ہیں۔ انعامات کی شکل میں انہیں گاندھی جی کے افکار پر مبنی کتابیں بھی دی جاتی ہیں۔
بنارس سے شروع ہونے والی یہ مہم کئی ریاستوں میں پہنچ گئی ہے اور آشا ٹرسٹ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے یہ مہم اپنے یہاں شروع کی ہے۔ مہاراشٹر میں "سمویدھان پرچارک” گروپ نے اس مہم کو آگے بڑھایا ہے۔ مسٹر پانڈے کے بقول نئی نسل میں معلومات کا فقدان ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں نوجوانوں کی ریلز بنانے میں زیادہ دل چسپی رہتی ہے۔ کیا اسکول اور کیا ڈگری کالج، تمام جگہوں کا یہی حال ہے، اس لیے مختصر پمفلٹ زیادہ کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں میں یہ بیداری ضروری ہے تاکہ نئی نسل ہمارے بزرگوں کی محنت اور قربانیوں کو سمجھ سکے اور ملک کا سماجی تانا بانا محفوظ رہے۔ انہوں نے بتایا کہ کنبھ میلے میں بھی آشا ٹرسٹ کے کارکنان یہ پمفلٹ تقسیم کرنے کے لیے پریاگ راج گئے ہوئے ہیں۔
آشا ٹرسٹ کے کارکنوں نے تیس منٹ کا ایک کٹھ پتلی شو بھی تیار کیا ہے جس میں دو تین فنکار ہوتے ہیں جو حقوق و فرائض، اتحاد و مساوات جیسے اصولوں کو کہانی کی شکل میں عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مسٹر پانڈے نے بتایا کہ آئین کے سلسلہ میں اس بیداری مہم کو فی الحال نومبر 2025 تک چلانے کا ارادہ ہے۔
بنیادی حقوق سے متعلق چنندہ آرٹیکلز مثلاً 14، 15، 16، 17، 18، 19، 20، 21 اور 21A، 22، 23، 24، 25، 26، 27، 28، 29، 30 اور 32 پر انہوں نے خاص زور دیا ہے اور ان پر توضیحی نکات اپنے پمفلٹ میں شامل کیے ہیں۔
بنیادی ڈھانچہ کا اصول
آئین کے سلسلہ میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے 1973 میں مشہور کیسوا نند بھارتی کیس میں بیسک اسٹرکچر ڈاکٹرائن یعنی بنیادی ڈھانچہ کا اصول پیش کیا تھا جو یہ کہتا ہے کہ آئین کے کچھ مخصوص بنیادی نکات ہیں جیسے کہ آئین کی بالادستی، قانون کی حکم رانی اور عدلیہ کی آزادی جنہیں پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعہ بھی ختم یا تبدیل نہیں کرسکتی۔ اسے بنیادی حقوق کا کیس بھی کہا جاتا ہے جس میں 24 اپریل 1973 کو سپریم کورٹ نے اپنا تاریخی فیصلہ سنایا تھا۔ کیرالا میں ایک ہندو مٹھ کے سربراہ کیسوانند بھارتی نے سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ داخل کرکے آئین کی چوبیسویں، پچیسویں اور انتیسویں ترمیم کو چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے تیرہ ججوں کی بینچ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں بنیادی ڈھانچہ کا اصول وضع کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت، سیکولرزم، وفاقیت اور قانون کی حکم رانی آئین کی ایسی خصوصیات ہیں جنہیں پارلیمنٹ تبدیل نہیں کرسکتی۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ جوڈیشیل ریویو یعنی عدالتی نظرثانی کا اختیار آئین کے بنیادی ڈھانچہ کا حصہ ہے اور پارلیمنٹ آئینی ترمیم کرکے اسے ختم نہیں کرسکتی۔
اس اصول نے پارلیمنٹ کے لامحدود اختیار کو قابو میں کررکھا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ آئین میں وقت و ضرورت کے مطابق مثبت تبدیلی تو کی جاسکے مگر اس کی بنیادی روح اور اقدار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ ہو۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ آزاد بھارت کا آئین تیار کرنے کے لیے 6 دسمبر 1946 کو آئین ساز اسمبلی کی تشکیل کی گئی تھی۔ یہ آئین ساز اسمبلی جو بھارت کی عارضی پارلیمنٹ تھی اس کی پہلی میٹنگ نئی دہلی میں 9 دسمبر 1946 کو اور آخری میٹنگ 24 جنوری 1950 کو ہوئی جب 395 آرٹیکلز، 8 شیڈول اور 22 حصوں پر مشتمل آئین کو اراکین نے منظور کیا اور اس پر دستخط کیے۔ آئین کی تیاری کے لیے بائیس کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ بھارت کی آئین ساز اسمبلی میں 284 اراکین تھے جن میں پندرہ خواتین تھیں۔
تقریباً دو سال گیارہ مہینے کی مدت میں آئین ہند کے خدوخال کو قطعی شکل دینے اور مختلف امور و مسائل پر بحث و تمحیص کے لیے مجموعی طور سے 167 دن اسمبلی کی میٹنگ ہوئی۔ آئین ساز اسمبلی کی یہ تمام بحثیں 11 جلدوں میں شائع ہوچکی ہیں۔
اس سے قبل 04 نومبر 1948 کو آئین ساز کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے آئین کا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا اور اپنا کلیدی خطبہ دیا جس میں انہوں نے مسودہ پر آنے والی آراء، اعتراضات اور شکوک و شبہات کا جواب بھی دیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ واضح کیا کہ ہمارا آئین ایک وفاقی آئین ہے اور یہ کیوں مملکت کے قدیم ہندو ماڈل پر مبنی نہیں ہے، جیسا کہ کچھ معترضین نے مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے اقلیتوں کے لیے آئینی تحفظات پر ہونے والے اعتراضات کا بھی مسکت جواب دیا۔ طویل بحث اور اسی کے مطابق ترامیم کے بعد 26 نومبر 1949 کو آئین کے مسودہ کو اسمبلی نے منظوری دی۔ اسی کی یاد میں 26 نومبر کو بھارت میں ’یوم آئین‘ منایا جاتا ہے۔ پھر اس کے 2 ماہ بعد 26 جنوری 1950 کو ملک میں آئین کا نفاذ ہوا۔ بھارتی آئین میں اب تک سو سے زائد ترامیم ہوچکی ہیں۔
آئین کو بنیادی طور سے ہندی اور انگریزی دو زبانوں میں لکھا گیا تھا۔ اس کی اصل کاپی ہاتھ سے لکھی گئی تھی جو آج بھی پارلیمنٹ کی سنٹرل لائبریری میں محفوظ ہے۔
***
***
اتر پردیش کے وارانسی کے ولبھ آچاریہ پانڈے ایسے ہی ایک شخص ہیں جنہوں نے وارانسی میں نومبر 2022 میں آئین کے سلسلہ میں ایک بیداری مہم شروع کی۔ آشا ٹرسٹ کے بینر تلے ان کی ٹیم اسکولوں اور کالجوں میں جاکر بچوں کو آئین کے بنیادی نکات کے بارے میں بتاتی ہے۔ انہوں نے دو صفحے کا ایک پرچہ اور کچھ پوسٹر تیار کیے ہیں جن میں آئین کی تمہید لکھی ہے، انصاف، آزادی، مساوات اور اخوت و بھائی چارہ کے تصورات کی وضاحت کی گئی ہے، آئین کی روشنی میں شہریوں کے حقوق و فرائض بیان کیے گئے ہیں اور بنیادی حقوق سے متعلق آئین کے آرٹیکلز کا ذکر کیا گیا ہے۔ تمہید کے جملوں کو دس نکات میں مزید واضح کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آئین کیسے تیار ہوا، ڈرافٹنگ کمیٹی میں کون لوگ شامل تھے، اس میں خواتین کا کیا کردار ہے، یہ سب اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ آئین کی بنیادی باتوں کو بچے جان سکیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024