’انقلاب فقط حکومت نہیں، ایک فکر ہے۔اور فکر کو مارا نہیں جا سکتا‘

ایران کا انقلابی نظامِ قیادت؛ رہبری، مجلسِ خبرگان اور پاسدارانِ انقلاب

0

طلحہ سیدی باپا، بھٹکل، کرناٹکا

دنیا میں جہاں کہیں بھی حکومتیں قائم ہوتی ہیں ان کی بنیاد کسی نہ کسی فکر، تہذیب یا تاریخی پس منظر پر رکھی جاتی ہے۔ کچھ نظام جمہوری اقدار کو اساس مانتے ہیں، کچھ بادشاہت کے گرد گھومتے ہیں اور بعض مذہبی اصولوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ ایران کا انقلابی ماڈل ان تمام میں یکتا ہے کیونکہ وہ محض ایک حکومت کا نظام نہیں بلکہ ایک فکری و روحانی تحریک کا تسلسل ہے—ایک ایسا تسلسل جو امام خمینیؒ کی قیادت میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے ذریعے دنیا کے سامنے آیا اور آج بھی پوری شدت کے ساتھ زندہ ہے۔
ایران میں سب سے بالا ترین قیادت کو رہبر اعلیٰ یا ولی فقیہ کہا جاتا ہے جو ملک کی سیاسی، عسکری، فقہی اور خارجی سمت کا تعین کرتا ہے۔ یہ منصب محض ایک انتظامی کرسی نہیں بلکہ ایک شرعی، اخلاقی اور روحانی امانت ہے۔ رہبر اعلیٰ کا انتخاب ایک مخصوص ادارے مجلسِ خبرگان رہبری کے ذریعے ہوتا ہے جو ملک بھر کے عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے 88 جید فقہا اور اسلامی علما پر مشتمل ہے۔ مگر اس انتخاب کا معیار دنیاوی شہرت، سرمایہ یا پارٹی اثر و رسوخ نہیں بلکہ تقویٰ، فقہی بصیرت، سیاسی حکمت اور اسلامی اصولوں سے کامل وابستگی ہوتا ہے۔
ریوٹرز کی 2024ء کی ایک رپورٹ کے مطابق مجلسِ خبرگان کے حالیہ انتخابات میں 510 امیدواروں نے نامزدگی دی تھی مگر شورائے نگہبان نے صرف 144 امیدواروں کو منظوری دی۔ بیشتر اصلاح پسند یا غیر مطمئن فکری دھاروں سے تعلق رکھنے والے افراد کو نااہل قرار دیا گیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایرانی نظام میں نظریاتی ہم آہنگی کو فوقیت دی جاتی ہے (ریوٹرز، 1 مارچ 2024)۔
جب رہبر اعلیٰ کی نشست خالی ہوتی ہے تو مجلسِ خبرگان خفیہ مشاورت کے بعد ایسے فقیہ کو منتخب کرتی ہے جو علم، عدل، تقویٰ، سیاسی فہم اور انقلابِ اسلامی کے ساتھ فکری وابستگی رکھتا ہو۔ ایران کے آئین کی دفعہ ۱۰۷ اور ۱۰۹ میں رہبر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے انہی صفات کو شرط قرار دیا گیا ہے (آئینِ جمہوری اسلامی ایران، IHRDC)۔
ان دنوں خطے میں اسرائیل اور امریکہ کی جارحانہ پالیسیاں اور ایران کی انقلابی قیادت کے خلاف بیانات اس امر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر رہبر اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای بھی کسی اسرائیلی یا امریکی حملے کا ہدف بن سکتے ہیں ۔
چونکہ رہبر اعلیٰ ایران کے پورے نظریاتی و عسکری ڈھانچے کے مرکزی ستون ہیں اس لیے ان کے خلاف کسی بھی اقدام کو ایران کے نظامِ حکومت پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ایک نہایت اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای نے حالیہ دنوں میں مجلسِ خبرگان کے تین اراکین کو "مخصوص رہنمائی” اور اعتماد کے ساتھ نامزد کیا ہے تاکہ اگر ضرورت پڑی تو تبدیلی جلد اور منظم طور پر ہو سکے (Middle East Eye، اپریل 2024) سب سے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان تین نامزد امیدواروں میں ان کے بیٹے مجتبیٰ خامنہ ای شامل نہیں ہیں، حالانکہ وہ دینی و سیاسی حلقوں میں ایک با اثر شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔ جیسا کہ The Guardian کی رپورٹ میں نشان دہی کی گئی۔ یہ فیصلہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ایران کا نظام خاندانی جانشینی سے بالا تر ہو کر اصولی اہلیت کو ترجیح دیتا ہے (گارجین، 2024)
ایرانی نظامِ قیادت کی اس فکری گہرائی کا عکس ہمیں سپاہِ پاسدارانِ انقلاب اسلامی میں بھی نظر آتا ہے، جسے دنیا IRGC کے نام سے جانتی ہے۔ اس فوج کا قیام امام خمینیؒ کے حکم پر انقلاب کے فوراً بعد عمل میں آیا تاکہ ایسی فوج تیار کی جائے جو صرف وطن کی جغرافیائی سرحدوں کی نہیں بلکہ اسلامی انقلاب کی نظریاتی سرحدوں کی بھی محافظ ہو (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا)
پاسداران میں شامل ہونے کے لیے جسمانی قوت یا عسکری مہارت کافی نہیں بلکہ ایمان، تقویٰ، قربانی کا جذبہ اور ولایت فقیہ سے وفاداری بنیادی شرائط ہیں۔ واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق، پاسداران نہ صرف ایران کی فوجی حکمت عملی بلکہ خارجی محاذ پر مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ فکری و عملی تعاون میں بھی مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔
دنیا کی عام افواج محض ریاست کی حفاظت پر مامور ہوتی ہیں اور ان کی وفاداری حکومتوں یا آئین سے مشروط ہوتی ہے۔ لیکن پاسدارانِ انقلاب وہ منفرد ادارہ ہے جو اسلامی امت کی فکری و روحانی سرحدوں کی نگہبانی کرتا ہے۔
اس کے برعکس مغربی جمہوریت میں قیادت کا معیار عوامی ووٹ تک محدود ہے۔ کسی بھی امیدوار کے لیے علم، دیانت، اخلاق یا نظریاتی وابستگی لازم نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کئی جمہوری ممالک میں ایسے افراد پارلیمنٹ یا وزارت تک پہنچ جاتے ہیں جن کا پس منظر مالی یا مجرمانہ اثر و رسوخ پر مبنی ہوتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق کئی ممالک میں جرائم میں ملوث افراد انتخابی کامیابی حاصل کر لیتے ہیں اور قانون سازی جیسے حساس شعبوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
انتخابی مہم میں نظریہ نہیں بلکہ سرمایہ، سوشل میڈیا کی چمک اور پارٹی کی مصلحت غالب آتی ہے۔ یوں قیادت کا تصور شفاف اصولوں کے بجائے محض اکثریتی عددی قوت کا کھیل بن کر رہ جاتا ہے۔
ایران کا انقلابی ماڈل اپنے تمام تر چیلنجوں کے باوجود آج بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اگر قیادت کا انتخاب فکر، فقہ، روحانیت اور تقویٰ کی بنیاد پر ہو تو وہ نہ صرف ملک بلکہ امت کی فکری حفاظت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کی موجودگی، ان کی جانشینی کی دانش مندانہ تیاری، مجلسِ خبرگان کی علمی ساخت اور پاسدارانِ انقلاب کی نظریاتی بنیاد—یہ سب درحقیقت اس وعدے کی تکمیل ہے جو 1979ء میں تہران کی فضاؤں میں گونجا تھا:
’انقلاب فقط حکومت نہیں، ایک فکر ہے۔۔۔اور فکر کو مارا نہیں جا سکتا۔‘

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025