!انڈیا اتحاد ٹوٹنے کے دہانے پر، دلی میں کانگریس کی حلیف جماعتیں اروندکیجریوال کے ساتھ

سپریم کورٹ کی کنوئیں پر پوجا کرنے کی ممانعت اور ریاستی حکومت گڑے مُردے اکھاڑنے میں مصروف

0

محمد ارشد ادیب

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کا اوقاف پر نشانہ، مختلف اضلاع میں وقف املاک کی جانچ کا آغاز
ایودھیا کی ملکی پور اسمبلی سیٹ پر پھر سے سیاسی معرکہ آرائی کا آغاز
مغربی و مشرقی یو پی کے دو واقعات میں پولیس کا دہرا کردار اعظم گڑھ کے گاؤں بینی پارہ میں ہائی ٹیک دفتر بنانا پردھان کا کارنامہ
شمالی بھارت میں موسم کی طرح سیاست بھی تیزی سے کروٹ بدل رہی ہے۔ این ڈی اے کے خلاف متحد انڈیا اتحاد کی گرفت رفتہ رفتہ ڈھیلی پڑنے لگی ہیں۔ دلی کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی کی علیحدگی کے بعد بہار میں بھی اختلافات ابھرنے لگے ہیں۔ آر جے ڈی رہنما اور بہار کے اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے صاف کہہ دیا ہے کہ انڈیا اتحاد کی تشکیل 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں این ڈی اے کے خلاف کی گئی تھی۔ کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے بھی واضح کر دیا ہے کہ اتحاد پارلیمانی انتخابات تک کے لیے تھا ریاستوں میں انتخابی مفاہمت کے فیصلے مقامی اکائیوں کی رضامندی سے کیے جاتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی انڈیا اتحاد کے غیر فعال ہونے پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق سیاست میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا، سیاسی نفع نقصان کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ انڈیا اتحاد کی حلیف جماعتیں اسی مرحلے سے گزر رہی ہیں۔
سپریم کورٹ کی پوجا کرنے سے ممانعت اور ریاستی حکومت گڑے مُردے اکھاڑنے میں مصروف
یو پی کے ضلع سنبھل میں جامع مسجد کے متنازعہ سروے کے بعد ہونے والے پرتشدد واقعات سے آگے بڑھنے کے بجائے ریاستی حکومت مزید گڑے مُردے اکھاڑنے لگی ہے اور اس نے ضلع انتظامیہ سے 1978 کے فرقہ وارانہ فساد کی رپورٹ طلب کی ہے۔ دراصل بی جے پی ایم ایل سی شری چند شرما نے 1978 کے فسادات میں مرنے والوں کی تعداد چھپانے کا الزام لگاتے ہوئے جانچ کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پر ریاستی حکومت نے ایک ہفتے کے اندر اسٹیٹس رپورٹ طلب کر لی ہے۔ اسی دوران شاہی جامع مسجد کے کنوئیں پر پوجا شروع کرنے کی کوشش کو سپریم کورٹ نے ناکام بنا دیا ہے۔ دراصل ضلع انتظامیہ بلدیہ کے ایک سرکلر کے سہارے کنویں پر پوجا کرانے کی تیاری کر رہی تھی۔ انتظامیہ کمیٹی کے وکیل حذیفہ احمدی نے سپریم کورٹ میں انتظامیہ کے ارادوں کی پول کھول دی۔ اس پر سپریم کورٹ نے پوجا پر روک لگاتے ہوئے اسٹیٹس کی حالت برقرار رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ معاملہ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں بھی چل رہا ہے۔ عدالت عالیہ نے ضلع عدالت کی سماعت پر روک لگاتے ہوئے تمام فریقوں کو چار ہفتوں کے اندر جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ 25 فروری کو معاملے کی سماعت ہوگی تب تک نچلی عدالت میں کوئی شنوائی نہیں ہوگی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود ضلعی عدالت میں کاروائی چل رہی تھی جس پر مسلم فریق نے اعتراض کیا جس پر ضلعی عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے پانچ تاریخ مقرر کی ہے۔
عدالتوں کے رویے پر اٹھنے والے سوالات؟سپریم کورٹ کی فکر مندی
الٰہ آباد ہائی کے کورٹ کو دنیا کا سب سے بڑا ہائی کورٹ کہا جاتا ہے لیکن سپریم کورٹ اس کے طرز عمل سے مطمئن نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے مرحوم مختار انصاری کی اراضی پر ان کے بیٹوں کے دعویداری کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے رویے کی سخت سرزنش کی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس کوٹیشور سنگھ کی بینچ نے فکر مندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص نہیں جانتا کہ کون سا معاملہ لسٹ کیا جائے گا۔ دراصل لکھنو میں ایل ڈی اے نے 2020 میں مختار انصاری کی ایک بیش قیمت اراضی کو غیر قانونی بتا کر منہدم کروادیا۔ ریاستی حکومت اس اراضی پر غریبوں کے لیے مکانات بنوا رہی ہے۔ عباس انصاری نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت عظمیٰ نے پچھلے سال اکتوبر میں ہائی کورٹ کی عرضی پر جلد فیصلہ کرنے کی ہدایت دی تھی، اس کے باوجود عباس انصاری کو کوئی راحت نہیں ملی۔ اس پر ان کے وکیل کپل سبل نے کورٹ میں اپنے موکل کی جانب سے انصاف کی اپیل کی ہے۔ اس سے پہلے جسٹس شیکھر یادو کے متنازعہ بیان کے معاملے میں بھی سپریم کورٹ برہمی کا اظہار کر چکی ہے۔ جسٹس یادو نے متنازعہ بیان پر ابھی تک معافی نہیں مانگی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ واضح رہے کہ پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کے معاملے میں بھی کئی ذیلی عدالتوں کے رویے پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے وکلاء کا کہنا ہے کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں زیر التواء مقدمات کا انبار لگا ہوا ہے۔ سب سے بڑا ہائی کورٹ ہونے کے باوجود یہاں ججوں اور اسٹاف کی کمی ہے۔ ہائی کورٹ کی ایک سے زیادہ بینچیں قائم کرنے کے مطالبات ہو رہے ہیں لیکن اس پر بھی کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ جبکہ اتر پردیش جیسی بڑی ریاست کی آبادی کو دیکھتے ہوئے لکھنو بینچ کا دائرہ بڑھانے کے ساتھ دو مزید بینچیں قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مظلومین کو ہائی کورٹ کے چکر لگانے کے بجائے اپنے علاقے کی بینچ سے انصاف مل سکے۔ سر دست آگرہ، میرٹھ بریلی اور گورکھپور میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی بینچیں قائم کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے لیکن ذرائع کے مطابق ہائی کورٹ کے کچھ پرانے وکیل اور جج یہ نہیں چاہتے ہیں کہ بینچیں قائم کر کے ان کے اختیارات میں کمی کی جائے۔
یو پی کے وزیر اعلیٰ کا اوقاف پر نشانہ، مختلف اضلاع میں جانچ کا آغاز
یو پی کے مختلف شہروں میں جہاں قدیم مندروں کی تلاش ہو رہی ہے وہیں وزیر اعلی یوگی اوقاف کے خلاف کھل کر میدان میں آگئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ وقف بورڈ ہے یا زمین مافیا کا بورڈ! انہوں نے وقف کے نام پر قبضہ کی گئی ایک ایک انچ زمین واپس لینے کا تہیہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت نے وقف ایکٹ میں ترمیم کی ہے اور ایک ایک زمین کی جانچ کرائی جا رہی ہے۔ وقف کے نام پر قبضہ کی گئی زمین واپس لے کر غریبوں کے لیے گھر، تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنانے کے سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے پریاگراج کے کمبھ میلے میں وقف اراضی ہونے کی سختی سے تردید کی۔ وزیر اعلیٰ کے اشارے پر سنبھل سمیت یو پی کے مختلف اضلاع میں اوقاف کی جانچ شروع ہو گئی ہے۔ سنبھل کے علاوہ کانپور میں بھی قدیم مندروں کو کھوجا جا رہا ہے۔
فیروز آباد میں ایک ایسے ہی معاملے میں ایک مکان کا قفل توڑ کر اس پر قبضہ کرنے کی اطلاع ملی ہے۔ یہ مکان مسلم علاقے میں واقع ہے۔ ایک مقامی صحافی نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر بات چیت میں بتایا کہ مکان ایک مسلم خاندان نے تقریباً 25 سال پہلے خریدا تھا اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی دکان اور بیچ میں مندر کی جگہ ہے جس پر کچھ شدت پسند عناصر نے زبردستی اپنا قفل ڈال دیا ہے۔ پولیس قبضہ ہٹوانے کے بجائے فریقین کو سمجھانے بجھانے کا کام کر رہی ہے۔ اس سے پہلے فیروز آباد کے کوٹلہ قبرستان کے اندر مقامی بلدیہ نے پانی کی ٹانکی تعمیر کرا دی تھی۔ مقامی لوگوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو ضلع انتظامیہ نے شکایت کرنے والوں کو اتنا ہراساں کیا کہ سب خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ اے پی سی آر کے ایڈووکیٹ محمد صغیر خان نے ہفت روزہ دعوت سے ٹیلی فونک گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے اس معاملے میں ہائی کورٹ سے اسٹے حاصل کیا تھا لیکن متولی کی ملی بھگت سے مقامی انتظامیہ نے اسے خارج کرا دیا، پھر وہ سپریم کورٹ گئے، سپریم کورٹ کی ہدایت پر نچلی عدالت میں ابھی بھی یہ معاملہ چل رہا ہے جس میں گواہی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پوری امید ہے کہ اس معاملے میں بھی انصاف ملے گا۔ اسی دوران ان کی قیادت میں ایک وفد نے مقامی رکن پارلیمنٹ اکشے یادو سے بھی ملاقات کر کے انہیں الیکشن میں کیا گیا وعدہ یاد دلایا۔ وفد نے قبرستان کی باؤنڈری بنوانے کی مطالبہ کیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق قبضہ کسی سرکاری ادارے کا ہو یا زمین مافیا کا، ناجائز ہی کہلائے گا۔ قانون کی رو سے کسی کی بھی نجی جائیداد کو کسی مذہبی مقام یا فلاحی تعمیر کے لیے زبردستی نہیں لیا جا سکتا۔
اتراکھنڈ کے سرکاری میڈیکل کالج میں ملے گی پرائیویٹ ڈگری!
اتراکھنڈ کی حکومت جہاں ایک طرف یکساں سِول کوڈ کو نافذ کر کے بھارت کی پہلی ریاست بننے کا تمغہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو دوسری طرف ریاست کے سرکاری میڈیکل کالج کو نجی ٹرسٹ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ سینئر صحافی اجیت سنگھ راٹھی نے ایکس پوسٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ اتراکھنڈ کے محکمہ صحت کا سب سے بڑا گھپلا ہوگا۔ سیکڑوں ایکڑ بیش قیمت زمین پر بنے ہوئے سرکاری میڈیکل کالج کو ایک نجی گروپ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ 800 کروڑ کی لاگت سے بنے ہوئے اس میڈیکل کالج میں پہلے سال کی پڑھائی بھی شروع ہو چکی ہے، جن طالب علموں نے سرکاری کالج میں داخلہ لیا تھا انہیں نجی کالج کی سند دی جائے گی۔ دراصل حکومت عوام کو اصل مسائل سے بھٹکا کر جذباتی مسائل میں الجھائے رکھنا چاہتی ہے۔ ریاست کے اکثریتی عوام یو سی سی کے نافذ ہونے سے خوش ہو جائیں گے اور سرکاری میڈیکل کالج شاردا ٹرسٹ کا ہو جائے گا۔
ایودھیا کے ملکی پور اسمبلی حلقے کا ضمنی الیکشن
ایودھیا میں ایک بار پھر سیاسی معرکہ آرائی شروع ہو گئی ہے۔ ملکی پور اسمبلی حلقے میں پانچ فروری کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس سیٹ سے اپنے امیدوار کو کامیاب کروانے ذمہ داری خود لی ہے، اس کے لیے وہ الیکشن سے پہلے ہی ایودھیا کے کئی دورے کر چکے ہیں۔ دراصل یہ سیٹ ایودھیا کے رکن پارلیمنٹ اودھیش پرساد کے ایم پی بننے سے خالی ہوئی ہے اور سماجوادی پارٹی نے ان کے بیٹے کو اس حلقے سے امیدوار بنایا ہے۔ کانگریس سماج وادی پارٹی کے امیدوار کی حمایت کر رہی ہے جبکہ بی ایس پی ضمنی انتخابات سے توبہ کر چکی ہے۔ ایسے میں بی جے پی اور سماجوادی پارٹی کا راست مقابلہ ہوگا۔
اس حلقے میں نشاد ووٹوں کی اکثریت ہے اور وہ اودھیش پرساد کی کامیابی میں اہم رول ادا کرتے رہے ہیں۔ الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی نکلے ریاستی حکومت ایودھیا دھام میں ایک اور ہار کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ وزیر اعلیٰ نے اسی لیے اسے اپنی ذاتی انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔
اتر پردیش میں ہجومی تشدد اور خواتین کو برہنہ گشت کروانے کے واقعات پر پولیس کا دہرا معیار
مغربی اتر پردیش کے شہر مرادآباد میں گائے کے معاملے ایک نوجوان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا۔ واقعہ مرادآباد کی نوین منڈی میں پیش آیا۔ شاہدین قریشی نام کا یہ نوجوان گل شہید علاقے کا رہنے والا تھا۔ اس کے تین چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ماں اور بیوی کا رو رو کر برا حال ہے۔ مقتول کے بھائی نے بتایا کہ شاہدین روزی کی تلاش میں گھر سے نکلا تھا، پڑوسی عدنان اسے بلا کر لے گیا تھا اور رات کو اسے ہجوم کے ذریعے مار ڈالنے کی خبر ملی۔ اگر میرے بھائی نے غلطی کی تھی تو کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ ہجومی تشدد کا ویڈیو بھی موجود ہے لیکن مارنے والوں کا چہرہ صاف نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ پولیس نے گئوکشی کے معاملے میں عدنان کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ شاہدین کے قتل میں ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ پولیس کہہ رہی ہے کہ وہ پہلے جانچ کرے گی پھر اس کے بعد کارروائی کرے گی۔ اسی طرح مشرقی اتر پردیش کے ضلع کشی نگر میں اقلیتی طبقہ کی تین خواتین کو برہنہ گشت کروانے کا دل سوز واقعہ پیش آیا ہے۔ موضع رام پور لوکریا کی اثرالنساء نے مقامی تھانے میں شکایت کی کہ پولیس کے مطابق معاملہ ایک لڑکی کے لاپتہ ہونے سے جڑا ہے۔ رمئی پاسبان نے راج محمد کے گھر والوں پر ان کی لڑکی بھگانے کا الزام لگایا ہے اسی سبب سے مار پیٹ ہوئی۔ پولیس نے برہنہ گشت کروانے کے الزام کو ایف آئی ار میں شامل نہیں کیا ہے۔ جمعیت علماء ہند کے مولانا سید محمود مدنی نے اس معاملے میں انصاف کے لیے ریاستی وزیر اعلیٰ اور گورنر کو مکتوب بھی لکھے ہیں۔ ان دونوں واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس کس طرح کھلے عام دہرا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ مرادآباد میں پولیس نے گئوکشی کی تو رپورٹ درج کر لی لیکن شاہدین قریشی کے قتل کے معاملے میں حیلے بہانے کر رہی ہے۔ اسی طریقے سے کشی نگر میں متاثرہ خواتین کے خلاف تو رپورٹ درج ہو گئی ہے لیکن ان کے ذریعے لگائے گئے الزامات کو ایف آئی آر میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
اعظم گڑھ کے گاؤں کا ہائی ٹیک دفتر، ایک بہترین پہل
اعظم گڑھ کے مرزا پور بلاک کے گاؤ بینی پارہ گاؤں کے سرپنچ محمد اسلم خان نے ہائی ٹیک دفتر بنا کر گاؤں کی تصویر ہی بدل دی ہے۔ گاؤں کے اس ہائی ٹیک دفتر میں وہ تمام سہولتیں دستیاب ہیں جو بڑے بڑے قصبوں میں بھی میسر نہیں ہیں۔ گاؤں میں سکریٹریٹ اسکیم کے تحت بنائے گئے اس دفتر میں جن سیوا مرکز کے ساتھ لیکھپال، روزگار سیوک، گرام پنچایت افسر کے علاوہ بجلی محکمے کے ملازمین کو بھی کمرے دیے گئے ہیں۔ دفتر میں آرام دہ صوفوں کے ساتھ ماڈرن لائبریری بھی بنائی گئی ہے تاکہ گاؤں کے بڑے اور بچے کتابیں پڑھ سکیں۔ گاؤں میں صاف صفائی کے لیے ہر گھر سے کوڑا کچرا اٹھانے کی بھی سہولت موجود ہے۔ مرزا پور بلاک کے بی ڈی او پرچھیت کھٹانا نے گاؤں پردھان محمد اسلم خان کی ستائش کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے گاؤں پنچایت کا اتنا شان دار دفتر بنا کر پورے ضلع کے لیے مثالی کام کیا ہے۔ دوسرے پردھانوں اور سرپنچوں کو بھی اس سے تحریک حاصل کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ پنچایتی راج کے تحت گاؤں کے پردھانوں کو کافی اختیارات دیے گئے ہیں لیکن ان کی جان کاری نہ ہونے کے سبب اور بدعنوان افسروں کے لالچی رویے کی وجہ سے وہ ان کا استعمال نہیں کرتے۔ اسلم خان نے ہائی ٹیک دفتر بنا کر پورے سماج کو آئینہ دکھایا ہے مگر کچھ لوگ اس پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ اتنا شان دار دفتر بنانے کے لیے فنڈ کہاں سے آیا ہوگا؟ ڈاکٹر سشانک نام کے صارف نے ایکس پر لکھا کہ باہر جو اردو میں بورڈ لکھا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے، یہ ہندی میں ہونا چاہیے۔ آپ ان لوگوں کی تنگ دلی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جن کے دماغوں میں اتنی نفرت بھری ہوئی ہے کہ ان کو ترقیاتی کاموں میں اردو کی تختی تک برداشت نہیں ہو رہی جبکہ دفتر کی مختلف نیم پلیٹوں پر ہندی زبان میں بھی نام کی تختیاں موجود ہیں۔ تاہم آر شرما نام کے ایک دوسرے صارف نے اس پر تبصرہ کیا کہ تم جس قوم کو بدنام کرتے ہو اسی قوم کے آدمی نے ہی یہ سب کیا ہے باقی تو لوٹ کھسوٹ، مندر مسجد،ہندو مسلم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سماج کی بھلائی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دل چسپ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024