طالبان کے ذریعے ملک کے 85 فیصد علاقے پر قبضے کے دعووں کے بعد بھارت افغانستان کے بارے میں فکرمند ہے: وزیر خارجہ

نئی دہلی، جولائی 10: وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے جمعہ کے روز کہا کہ افغانستان میں ’’واقعات کی تبدیلی‘‘ پر ہندوستان کو تشویش ہے، جہاں طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ملک کے تقریباً 85 فیصد علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔

ماسکو میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جے شنکر نے کہا کہ عام طور پر جب کسی ملک میں غیر مستحکم صورت حال ہوتی ہے تو اس جگہ کے شہریوں پر اس سے نپٹنے کا کام چھوڑ دیا جاتا ہے ’’لیکن افغانستان ایک بہت ہی مختلف معاملہ ہے کیوں کہ 30 سال سے زیادہ عرصے سے بین الاقوامی کانفرنسیں ہوئیں، افغانستان میں استحکام لانے اور امن لانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے گروپس اور شکلیں تشکیل دی گئیں، کیونکہ اس سے علاقائی سلامتی اور استحکام پر مضمرات ثابت ہوئے ہیں۔‘‘

جے شنکر نے مزید کہا کہ جو بھی افغانستان پر حکومت کرتا ہے اس کی ایک ’’قانونی حیثیت‘‘ ہے۔

بریفنگ میں لاوروف نے تصدیق کی کہ طالبان نے افغان فوجی دستوں کو ختم کرنے کے بعد ایران اور تاجکستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں پر قبضہ کرلیا ہے۔

اس سے قبل جمعہ کے روز ماسکو میں افغانستان کے لیے روسی صدر کے خصوصی ایلچی زامیر کابلوف اور شیخ شہاب الدین دلاور کی سربراہی میں طالبان وفد کے مابین ایک اجلاس ہوا تھا۔

اے پی کے مطابق وفد کے دورے کے اختتام کے بعد طالبان نے یہ اعلان کیا، جس کا مقصد روس کو یہ یقین دہانی کرانا تھا کہ افغانستان میں شورش پسندوں کی طرف سے حاصل کردہ فائدہ اسے یا اس کے وسطی ایشیا میں اتحادیوں کو خطرہ نہیں ہے۔

طالبان کا یہ دعویٰ کہ اس نے ملک کے 85 فیصد حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے، اس کے پہلے بیانات کے مقابلے بہت بڑا دعویٰ ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کے 421 اضلاع کا ایک تہائی حصہ اس کے قابو میں ہے۔

چوں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپریل میں اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنی فوج واپس بلا لیں گے، لہذا طالبان نے کئی اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ پچھلے چند ہفتوں میں طالبان نے نے تاجکستان، ازبکستان اور ایران کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

تاہم جمعہ کے روز طالبان نے کہا ہے کہ وہ صوبائی دارالحکومتوں پر حملہ نہیں کرے گا اور نہ ہی انھیں زبردستی قبضے میں لے گا۔ اس وفد کی قیادت کرنے والے شیخ شہاب الدین دلاور نے کہا کہ طالبان ’’کسی کو بھی، کسی فرد کو، کسی بھی ادارے کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں سمیت پڑوسی ملک، علاقائی ملک اور عالمی ملک کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘

طالبان کے ترجمان محمد سہیل شاہین نے کہا ’’ہم لڑنا نہیں چاہتے۔ ہم سیاسی مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق افغان سرکاری عہدیداروں نے ایک پروپیگنڈا مہم کے تحت طالبان کے دعوؤں کو مسترد کردیا ہے۔ تاہم عہدیداروں نے کہا ہے کہ طالبان کے حوصلے فوج کے انخلا کی وجہ سے بڑھ گئے ہیں اور انھوں نے صوبہ ہرات کے ایک اہم ضلع پر قبضہ کرلیا ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ترکمانستان کی سرحد سے متصل قصبہ تورغونڈی پر بھی راتوں رات قبضہ کر لیا گیا۔

قندھار سے بھی لڑائی کی اطلاع ملی ہے، جہاں افغان حکومت کو قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے طالبان کی کوششوں سے، جیل کو بچانے کے لیے مزید فوجی بھیجنے پڑے۔

روس، جس نے افغانستان میں 10 سال طویل جنگ لڑی جو 1989 میں سوویت فوج کے انخلا کے ساتھ ختم ہوئی، اس معاملے میں ایک ثالث کی حیثیت سے ابھرا ہے اور اس نے متعدد مذاکرات کیے ہیں جن میں طالبان نے شرکت کی۔ اس کے باوجود ماسکو نے ان پر ایک دہشت گرد تنظیم کا لیبل لگا رکھا ہے۔

دریں اثنا عالمی ادارۂ صحت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ افغانستان میں صحت کے کارکنان ادویات اور سپلائی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور عالمی ادارۂ صحت کی سہولیات پر حملے کے بعد کچھ عملہ فرار ہوگیا تھا۔