امتحانات میں دھاندلی ناقابل قبول

نئے سرے سے نیٹ کے امتحانات کروائے جائیں ۔ملک کے تعلیمی نظام پر طلباء کے اعتماد کی بحالی لازمی

ابو محمد

قومی میڈیکل داخلہ امتحان میں بڑے پیمانہ پر بدعنوانی کی شکایت کے بعد حکومت قومی امتحان ایجنسی (این ٹی اے) میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس کے لیے جلد ہی ایک اعلیٰ سطحی جانچ کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے پچھلے دنوں این ٹی اے کو ڈانٹ پلاتے ہوئے ہدایت دی کہ اگر کسی بھی طرح کی لاپرواہی نظر آئی تو لازماً اس پر کارروائی کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ امتحان کی تیاری کے لیے طلباء جی لگا کر محنت کرتے ہیں لہٰذا ن کے ساتھ دھوکہ نہیں ہونا چاہیے۔
بتا دیں کہ 2017 میں تشکیل شدہ این ٹی اے مرکزی وزارت تعلیم کے ماتحت کام کرتی ہے۔ یہ ایجنسی اصلاً اعلیٰ تعلیم و تربیتی اداروں میں داخلہ کے امتحانات منعقد کرتی ہے۔ ساتھ ہی کئی سرکاری نوکریوں کے سلیکشن کا کام بھی انجام دیتی ہے۔ اگرچہ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ ادارہ عالمی اسٹینڈرڈ کے مطابق امتحانات منعقد کرتا ہے۔ نیٹ کے امتحان و دیگر مقابلہ جاتی امتحانات میں حاصل کردہ نمبرات کو اکثر ممالک تسلیم کرتے ہیں۔ اس ایجنسی میں 1.23کروڑ سے زائد کینڈیڈٹس رجسٹرڈ ہیں۔ اس معاملے میں صرف چین کی گاو گاو سسٹم ہی اس سے برتر ہے۔ جہاں 1.29کروڑ کینڈیڈٹس گزشتہ سال رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ ظاہراً سوالنامہ لیک ہونے سے بروقت امتحانات شروع نہ کرنے حسب منشا گریس مارکس کے استعمال سے ہر طرف انتشار کی کیفیت نظر آرہی ہیں جس سے این ڈی اے کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے پولیس نے کچھ ملزمین کو گرفتار کیا ہے۔ پوچھ گچھ کے دوران ایک ملزم نے بتایا کہ سوالنامہ ایک روز قبل ہی اس کے پاس پہنچا تھا۔ ملزم انوراگ یادو نے کہا کہ مجھے رات کو اسے پڑھنے اور حفظ کرنے کے لیے کہا گیا۔ اس کے لیے امیدوار کو 30 تا 32 لاکھ روپے خرچ کرنے پڑے ہیں۔ اب تو این ٹی اے جیسے ادارے کا قیام بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ ایجنسی یو جی اور پی جی کے علاوہ یونیورسٹیوں میں داخلہ کے لیے کامن یونیورسٹیز انٹرینس ٹسٹ، جوائنٹ انٹرینس اکزامینیشن (جی ای ای) یو جی نیٹ امتحان جیسے امتحانات کا انعقاد کرواتی ہے۔ اس کے علاوہ انسٹیٹیوٹ آف فارن ٹریڈ انٹرینس ٹسٹ، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف فیشن ٹکنالوجی انٹرینس ایگزام، جوائنٹ انٹیگریٹیڈ پروگرام ان مینجمنٹ ایڈمیشن ٹسٹ، کامن مینجمنٹ کم ایڈمیشن ٹسٹ وغیرہ کے امتحانات منعقد کرنے کی ذمہ داری بھی اسی کے پاس ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک کا تعلیمی نظام درہم برہم ہے۔ ملک کے پرائمری اور مڈل اسکولوں میں صرف ایک ہی ٹیچر سے کام چل رہا ہے۔ پیپر لیک گھوٹالہ مدھیہ پردیش کے ویاپم گھوٹالہ کے مانند ہی ہے۔ اس کے درجنوں امیدواروں نے خودکشی کرکے اپنی جانیں دی تھیں۔ اگر تعلیمی اداروں کے معیار کو اوپر اٹھانا ہے تو ایسی صورت میں این ٹی اے کو ہر طرح کی بدعنوانیوں سے پاک کرنا ضروری ہے۔ اب تو معاملہ عدالت میں پہنچ گیا ہے ساتھ ہی داخلی تفتیش بھی جاری ہے۔ ویسے وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان تو سنگھی وزرا کی طرح اس ادارہ کو ہر طرح کی بدعنوانی سے پاک قرار دے رہے ہیں۔ کیونکہ مودی کی دس سالہ دور اقتدار میں کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا ہے جہاں بدعنوانیاں نہ ہوئی ہوں۔ ہر طرح کی بدعنوانیوں کو قانونی چادر سے ڈھانک دیا گیا ہے۔ اس لیے اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
ہمارے ملک میں گزشتہ سات سالوں میں پیپر لیک ہونے کے تقریباً 70 واقعات ہوئے ہیں جس سے ملک کے 1.5کروڑ طلباء متاثر ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک کی 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور بچے اسی عمر میں خواب بُنتے ہیں۔ اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے سخت ترین محنت بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں پیپر لیک جیسے واقعات سے دوچار ہونا پڑتا ہے جو واقعی شرم ناک ہے۔ اب تو آہستہ آہستہ طلباء کا پورے نظام تعلیم سے ہی یقین اٹھتا جا رہا ہے۔ 2019 میں ایک مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ پیپر لیک اور نقل کے سامنے آنے کے بعد بچے غیر قانونی اور غیر اخلاقی راستے کی طرف جانے پر اپنے کو مجبور پاتے ہیں۔ آخر میں بعض بچے تو خودکشی کے ذریعے اپنے زندگی کو ہی ختم کر لیتے ہیں۔ ایک آر ٹی آئی سے پتہ چلا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں 64 ایم بی بی ایس اور 55 پی جی کے طلبا نے خودکشی کی ہے۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق 2023 کے درمیان خودکشی کے واقعات طلباء کے اندر 27 فیصد بڑھے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈیٹا کے مطابق ہر سال سات لاکھ لوگ خودکشی کرتے ہیں اس میں 15 سے 29 سال کے بچوں میں موت کی چوتھی اہم وجہ خودکشی ہی ہے جہاں انہیں لگتا ہے کہ وہ ناکام ہو رہے ہیں تو وہ زندگی سے ہاتھ دھو لیتے ہیں۔ اس لیے خاندانوں، سماج، ادارہ اور حکومت کو ان بچوں کی نفسیات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ بچے نفسیاتی طور پر کمزور نہ پڑیں۔ پیپر لیک جیسے واقعات سماجی ظلم اور انتہائی غیر حساسیت کی نشانیاں ہیں۔ نیٹ میں شامل 24 لاکھ بچوں کے نفسیات پر اس لیک سسٹم (لچر سسٹم) کا کیا اثر ہوگا؟ اتنا ہونے کے باوجود این ٹی اے کے ڈی جی گریس مارکس کو پاک، صاف اور غیر جانب دار بتا رہے ہیں۔ مگر ایک سنٹر سے امتحان دینے والے کئی بچوں کا ٹاپر ہونا بھی تو شک پیدا کر رہا ہے۔ اب تو 1563 گریس مارکس پانے والے بچوں کے لیے ادارہ 23 جون کو دوبارہ امتحان لے گا اور 30 جون تک اس امتحان کا ریزلٹ جاری کر دیا جائے گا۔ اب تو یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ 67 بچوں کو آل انڈیا فرسٹ رینک کیسے حاصل ہوا۔ ان تمام تر این ٹی اے پر اٹھنے والے سوالات کے باوجود مرکز کی بدعنوان حکومت اور شعبہ تعلیم کا کہنا ہے کہ ایجنسی پر بدعنوانی کا الزام لگانا صحیح نہیں ہے۔ ساتھ ہی امتحان کے لیے درخواست دینے کی تاریخ کو بڑھایا جانا اور دو ہفتے قبل ہی نتیجہ کی اشاعت کئی طرح کے شکوک پیدا کر رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں سیاست اور سیاست دانوں کا نوکریوں کے امتحانات میں مداخلت اور بدعنوانی ایک طرح کی روایت بنی ہوئی ہے۔ مغربی بنگال میں عین لوک سبھا انتخابات کے وسط میں اساتذہ کی بحالی میں دھاندلی ہونے کی وجہ سے ہزاروں اساتذہ کی بحالی کو ہائی کورٹ نے رد کر دیا ہے۔ نیٹ امتحان میں دھاندلی کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں لاکھوں طلباء سڑکوں پر ہیں۔ یہ معاملہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا کہ اب امتحان میں ممکنہ گڑبڑ کو دیکھتے ہوئے یو جی سی۔ نٹ (NET) امتحان رد کردیا گیا ہے۔ ایسی صورت حال ناقابل قبول ہے۔
آج ملک کے نظام تعلیم میں غیر سماجی اور بدعنوانی کی نفسیات مسلسل بڑھ رہی ہیں جو نظام کو کھو کھلا کر رہی ہیں۔ جو مافیا آج کے پیپر لیک معاملے میں شامل ہے وہ دو تین سال قبل بھی ایسی ہی سرگرمیوں میں ملوث رہ چکا ہے۔ ان مافیاوں کی رسائی اتنی زیادہ ہے کہ ان کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ پیپر لیک معاملے میں ایسے مجرموں کو سزا ملے گی بھی یا نہیں کیونکہ ملک کا قانونی نظام بہت سست ہے۔ ملک میں اتنے سارے واقعات ہونے کے باوجود آج تک کسی لیڈر یا منسٹر کو ذمہ دار کیوں نہیں قرار دیا گیا؟ یہ حالت ملک کے لیے قابل تشویش اور یہ ہمارے ملک کی بد قسمتی بھی ہے۔ ملک میں ایسے حالات کے وجوہات کا پتہ لگانا ضروری ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ شرمناک حالت ہے اور ملک کی عزت و وقار کا سوال بھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام کو پوری سنجیدگی سے لیا جائے۔
حکومت مسلسل غلط بیان بازی کے ذریعہ این ٹی اے کا دفاع کر رہی ہے، اس کو مجرم قرار دے کر لاکھوں بچوں کی مدد کرنے کے بجائے امتحان کو رد کرنے سے بچتے ہوئے لاکھوں بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے فوری طور پر آگے آکر دوبارہ نیٹ امتحان منعقد کرانا چاہیے اور یہ امتحان ہر طرح کی بدعنوانیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ نئی مرکزی حکومت کو سب سے پہلا بڑا کام بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کا کرنا ہوگا۔ اس سے غیر جانب دار امتحان کی راہ بھی کھلے گی، ورنہ تو ڈاکٹر کے پروفیشن میں بچوں کی قابلیت پر کون بھروسا کرے گا؟ اس میں گڑبڑی کا مطلب لوگوں کی سب سے قیمتی دولت صحت سے کھلواڑ کرنا ہوگا۔ اس لیے ملک کے زیادہ تر لوگوں کے احساس کی قدر کرتے ہوئے نیٹ کے امتحان کو رد کرکے نئے سرے سے اس امتحان کو دوبارہ منعقد کروانا چاہیے۔
***

 

***

 ہمارے ملک میں سیاست اور سیاست دانوں کا نوکریوں کے امتحانات میں مداخلت اور بدعنوانی ایک طرح کی روایت بنی ہوئی ہے۔ مغربی بنگال میں عین لوک سبھا انتخابات کے وسط میں اساتذہ کی بحالی میں دھاندلی ہونے کی وجہ سے ہزاروں اساتذہ کی بحالی کو ہائی کورٹ نے رد کر دیا ہے۔ نیٹ امتحان میں دھاندلی کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں لاکھوں طلباء سڑکوں پر ہیں۔ یہ معاملہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا کہ اب امتحان میں ممکنہ گڑبڑ کو دیکھتے ہوئے یو جی سی۔ نٹ (NET) امتحان رد کردیا گیا ہے۔ ایسی صورت حال ناقابل قبول ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024