ایمان اور قیادت کا سنگم: بھارتی مسلمانوں کا عظیم قومی اجتماع

جماعت اسلامی ہند کے پائیدار ورثے کا گواہ بنا پانچواں کل ہند اجتماع ارکان

تحریر:سید اظہرالدین
ترجمہ: محمد مجیب الاعلیٰ

دعا،استقامت اور شرکت کا سفر
جب میں نے پہلی بارکل ہند اجتماع ارکان کے بارے میں سنا تو میں ملک سے باہر تھا، اس دور دراز مقام پر جہاں تیاریاں اور سرگرمیاں ہو رہی تھیں، وہ اجتماع مجھے ایک دور کے خواب کی طرح محسوس ہوا۔ تاہم، دل کی گہرائیوں سے میں نے امید باندھی اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ وہ میرے لیے اس اجتماع میں شرکت کی راہ ہموار کرے۔
مہینے گزر گئے اور اچانک ایک موقع آیا۔ کاروبار کے سلسلہ میں بھارت کا ایک دورہ، جہاں میں نے ابتدا میں مختصراً قیام کا ارادہ کیا تھا لیکن وہاں کچھ غیر متوقع حالات نے میرے قیام کو طویل کر دیا۔ یہ طویل قیام نئے کاروباری منصوبوں کی تلاش میں بدل گیا اور جلد ہی میرے سفر کی منزل گوا بن گئی۔ اس دوران ایک احساسِ گناہ کا بوجھ میرے دل پر تھا۔ اجتماع، جو کہ ایک تاریخی اور عظیم الشان اجتماع تھا۔۔ اور میں اس کا حصہ نہ بننے کے احساس کی وجہ سے خود کو ایک اجنبی کی طرح محسوس کر رہا تھا۔ میری پچھلی زندگی اسلامی طلبہ تنظیم (ایس آئی او) میں ایسی تھی کہ ہر بڑے موقع پر، چاہے وہ ریاستی ہو یا قومی سطح پر، میں فعال طور پر شامل ہوتا تھا۔ لیکن اب میں اس تاریخی موقع پر کوئی معقول حصہ ڈالنے سے خود کو قاصر پا رہا تھا، جس سے میرا دل مغموم تھا۔
ایک دن اچانک مجھے ایک وہاٹس ایپ گروپ میں شامل کیا گیا اور اس کے فوراً بعد مجھے ایک کال آئی جس میں مجھے رفاہ ایکسپو میں حصہ لینے کی دعوت دی گئی، جو کہ اس نوعیت کا پہلا قومی ایکسپو تھا جو اس قدر وسیع پیمانے پر منعقد کیا جا رہا تھا۔ وہ کال میرے دل کا بوجھ ہلکا کر گئی۔ آخرکار مجھے کچھ کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ایکسپو کی تیاریوں میں حصہ لینا شروع کیا، خاص طور پر مارکیٹنگ کے مواد کے ڈیزائن میں۔
جلد ہی مجھے ایک اور اہم کام میں گہرے تعامل کا موقع ملا اور وہ تھا تحریکی سرگرمیوں کی نمائش ’ادراک‘ میں جماعت اسلامی ہند، تلنگانہ کے لیے اسٹال تیار کرنا۔ اس موقع نے اپنی مقصدیت کو دوبارہ جلا بخشی اور خود کو یاد دلایا کہ جب راہ متعین نہ ہو تب بھی اللہ کے منصوبے ہمیشہ کامل ہوتے ہیں۔
قیادت کی تشکیل: آل انڈیا اجتماع ارکان کا ورثہ
آل انڈیا اجتماع ارکان ایک گہری تاریخی میراث میں رچا بسا ہے۔ یہ ہمیشہ اپنے ارکان کی شخصیات کو نکھارنے کا سنگ میل رہا ہے جو انہیں ایک مکمل قائد بنانے کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ بڑی محنت سے ترتیب دیے جانے والے مختلف اجلاس، اجتماع کے دوران اہم پہلوؤں کو زیر غور لاتے ہیں، جیسے بنیادی اور نظریاتی استحکام، اتحاد اور تنظیمی ارتقاء، شخصیت کی تعمیر اور روحانی نشوونما اور سماجی و سیاسی مقصد کے لیے متحرک کرنا۔
یہ اجتماعات صرف بحث و مباحثہ تک محدود نہیں ہوتے بلکہ یہ ارکان کے لیے ایک تغیر پذیر تجربہ ہوتے ہیں۔
اس سال جماعت اسلامی ہند نے اپنے پانچویں آل انڈیا ارکان اجتماع کا انعقاد عظیم شہر حیدرآباد میں کیا جو 15 نومبر تا 17 نومبر 2024 تین دنوں تک جاری رہا۔ یہ ایونٹ ایک اعلیٰ سطح پر اختتام پذیر ہوا، جذباتی رخصتیوں، دل سے کی گئی دعاؤں اور اپنے مشن کو جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ۔ اجتماع کی وسعت دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا تھا جس میں بیس ہزار سے زائد افراد شریک ہوئے تھے جن میں کئی معزز رہنماؤں کے خاندان بھی شامل تھے۔
اجتماع صرف ایک ملاقات کا موقع نہیں تھا بلکہ یہ عہد و وفا کا جشن تھا، مقصد کی تجدید تھی اور جماعت کے پائیدار ورثے کا گواہ تھا۔
آل انڈیا ارکان اجتماع 2024 کے منفرد پہلو
2024 کا آل انڈیا ارکان اجتماع ایک ایسا یادگار ایونٹ تھا جس میں گہرے تجربات، جذباتی تعلقات اور غور و فکر کے قابل اقدامات شامل تھے۔ یہاں ان نمایاں خصوصیات کا ذکر کیا جارہا ہے جنہوں نے اس اجتماع کو حقیقت میں بہت ہی خاص بنادیا:
1- والنٹیئر سے رکن بننے تک کا سفر
2015 کے اجتماع کو اگر میں یاد کروں تو اس وقت حیدرآباد میں بارہ تا پندرہ ہزار شرکاء کے درمیان بحیثیت والنٹیئر میں نے خدمت انجام دی تھی لیکن 2024 کا اجتماع ذاتی طورپر میرے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ اس بار ایک رکن کی حیثیت سے میں نے اس اجتماع کی وسعت کو بڑھتے ہوئے دیکھا جس میں بیس تا پچیس ہزار افراد شریک تھے، جن میں والنٹیئرس، مندوبین اور ان کے اہل خانہ شامل تھے۔ عبدالجبار صدیقی صاحب اور ان کی ٹیم کے لیے خاص دعائیں جنہوں نے اس قدر عمدگی اور درستگی کے ساتھ انتظامات کیے۔
2- خاندانی معاملہ: اپنے عزیزوں کو شامل کرنا
یہ اجتماع صرف میری ذاتی شرکت تک محدود نہیں تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے خاندان کو بھی ساتھ لاؤں گا تاکہ وہ بھی خود کو تحریک اسلامی ہند کا حصہ محسوس کریں۔ دل سے کی جانے والی گفتگو کے بعد میں نے اپنی بیوی اور والدہ کو قائل کیا اور اپنے بچوں کو خوشی سے سرگرم ہوتے دیکھ کر دل کو سکون ملا۔ دعا گو ہوں کہ ان کی زندگیوں پر یہ تجربہ روحانی اور نظریاتی طور پر ہمیشہ کے لیے اثر انداز ہو۔
3- گنبدِ اقصیٰ: عہد کی علامت
اجتماع کی ایک دل گداز خصوصیت نمازگاہ کے گوشے میں گنبدِ اقصیٰ کا ایک خوبصورت نقلی ماڈل تھا۔ یہ علامتی تنصیب شرکاء کو مسجدِ اقصیٰ کی جاری جدوجہد اور فلسطین کی قربانیوں کی یاد دلاتی تھی جو انبیاء کی سر زمین ہے۔ اس نے ہمارے اجتماعی عہد کو اس مقصد کے لیے مزید مضبوط کیا۔
4- تاریخی پوسٹ آفس
ایک منفرد طور پر ڈیزائن کیا گیا پوسٹ آفس 1981 کے یادگار اجتماع عام کو زبان حال سے خراجِ تحسین پیش کر رہا تھا جس کی قیادت مولانا عبدالعزیزؒ نے کی تھی جو وادیِ ہدیٰ کے بانی تھے۔ اس ڈاک گھر میں سفارتخانوں، وزارتوں اور گورنروں کے خطوط کو بطور نمائش رکھا گیا، جس سے ارکان کو معاشرتی بہتری کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے کی ترغیب ملی۔ یہ اقدام ماضی اور حال کے درمیان ایک پل کی مانند تھا جس سے شرکاء میں مقصد کی ایک نئی روح بیدار ہوئی۔
5- روحانی منظر نامہ
اجتماع کی زمینوں کو ایک خوبصورت آبشار اور رنگین روشنیوں سے آراستہ کیا گیا تھا جس نے ایک پُرامن اور روحانی ماحول پیدا کیا، قرآن کے کلمات جو چھوٹے پہاڑوں پر خوشخطی سے لکھے گئے تھے، شرکاء کو اللہ سے اپنے تعلق کو مزید مضبوط کرنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ یہ قدرتی خوبصورتی اور الہامی ترغیب کا ایک حسین امتزاج تھا۔
6- برابری کی زندہ مثال
اجتماع اتحاد اور برابری کا ایک روشن نمونہ تھا۔ علاقائی، لسانی یا اقتصادی اختلافات کے باوجود، ہر شخص چاہے وہ رکن ہو یا قومی رہنما، ایک ہی کھانا کھاتا، ایک ہی قطار میں کھڑا ہوتا اور انکساری کا مظاہرہ کرتا تھا۔ تنظیمی ٹیم کی جانب سے مختلف غذائی ترجیحات کے لحاظ سے جس طرح کھانوں کے اسٹالوں کا انتظام کرتے ہوئے برابری کی مثال قائم کی گئی، وہ نوجوان شرکاء کے لیے ایک طاقتور پیغام تھا۔
7- ادب: نظریاتی ارتقاء کی لائف لائن
کسی بھی نظریاتی تحریک کی لائف لائن اس کا ادب ہوتا ہے اور یہ بات اجتماع میں واضح طور پر نظر آئی۔ ناشرین کے اسٹالس کھانے کے اسٹالوں سے زیادہ تعداد میں تھے، جنہوں نے مردوں، خواتین، نوجوانوں اور بچوں کے لیے کتابوں کی ایک وسیع دنیا پیش کی۔ نئی کتابوں نے فکری ماحول کو مزید دوبالا کیا۔ مصنفین، ناشرین اور ان کی ٹیموں کے لیے دل سے احترام، جنہوں نے اپنی انمول خدمات پیش کیں۔
8- آئندہ نسل کو شامل کرنا
پانچ سو سے زائد بچوں نے اجتماع میں شرکت کی، جس میں بچوں کی اسلامی تنظیم (CIO) اور جے آئی ایچ کی خواتین ونگ نے خصوصی سیشنز کا اہتمام کیا۔ میرے بچوں نے ان سرگرمیوں کا بھرپور لطف اٹھایا اور آئندہ ایونٹس میں شرکت کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ایسی کوششیں ایمان اور سرگرمی کا بیج اگاتی ہیں جو تحریک کے روشن مستقبل کی ضمانت فراہم کرتی ہیں۔
9- جماعتِ اسلامی ہند کی وراثت کا احترام
اجتماع گاہ طول وعرض میں ان افراد کی زندگیوں اور خدمات کو اجاگر کیا گیا جنہوں نے جماعتِ اسلامی ہند کو آج ایک اثر رکھنے والی تنظیم میں تبدیل کیا ہے۔ ان کی قربانیاں شرکاء اجتماع، بالخصوص نوجوانوں کے لیے نبی اکرم ﷺ کے راستے پر چلنے کی ترغیب دینے کا باعث بنیں۔ ان رہنماؤں کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں اور ان کے سماج پر پائیدار اثرات کی پذیرائی کی گئی۔
10- رفاہ ایکسپو:
کاروباری افراد کا مرکز ’رفاہ ایکسپو‘ اجتماع ارکان کی ایک نمایاں خصوصیت تھی جس میں ایک سو اسی سے زائد کاروباری اسٹالس نے کاروباری افراد کو اپنے منصوبوں کو ملکی اور عالمی سطح پر پھیلانے کا موقع فراہم کیا۔ اس ایونٹ میں بڑے تاجروں، با اثر شخصیتوں اور ہزاروں وزیٹروں کی شرکت نے مستقبل کے ایکسپوز کے لیے ایک نیا معیار قائم کیا ہے۔ اس سنگ میل کو حاصل کرنے میں جناب سید یوسف علی اور رفاہ ٹیم کی کاوشوں کو سراہا جاتا ہے۔
11- ادراک تحریک شوکیس، تاج میں جڑا ایک ہیرا :
اجتماع کا سب سے منفرد حصہ ’ادراک۔ تحریک کا مظاہرہ‘ تھا جس میں جماعتِ اسلامی ہند کی جانب سے ملک بھر میں چلائے جانے والے پچاس سے زائد منفرد منصوبوں کو اجاگر کیا گیا۔ یہ خوبصورت طور پر آراستہ کی گئی جگہ تنظیم کی کوششوں، ذیلی تنظیموں اور مختلف ریاستوں میں چلنے والی سرگرمیوں کا ایک جامع منظر پیش کرتی تھی۔ جناب عتیق الرحمان اور ان کی تنظیمی ٹیم بجا طور پر اس بے نظیر پیشکش کے لیے قابل تحسین ہے۔
12- ایس آئی او کے کیڈرز کا دل سے ملن
آل انڈیا اجتماع ارکان صرف جماعت اسلامی ہند کے ارکان کا اجتماع نہیں بلکہ پورے ملک سے ایس آئی او کے کیڈر کے لیے باہمی ربط کا ایک موقع تھا جس سے قلبی تعلق کو ایک جِلا ملی۔ جماعت اسلامی ہند کی ساٹھ فیصد قیادت ایس آئی او سے نکل کر اب تمام سطحوں پر موجود ہے۔ یہ اجتماع نوجوانوں کی اس جاندار تحریک کے گہرے اثرات کا عکاس تھا۔ امید کی جا رہی ہے کہ اگلے اجتماع تک یہ تعداد سو فیصد تک پہنچ جائے گی۔
جناب رمیض ای کے (صدر، ایس آئی او آف انڈیا) نے درست طور پر کہا کہ جماعت اسلامی ہند کے کئی یونٹس کا وجود ایس آئی او کے کیڈر کی بدولت ہے، جو اب جماعت کی ریڑھ کی ہڈی بن چکے ہیں۔ یہ ایونٹ رابطہ کا ایک مرکز اور باہمی ملن کے ساتھ ساتھ عہد شباب میں قائم تعلق کو دوبارہ زندہ کرنے کا سبب بنا۔ جی آئی او (گرلز اسلامک آرگنائزیشن) کی پس منظر سے آنے والی خواتین ارکان کی موجودگی بھی اتنی ہی متاثر کن تھی۔ جیسا کہ سمیعہ روشن (صدر، نیشنل فیڈریشن آف جی آئی او) نے کہا، یہ خواتین اب جماعت اسلامی ہند میں خواتین پر مرکوز مؤثر منصوبوں کی قیادت کر رہی ہیں۔
ذاتی طور پرمیرے لیے یہ خوشی اور تشنگی کا امتزاج تھا۔ میں نے ایک ہزار سے زائد ارکان سے ملاقات کی، لیکن وقت کی کمی کے باعث کئی دوسرے ارکان سے نہیں مل سکا۔ یہ اجتماع ایس آئی او اور جی آئی او کی دیرپا وراثت کا ایک طاقتور ثبوت تھا، جو اتحاد اور قیادت کی تجدید کرتے ہوئے مستقبل کی نسلوں کے لیے کمیونٹی اور مقصد کی روح کو مضبوط کرتا ہے۔
13- ایک پرامن اور ہم آہنگ ماحول
مجموعی طور پر اس ایونٹ کا سب سے قابل ذکر پہلو یہ تھا کہ یہاں کوئی جھگڑے، شکایات یا منفی ماحول نہیں تھا۔ یہاں تک کہ پولیس افسران جو سکیورٹی اور ٹریفک کی نگرانی پر تعینات تھے، کتابوں کے اسٹالز سے کتابیں پڑھتے، ادراک کی نمائش دیکھتے اور خاص طور پر اے پی سی آر (ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس) کے بارے میں آرام سے بیٹھے گفتگو کرتے ہوئے ہوئے دکھائی دیے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ان تین دنوں میں وہ ڈیوٹی پر نہیں تھے۔ جماعت اسلامی ہند کے نظم و ضبط سے بھرے ارکان نے اتنا پرامن ماحول پیدا کیا تھا کہ کسی بھی مداخلت کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ سب کچھ ان محنتی رضاکاروں کی انتھک کوششوں کی بدولت ممکن ہوا جن کی محنت اور انکساری ان کے اندر جاں گزیں اقدار کا سچا ثبوت تھی۔ ان رضاکاروں اور ان کے والدین کو دل سے سلام جو انہیں پورے ملک میں لوگوں کی خدمت اس طرح خدمت کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں جیسے وہ ان کے اپنے مہمان ہوں۔
14- شمولیت، خواتین کو بااختیار بنانا، اور نئے اراکین کو مضبوط کرنا
الف. تمام عمر کے گروہوں کے لیے جامع پیغام رسانی:
تقاریر اور نشستوں کے دوران پیش کیے جانے والے پیغامات کو اس انداز میں ترتیب دینا کہ وہ نوجوانوں، بالغوں اور بزرگوں سمیت تمام عمری گروہوں کے دلوں میں اتر جائیں۔ اس حکمت عملی سے تحریک کے اندر اتحاد مضبوط ہوتا ہے اور نسلوں کے مابین کسی قسم کی تفریق سے بچا جا سکتا ہے۔ شمولیت پر زور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر فرد خود کو برابر، اہم اور منسلک محسوس کرے۔
ب. نئے اراکین کے لیے تربیت اور رہنمائی:
نئے اراکین کو تحریک کی اقدار اور اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے مناسب تربیت اور رہنمائی ضروری ہے۔ اس میں ان کے رویے اور اہم مواقع جیسے اجتماع کے دوران ان کی فعال شرکت کے حوالے سے رہنمائی شامل ہے تاکہ وہ تحریک سے گہرا تعلق محسوس کریں اور اپنے کردار کو پیشہ ورانہ انداز میں نبھائیں۔
ج. خواتین پر مرکوز سرگرمیوں پر زیادہ توجہ:
ایسے منظم اقدامات اور مواد کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جو خاص طور پر خواتین کے کردار، چیلنجز اور خدمات پر روشنی ڈالیں۔ خواتین کو مخصوص نشستوں اور پیغامات کے ذریعے بااختیار بنانا، انہیں تحریک کے مشن میں زیادہ مضبوط اور فعال کردار ادا کرنے کے قابل بنائے گا۔
عمل کے لیے ایک وژن: ’جرأت‘ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونے کی پکار
آل انڈیا اجتماع ارکان اجتماع کے اختتام پر امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے ایک متاثر کن اور تبدیلی بخش پیغام دیا۔ اپنی روحانیت، منکسر المزاجی اور ہمدردانہ قیادت کے لیے مشہور جناب سید سعادت اللہ حسینی نے اپنے دل کی گہرائیوں سے رہنمائی فراہم کی۔ انہوں نے دو مختلف سامعین سے خطاب کیا، ایک کیڈر کنونشن سیشن میں کیا گیا جس میں پچیس ہزار سے زائد شرکاء تھے اور دوسرا خطاب خاص طور پر ارکان (مسلم کمیونٹی کے رہنماوں) سے کے لیے تھا اور انہوں نے دو طاقتور نعرے پیش کیے جو اجتماع کی روح کو سموئے ہوئے تھے۔انہوں نے کیڈرز کے لیے "RISE” کا نعرہ دیا جو جماعت اسلامی ہند کے مشن اور وژن کا ایک حوصلہ افزا پیغام تھا: یعنی :
R: Reach Out to All ہر طبقے سے رابطہ کریں، شمولیت اور اتحاد کو فروغ دیں۔
I: Individual Contribution اجتماعی اثر پیدا کرنے کے لیے ہر فرد کی کوشش ضروری۔
S: Shift Public Opinion عوامی رائے کا رخ عدل وقسط کے حق میں موڑیں
E: Engagement with All Muslims مسلم کمیونٹی کے اندر تعلقات کو مضبوط کریں اور تعاون کو بڑھائیں۔
اسی طرح امیر جماعت نے ارکان کے لیے ’’جرأت‘‘ کا نعرہ دیا، جو مسلم کمیونٹی کے رہنما اور اخلاقی رہنمائی فراہم کرنے والے لوگ ہیں۔ اس نعرہ کی تشریح انہوں نے کچھ یوں کی :
ج: جدوجہد چیلنجز اور رکاوٹوں کے باوجود پیہم کوشش کرتے رہیں۔
ر: رفاقت رفقائے تحریک باہمی بھائی چارے اور یکجہتی کے مضبوط رشتہ کو استوار کریں۔
ا: استقامت اپنے ایمان اور مقصد پر ثابت قدم رہیں۔
ت: تربیت خود کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں اور دوسروں کی شخصیت کو بھی نکھاریں۔
یہ طاقتور پیغام ارکان کے لیے تھا کہ ان کا کردار صرف قیادت کا نہیں بلکہ ان اصولوں کو اپنانا اور کمیونٹی کی رہنمائی کرنا بھی ہے۔
ایک مرکزی موضوع: عدل و قسط دونوں نعروں کے دل میں قرآن کا حکم چھپا ہوا ہے: ’’ كُونُوا۟ قَوَّٰمِينَ بِٱلْقِسْطِ ‘‘ یعنی عدل و قسط کے لیے اٹھ کھڑے ہو جاو‘‘
اجتماع کا پیغام یہ تھا کہ یہ اقدار "RISE” اور "جرأت” کوئی خیالی اصول نہیں ہیں بلکہ عملی طریقے ہیں جو ایک منصفانہ معاشرے کی تعمیر کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایک چیلنج ہے کہ ہم اپنے معاشرے اور قوم کے لیے عملی اقدامات کریں۔
اس مضمون کو لکھنے کا محرک کیا ہے؟
میرے لیے جماعت اسلامی ہند کا آل انڈیا اجتماع ارکان کا پروگرام صرف ایک ایونٹ نہیں تھا بلکہ میں نے اسے بھارتی مسلمانوں کے لیے ایک قومی قیادت کے اجلاس کے طورپر محسوس کیا ۔ یہ ایک نایاب اور بے مثل اجتماع تھا جہاں بصیرت و حکمت کی یکجہتی ہوتی ہے اور ایک پلیٹ فارم فراہم کیا جاتا ہے جہاں تعاون، تفکر اور ترقی کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔
یہ اجتماع نہ صرف ایک پلیٹ فارم ہے بلکہ قیادت کے اصل جوہر کو اجاگر کرتا ہے جو اسلام کی گہری تعلیمات پر مبنی ہے اور اس کے ذریعے سماجی تبدیلی کے لیے ذمہ داری کا شعور پیدا کرتا ہے۔
یہاں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد، علما، پیشہ ور افراد، کمیونٹی کے رہنما اور تبدیلی کے داعی ایک مشترکہ مشن کے تحت جمع ہوتے ہیں۔ یہ اجتماع بھارتی مسلمانوں کے لیے امید کی ایک کرن بن جاتا ہے جو ان کے لیے ایک روشن راستہ فراہم کرتا ہے اور ایک ایسا کلچر پروان چڑھاتا ہے جو اتحاد، خودداری اور خدمت پر مبنی ہو۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں ایمان کو محض عبادت کے طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر اس وقت کے سنگین مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے متحرک کیا جاتا ہے۔
روحانیت اور حکمتِ عملی کا یہ امتزاج آل انڈیا اجتماع ارکان کو ایک منفرد ایونٹ بنا دیتا ہے۔ ایک ایسا مقام جہاں ہر شریک صرف متاثر نہیں ہوتا بلکہ اپنے کمیونٹی کو امانت داری، استقامت اور انصاف و مساوات کے عزم کے ساتھ قیادت کرنے کے لیے تیار ہو کر نکلتا ہے۔ یہ حقیقت میں اس بات کا گواہ ہے کہ ایک یکجا اور مقصد پر قائم کمیونٹی کیا کچھ حاصل کر سکتی ہے۔
آخرکار میں شاکر حسین صاحب کی مغفرت کے لیے دعا گو ہوں جو ایک منکسرالمزاج، پاک طینت و نیک دل رکن تھے جنہوں نے پروگرام کے دوران اس عارضی دنیا کو ترک کیا۔ میں ان تمام رہنماؤں کے لیے بھی دعا گو ہوں جو پچھلے اجتماعات میں شریک تھے لیکن اس بار موجود نہیں تھے۔ علاوہ ازیں، میں تمام سینئر ارکان کے لیے بھی دعا گو ہوں جن کی خدمات جماعتِ اسلامی ہند کو ایک طاقتور اور مؤثر قوت بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024