حمیرا علیم
بہار کا موسم شروع ہوتے ہی درختوں پر پتے اور خوشے پھوٹنے لگتے ہیں۔ ہر طرف ہریالی ہو جاتی ہے۔ پھول کھلنے لگتے ہیں۔ لوگوں کے موڈ پہ بھی خوشگوار اثر ہوتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کے لیے بہار کا موسم کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے کون لوگ ہیں جو بہار کو عذاب سمجھتے ہیں؟ تو جناب ہر وہ شخص جو کہ الرجی کا مریض ہے وہ اس موسم میں جن کیفیات کا شکار ہوتا ہے وہ کسی عذاب سے کم نہیں ہوتیں۔
سوال یہ ہے الرجی کیا ہے اور کیوں ہوتی ہے اور اس کی علامات کیا ہیں اس سے بچاؤ کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں؟ جب جسم کے مدافعتی نظام کو کسی نقصان دہ چیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ الرجی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اشیاء جو الرجی کی وجہ بنتی ہیں "الرجن” کہلاتی ہیں۔ الرجی کی بہت سی اقسام ہیں۔ کچھ موسمی ہوتی ہیں تو کچھ سارا سال رہتی ہیں اور بعض تو ایسی بھی ہیں جو پوری عمر پہ محیط ہو جاتی ہیں۔ ان میں زیادہ عام مندرجہ ذیل ہیں۔
-1 ادویات سے الرجی
عموما لوگ اس کا کم ہی شکار ہوتے ہیں کیونکہ زیادہ تر ادویات کا ری ایکشن نہیں ہوتا بلکہ سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں۔ اسی لیے بعض مصنوعات پہ وارننگ لکھی ہوتی ہے کہ استعمال سے پہلے اسے بازو پہ ٹیسٹ کر لیں۔اس کی علامات سے اس کا پتہ چلایا جاتا ہے۔
-2 خوراک سے الرجی
دنیا بھر میں مختلف لوگوں کو مختلف اشیائے خوردونوش سے الرجی ہوتی ہے۔ لیکن مونگ پھلی اور اس سے بنی اشیاء سے الرجی ایک عام قسم ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں ایل جی ای میڈیایٹڈ اور نان ایل جی ای میڈیایٹڈ۔ جب کوئی شخص ایسی خوراک کھاتا ہے تو اس کا منہ یا پورا جسم پھول جاتاہے، منہ میں چھالے بن جاتے ہیں، بعض اوقات سانس بھی رک جاتی ہے۔ ہر شخص میں اس کی علامات مختلف ہوتی ہیں۔
-3 حشرات اور کیڑے مکوڑوں سے الرجی
شہد کی مکھی، مکڑے، ہورنٹ، ییلو جیکٹ (بِھڑوں کی اقسام) فائر اینٹ اور کوئی بھی ایسا کیڑا جو ڈنک رکھتا ہے اس کا سبب بن سکتا ہے۔ بغیر ڈنگ کے کیڑے بھی اس کی وجہ بن سکتے ہیں جیسے لال بیگ، بستر اور کھٹمل۔ ان کے کاٹنے سے جسم پہ سرخ رنگ کے دھبے، خارش اور دمہ ہو سکتا ہے جو کہ سارا سال رہتا ہے۔
-4 لیٹکس الرجی
قدرتی ربڑ لیٹیکس سے بنی اشیاء: دستانے، غبارے وغیرہ سے یہ الرجی ہو سکتی ہے۔
-5 مولڈ الرجی
پھپھوندی فنگس ہیں۔ چونکہ فنگس گھر کے اندر اور باہر بند اور کھلی ہر جگہ پہ ہوسکتا ہے اس لیے یہ الرجی سارا سال ہی رہتی ہے۔
-6 پالتو جانوروں سے الرجی
پالتو جانوروں کے بالوں یا کھال سے ہونے والی الرجی بھی تب تک ختم نہیں ہوتی جب تک وہ جانور گھر میں رہیں۔ یہ یاد رکھیے کہ ایسے بلی اور کتے دستیاب نہیں ہیں جو الرجی فری ہوں۔
-7 پولن الرجی
پولن الرجی موسمی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اسے تپ کا بخار Hay fever سمجھتے ہیں جبکہ یہ موسمی الرجی ناک کی سوزش ہے۔
-8 لیکٹوز انٹولرینس Lectose Intolerance
اس کا شکار شخص کوئی ایسی چیز نہیں لے سکتا جس میں لیکٹوز پایا جاتا ہے۔ دودھ، مکھن، کریم، میدہ، آٹا جس چیز میں شامل ہو وہ کھانے کے ساتھ مریض کا سانس بند ہو سکتا ہے۔
الرجی کی علامات
عموما اس کا ری ایکشن فوراً ظاہر ہوتا ہے۔جس میں کھانسی، چھینکیں، ناک کا بہنا یا بند ہو جانا، آنکھوں کا سرخ ہونا اور ان سے پانی بہنا، جسم پہ سرخ دھبے اور خارش، ایگزیما، دمہ یا جسم کا سوج جانا شامل ہیں۔اکثر یہ ری ایکشن اتنے شدید نہیں ہوتے لیکن بعض اوقات یہ شدت اختیار کر جاتے ہیں۔جنہیں Anaphylaxis یا Anaphylactic shock کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں مریض کو فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جا کر اسے طبی امداد دی جانی چاہیے۔
علاج
اس کا مکمل علاج تو ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا، ہاں احتیاطی تدابیر اور کچھ ادویات کے استعمال سے اسے کنٹرول ضرور کیا جا سکتا ہے۔
جب کبھی الرجی ہو تو الرجی کی دوا (Antihistamines) کا استعمال کرنا بہتر ہے تاکہ الرجی کا ری ایکشن نہ ہو۔ بند ناک کے لیے Decongestant جیسی کوئی گولی، مائع یا اسپرے لیا جاتا ہے۔
جسم پر سرخی اور خارش کے لیے لوشن اور کریم استعمال کی جا سکتی ہیں۔
کسی الرجی کے ری ایکشن میں ہونے والی سوجن اور سرخی کو ختم کرنے کے لیے Steroids کی گولی، قطرے، کریم یا ان ہیلر لیا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگوں کو جب شدید ری ایکشن ہو جاتا ہے تو انہیں Immunotherapy تجویز کی جاتی ہے جو طویل عرصے پر محیط ہوتی ہے۔اس میں ڈاکٹروں کی زیر نگرانی رہ کر اس کے خلاف قوت مدافعت بڑھائی جاتی ہے اور جب جسم اس کا عادی ہو جاتا ہے تو اس سے کم متاثر ہوتا ہے۔
لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی الرجی کے لیے خود سے تشخیص یا دوا نہیں لینی چاہیے۔ ڈاکٹر اسٹیفن ڈئریس یونیورسٹی آف مانچسٹر سے گریجویٹ ہیں۔ وہ ایک ایمونیلوجسٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ لوگ الرجی کے لیے ایک ای این ٹی اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں جو گلے، ناک اور آنکھوں سے متعلق امراض کا علاج کرتے ہیں جبکہ الرجی کے لیےالرجسٹ / ایمونیولجسٹ کے پاس جانا چاہیے جو کہ الرجی کا علاج بغیر سرجری کے علاج کرسکتے ہیں۔ بہت سے لوگ جو ماحولیاتی الرجی کا شکار ہوتے ہیں، ہر وقت بند ناک اور سر درد کی شکایت کرتے ہیں۔ اسی لیے ایک ای این ٹی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ بے شک الرجی کی وجہ سے جسم کے دوسرے اعضا بھی متاثر ہوتے ہیں جیسے جلد، پھیپھڑے، معدے کا نظام اور ناک کی ہڈی۔ اگر آپ کی ناک کی ہڈی پہ دباؤ ہے تو بجائے ای این ٹی اسپیشلسٹ کے پاس جانے کے الرجسٹ کو دکھائیں۔‘‘
ڈاکٹر پیٹر سٹوری نیوزی لینڈ کے مشہور الرجسٹ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’جب بھی آپ کو یہ علامات ظاہر ہوں آپ کو فورا الرجسٹ کے پاس جانا چاہیے۔
ناک کی ہڈی کا انفیکشن، ناک کی ہڈی یا چہرے پہ دباؤ، کان بند ہونا، کان اور گلے کی سوزش، ناک بہنا یا بند ہونا اور چھینکیں، ناک سے سانس لینے میں دشواری، آنکھوں میں خارش اور پانی بہنا، گلے کا بار بار صاف کرنا اور نزلہ جم جانا، شدید کھانسی اور دمہ، بھاری آواز، کھانسی کی وجہ سے بخار، مامونی قلت اور خوراک سے الرجی۔
الرجی کی ادویات کے سائیڈ ایفیکٹس بھی ہیں جیسے کہ غنودگی اور چہرے اور جسم پہ بالوں کا بڑھنا ۔
آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے چند ایک بیماریاں موت کا سبب بنتی تھیں۔ گردن توڑ بخار، دل کا دورہ، طاعون، جذام اور تپ دق۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس وقت دور جدید کی بیماریوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔بلکہ سائنس اس قدر ترقی یافتہ نہیں تھی کہ ان کی تشخیص کر پاتی۔ آج اگر ڈاکٹرز مریض کو ٹیسٹوں کی لمبی فہرست تھما دیتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ان ٹیسٹوں سے بیماری کی تشخیص کی جا سکے اور صحیح دوا تجویز کر کے بیماری کا خاتمہ کیا جا سکے۔پہلے بھی لوگ ذیابیطس، کینسر، ایڈز اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے مگر کوئی تشخیص یا دوا نہ ہونے کی وجہ سے کہا جاتا تھا کہ بس ان کا وقت پورا ہو گیا تھا۔ آج اللہ کا شکر ہے کہ سائنس نے ایسے آلات اور کیمیکلز بنا لیے ہیں جو نہ صرف تشخیص میں مدد دیتے ہیں بلکہ علاج بھی کرتے ہیں۔
مسز احمد کو پچھلے دس سال سے فوڈ الرجی ہے۔ کبھی کبھار انہیں کسی سبزی یا پھل کے کھانے سے الرجی ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا منہ پھول جاتا ہے۔ زبان بھاری ہو جاتی ہے اور آنکھوں سے پانی جاری ہو جاتا ہے اور اینٹی الرجی انجیکشن لگوانے کے بعد ہی ان کی حالت میں افاقہ ہوتا ہے۔
انوار صاحب پاکستان میں تھے جب انہیں ڈسٹ الرجی ہوئی۔ صبح اٹھتے ہی انہیں چھینکیں آنا شروع ہو جاتی ہیں اور کان اور گلے میں شدید سوزش ہوتی ہے۔ پھر وہ روزگار کے سلسلے میں انگلینڈ چلے گئے تو یہ الرجی بڑھتی گئی اور انہیں دمہ ہوگیا۔ جب کبھی وہ ’ِسٹرس فیملی‘ کا کوئی بھی فروٹ کھاتے ہیں یا خشک میوہ جات تو ان کا منہ پک جاتا ہے اور شدید بخار ہو جاتا ہے۔ دو تین بار تو دمہ کا اٹیک اس قدر شدید تھا کہ وہ بے ہوش ہو گئے۔ ڈاکٹر نے انہیں ان ہیلر تجویز کیا اور گھر سے تمام کارپٹ اور قالین اٹھا دینے کے لیے کہا کیونکہ کارپٹ اور قالین میں مٹی کے ذرات اور لیٹکس کی وجہ سے الرجنز ہوتے ہیں۔
مسز خالد کو پولن الرجی ہے۔ جب کبھی موسم تبدیل ہوتا ہے تو ان کے ناک کان میں سوزش ہوتی ہے۔ آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ہے۔اور کبھی کبھار چہرے کا کوئی حصہ جیسے ہونٹ، آنکھ یا گال سوج جاتے ہیں۔ الرجسٹ نے انہیں اینٹی الرجی ادویات تجویز کی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ان گولیوں کی وجہ سے ہر وقت غنودگی محسوس کرتی ہیں لیکن مجبوری ہے اگر وہ یہ گولیاں نہ لیں تو چھینکوں کی وجہ سے کچھ کر نہیں کر سکتیں۔
پچھلے سترہ سال سے الرجی کی مریض ہونے کی وجہ سے میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اگر نہار منہ اور سونے سے پہلے کلونجی یا انجیر کے تین یا پانچ یا سات دانے کھا لیے جائیں یا زیتون کے تیل یا شہد کا ایک چائے کا چمچہ لے لیا جائے تو الرجی سے بچا جا سکتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 دسمبر تا 23 دسمبر 2023