21سال بعد بی بی سی کی ڈاکومنٹری ؟
فائدہ کس کو پہنچے گا ؟ کیا دنیا میں اس سفاکیت کی تلافی ممکن ہے؟
زبیر احمد خان جالنوی
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی پر بی بی سی کی ڈاکومنٹری Modi The India Question کا دوسرا پارٹ بھی بی بی سی پر ٹیلی کاسٹ ہوچکا ہے اور لاکھ بندشوں اور پابندیوں کے باوجود مختلف پلیٹ فارموں سے ہوتا ہوا دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ چکا ہے۔ اس پر ایک نیا سیاسی محاذ قائم ہوگیا ہے۔ کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتیں اور اظہار خیال کی آزادی کے علمبردار طلبہ تنظیمیں دونوں پارٹس کی اسکریننگ کر رہی ہیں۔ جامعہ ملیہ کے پچیس طلبہ کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ جے این یو میں ڈاکومنٹری دیکھنے والے طلبہ پر پتھراؤ اور کیمپس میں بجلی سربراہی مسدود کردیے جانے کی شکایت ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر اس ڈاکومنٹری پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ فیس بک پر نہ صرف اسے بلیک آؤٹ کردیا گیا بلکہ ایسے کئی اکاؤنٹس بھی بلاک کردیے گئے جن کے ذریعہ یہ ڈاکومنٹری دکھائی جارہی تھی۔ حکومت کی سختی کے باوجود کیرالا کانگریس نے تھروننتاپورم کے ساحل پر بڑے پیمانے پر اس ڈاکومنٹری کی اسکریننگ کا اہتمام کیا۔ اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا نے بھی ڈاکومنٹری دکھانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بی بی سی ڈاکومنٹری دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں گجرات فسادات 2002ء اور اس میں اس وقت کے چیف منسٹر اور آج کے وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی کے منفی رول کو پیش کیا گیا۔ دوسرے حصہ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح وزیر اعظم بننے کے بعد ہندوستان میں مختلف قوانین کے تحت مسلمانوں پر جبر وستم ڈھایا گیا۔ گجرات فسادات کا جہاں تک تعلق ہے‘ اکیس برس بعد اس پر ڈاکومنٹری کی پیشکشی بے وقت کی راگنی کی طرح ہے۔ کیوں کہ پہلے پارٹ میں جو کچھ بھی بتایا گیا ایسا کون ہے جو اس سے واقف نہیں ہے۔کس کا کیا رول رہا سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسی لیے بعض گوشوں سے یہ تنقید واجبی لگتی ہے کہ اکیس برس بعد ڈاکومنٹری کا پیش کیا جانا تحقیقاتی صحافت نہیں ہوسکتا۔اس حقیقت کے باوجود اس کی نمائش پر پابندی عائد کرنا بھی جائز نہیں لگتا۔ کیوں کہ دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت میں ہر قسم کی آزادی ہونی چاہیے۔ترنمول کانگریس کے ایم پی مہواموتیرا نے یہی بات کہتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ڈاکومنٹری کی لنکس شیئر کیے ہیں۔ جہاں تک پارٹ-1 کا تعلق ہے جس میں گجرات فسادات میں ہندوتوا طاقتوں، تنظیموں کی بربریت، پولیس کا یکطرفہ رول، چیف منسٹر کی حیثیت سے نریندر مودی کا مشکوک رویہ دکھایا گیا۔ اِن تمام حقائق سے بچہ بچہ واقف ہے، اس لیے یہ سوال ابھررہا ہے کہ آخر اس میں کونسی نئی بات ہے……..اور یہ ایسا کونسا وقت تھا کہ اسے ریلیز کیا گیا ہے۔ اس ڈاکومنٹری سے مسٹر مودی کا امیج خراب کیسے ہوسکتا ہے۔ گجرات فسادات 2002 کا ذکر آتے ہی مسٹر مودی کا تصور بھی ابھرتا ہے۔ ان کے رول پر سبھی نے انگلیاں اٹھائی ہیں سوائے ہندو انتہا پسند تنظیموں کے۔
حتیٰ کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی گئی سی بی آئی کی انکوائری کمیٹی نے بھی 27/مارچ 2010ء کو مسٹر مودی سے جبکہ وہ گجرات کے چیف منسٹر تھے اس سلسلے میں پوچھ تاچھ بھی کی تھی۔ امریکہ نے باقاعدہ انہیں ویزا نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ برطانیہ میں بھی ان کے دورے کے خلاف مہم چلائی گئی تھی۔امریکی قونصل جنرل نے مسٹر مودی سے ملاقات کے دوران جب گجرات فسادات سے متعلق سوال کیا تھا تو انہوں نے ان سے کہا تھا کہ یہ گجرات کا اندرونی معاملہ ہے۔ ویسے خود امریکہ انسانی حقوق کی پامالی کا ذمہ دار رہا ہے۔
بی بی سی ڈاکومنٹری سے اندرون ملک مسٹر مودی کی اکثریتی طبقہ میں مقبولیت میں اور اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ اگر گجرات فسادات نہ ہوتے، مسلمانوں کا قتل عام نہ ہوتا، ان کی جائیداد اور املاک کو تباہ و برباد نہ کیا جاتا، اچھی خاصی خوش آبادی کو رفیوجی کیمپس میں تبدیل نہ کیا جاتا تو شاید وزیراعظم کے عہدہ تک پہنچنے کے لیے مسٹر مودی کو اور وقت لگتا۔
عجیب اتفاق ہے بی بی سی ڈاکومنٹری کا پہلا حصہ جو کسی طرح سے ہندوستان میں بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعہ بعض علاقوں تک پہنچ گیا تھا ایسے وقت ریلیز کیا گیا جبکہ حالیہ گجرات اسمبلی الیکشن کے دوران بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے وہاں کے عوام کو 2002ء کے واقعات یاد دلائے کہ کس طرح ہم نے انہیں (مسلمانوں کو) سبق سکھایا۔ اور اسی دوران بلقیس بانو کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے والے ظالموں کو رہا کیا گیا تو ان کا ہیرو جیسا استقبال کیا گیا۔ ایسے ہی تقاریر اور ایسے ہی مسلم دلآزار واقعات نے گجرات میں بی جے پی کو تاریخ ساز کامیابی سے ہمکنار کیا۔
بی بی سی کی ڈاکومنٹری آزاد صحافت کے نام پر دراصل مودی اور بی جے پی کی درِپردہ (Backdoor) مدد ہے کیوں کہ اگلے سال 2024ء میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کو مودی کی قیادت میں اقتدار حاصل کرنے کی ہیٹ ٹرک کرنی ہے اور یہ ڈاکومنٹری جو بظاہر فسادات میں مودی کے منفی رول کو نمایاں کرتی ہے وہ دراصل ان کی پوزیشن کو اور مضبوط کرے گی۔
جہاں تک گجرات 2002ء کے فسادات کا تعلق ہے‘ سابرمتی ایکسپریس جس میں ایک کوچ S6 جس میں ایودھیا سے واپس ہونے والے کارسیوک سوار تھے‘جل گئی تھی یا جلادی گئی تھی۔ کیوں کہ فورنسک رپورٹ کے مطابق اس کوچ کو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے inflammable Liquid استعمال کرکے جلادی گئی تھی۔ مگر یہ رپورٹ آنے تک سب کچھ تباہ و برباد ہوچکا تھا۔ 27/فروری 2002ء کو جب یہ واقعہ پیش آیا تھا اس سے کچھ مہینہ پہلے قبل 9/11 کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ عوام کے ذہنوں میں اس واقعہ کی یاد تازہ تھی چنانچہ گجرات ٹرین واقعہ کے لیے بیرونی ہاتھ کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔ یہاں باقاعدہ مقامی اور نیشنل ٹی وی چینلس کے علاوہ آکاش وانی نے بھی اس طرح سے اشتعال انگیزی کی کہ ہندو طبقہ مسلمانوں کے خلاف بھڑک اٹھا۔ گجرات کے چیف منسٹر مودی تھے۔ کارسیوکوں کی جلی ہوئی لاشوں کو ایک کھلے قافلے کی شکل میں سولا سیول ہاسپٹل احمدآباد لے جایا گیا۔ ظاہر ہے کہ جس کی نظر پڑتی وہ مشتعل ہوتا۔ آکاشوانی اور ٹی وی چینلس نے باقاعدہ لاشوں کے قافلے کے ہاسپٹل پہنچنے کے اوقات نشر کیے۔ جب تک یہ قافلہ ہاسپٹل پہنچتا اس وقت تک ہزاروں کی تعداد میں ہجوم وہاں اکٹھا ہوچکا تھا جو خون کا بدلہ خون کے نعرے لگا رہا تھا۔
حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے اخبارات سندیش اور گجرات سماچار نے مسلمانوں کے خلاف خوب بھڑاس نکالی۔
ایک انگریزی اخبار نے باقاعدہ فرنٹ پیج پر ہیڈلائن لگائی کہ پانچ سو ہندو زندہ جلا دیے گئے۔ گجراتی اخباروں نے شرانگیزی کرتے ہوئے جھوٹی خبر چھاپی کہ مسجد سے کافروں کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔ ایک اور اخبار ”سندیش“ نے 7/مارچ کو سرخی لگائی کہ حج سے واپس آنے والے مسلمان خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس شرانگیزی سے ظاہر ہے کہ ہندو طبقہ بھڑک اٹھا۔ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ احسان جعفری کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا جبکہ اپنی موت سے پہلے انہوں نے نریندر مودی کو فون بھی کیا تھا۔ گجرات جلتا رہا، مسلمان کٹتے رہے، زندہ جلتے رہے، عورتوں کی عصمتیں لٹتی رہی، بلقیس بانو کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے تین سالہ بچے کو زمین پر پٹخ کر مار دیا گیا۔ حکومت تماشائی بنی رہی۔
ساری دنیا تنقید اور مذمت کرتی رہی، مگر مرکز میں بھی بی جے پی کی حکومت تھی اور وزیر داخلہ اڈوانی تھے جن کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ہی رام رتھ یاترا کے نام پر ہندوستان کو فسادات کی آگ میں جھونکا تھا۔ وزیر اعظم واجپائی تھے جنہوں نے بابری مسجد کے شہید ہونے کا مشاہدہ کیا تھا۔ البتہ بی جے پی حکومت ہی کے امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہونے والے صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام تھے جنہوں نے واجپائی کی مخالفت کے باوجود گجرات کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا۔ گجرات فسادات کو اکیس برس گزر گئے۔ ایک نئی نسل آگئی۔ مگر پرانی نسل سے ورثہ میں انہیں جو غم اور تلخ یادیں ملیں وہ فراموش نہیں ہو سکتے۔ یہ گجرات فسادات ہندوستان کے ماتھے کا کلنک ہے جو کبھی مٹایا نہیں جا سکتا۔ نریندرمودی کا کیا رول رہا کیا نہیں رہا سب کو معلوم ہے۔ رعنا ایوب کی گجرات فائلس ہو یا کئی بہادر صحافیوں کے دستاویزی ثبوت، وہ اپنی اپنی جگہ موجود ہیں مگر کس کے پاس اتنی ہمت ہے کہ خاطی کو سزا دے سکے۔
بی بی سی ڈاکومنٹری پارٹ-2 میں بتایا گیا کہ 2014ء میں نریندر مودی کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سے کس طرح ہندوستانی مسلمانوں پر مختلف بہانوں سے ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ ماب لنچنگ، جموں و کشمیر کی دفعہ 370، سی اے اے، دلی فسادات میں کس طرح مسلمان مارے گئے یا ان کے املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ مئی 2015ء سے دسمبر 2018ء کے درمیان لنچنگ میں چوالیس افراد ہلاک اور دو سو اسی زخمی ہوئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ دفعہ 370 کی برخواستگی کے ساتھ جموں و کشمیر کمیونیکیشن بلاک آؤٹ کر دیا گیا۔ چار ہزار افراد گرفتار کیے گئے۔ 2020ء کے دہلی فسادات میں مرنے والے اور متاثر ہونے والے دوتہائی مسلمان ہی تھے۔ ہیومن رائٹس اداروں نے پولیس کے رول کی مذمت کی۔ 2015ء سے حق کے لیے آواز اٹھانے والے ہزاروں این جی اوز کو بند کر دیا گیا اور بھی ایسی بہت سی باتیں بی بی سی نے پیش کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ڈاکومنٹری میں بی جے پی کے نکتہ نظر کو پیش کرنے والے تین نمائندے بھی شامل ہیں، ان میں پارٹی کے ایم پی سواپن داس گپتا بھی شامل ہیں۔ بی بی سی نے یہ ڈاکومنٹری کیوں بنائی کس لیے پیش کی اس کا مقصد کیا ہے، اس کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اصولی طور پر گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو اس ڈاکومنٹری سے نریندر مودی اور بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ کیوں کہ یہ باقاعدہ سند عطا کرنے کے مماثل ہے۔ ویسے بی بی سی اگرچہ کہ ایک قدیم نشریاتی ادارہ ہے مگر یہ کبھی بھی قابل اعتبار نہیں رہا۔ مغربی مفادات کے لیے اس نے ہند وپاک کو بھی آپس میں لڑایا ہے۔ عراق کی جنگ اور اس کی تباہی کے لیے بھی بی بی سی اور سی این این ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں، کیوں کہ ان دو نشریاتی اداروں کے صحافیوں نے امریکی جاسوس کا رول ادا کیا تھا۔ نہ صرف عراق بلکہ افغانستان میں بھی تباہی و بربادی کا سبب بنے تھے۔ مسلم کش فسادات کے لیے جو ذمہ دار رہے ہیں مسلمانوں کے لاشوں پر جنہوں نے اپنی کامیابی کا پرچم لہرایا، مسلمانوں کے جلتے ہوئے گھروں کی روشنی سے جنہوں نے اپنے سیاسی مستقبل کو روشن کیا وہ دنیا کی عدالتوں سے کلین چٹ تو حاصل کرلیں گے مگر جو سب سے بڑی اور آخری عدالت ہے جس کا منصف جو تمام انسانوں کا خالق اور ان کی ایک حرکت پر نظر رکھنے والا ہے اس کے شکنجہ سے کیسے بچ پائیں گے؟
***
***
مسلمانوں کے جلتے ہوئے گھروں کی روشنی سے جنہوں نے اپنے سیاسی مستقبل کو روشن کیا وہ دنیا کی عدالتوں سے کلین چٹ تو حاصل کرلیں گے مگر جو سب سے بڑی اور آخری عدالت ہے جس کا منصف جو تمام انسانوں کا خالق اور ان کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھنے والا ہے اس کے شکنجہ سے کیسے بچ پائیں گے؟
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 فروری تا 11 فروری 2023