!اختلاف رائے پر قدغن! اکثریتی رائے کی آمریت

ساورکر پر تنقید ممنوع، اورنگزیب پر بات کرنا جرم ؟

0

نور اللہ جاوید، کولکاتا

یوگی کی اعظمی کو دھمکی ، آئین اور جمہوریت کی توہین
گزشتہ دو ہفتوں سے ملک کے میڈیا سے لے کر سیاسی چوپالوں تک مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے تاریخی کردار کو لے کر جارحانہ بحث جاری ہے۔ رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی کے ایک بیان پر مہاراشٹر اسمبلی سے لے کر یو پی اسمبلی تک، ٹی وی اسٹوڈیوز سے لے کر سڑکوں تک نفرت انگیز مباحثے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ گویا اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب اور مغل شہنشاہوں کے نام پر دراصل ملک کے مسلمان نشانے پر ہیں۔ ملک میں اس طرح کی بحثیں کوئی نئی نہیں ہیں۔ انگریزوں کی آمد اور ان کے ذریعے تاریخی بیانیہ مرتب کیے جانے کے بعد سے ہی مغل شہنشاہوں کے کردار پر تنقیدیں ہوتی رہی ہیں۔ مگر گزشتہ دنوں جس طریقے سے اورنگ زیب کے تاریخی کردار پر جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا اور اکثریتی بیانیے سے مختلف رائے رکھنے والوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی، اس سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
رکن اسمبلی مہاراشٹر ابو عاصم اعظمی نے اسمبلی کے باہر یہ کہا تھا کہ اورنگ زیب ایک انصاف پرور بادشاہ تھا۔ اعظمی کے بیان میں کہیں بھی کسی ہندو حکم راں کی تنقید نہیں کی گئی تھی۔ اس کے باوجود، مہاراشٹر اسمبلی نے انہیں بجٹ سیشن کے دوران معطل کر دیا۔ سیکولرازم کا لبادہ اوڑھنے والی شیو سینا (اودھو ٹھاکرے) کے صدر اودھو ٹھاکرے نے تو اعظمی کو مکمل طور پر اسمبلی سے معطل کرنے کا مطالبہ تک کر دیا۔
یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اسمبلی کے فلور سے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ "اعظمی جیسے لوگوں کا علاج یو پی میں کیا جاتا ہے، اسے یہاں بھیج دو۔” سوال یہ ہے کہ کیا ایسی زبان کسی بھی وزیر اعلیٰ کی شایان شان ہے؟ کیا ایگزیکٹو کو سزا دینے کے اختیارات حاصل ہیں؟ کیا اسمبلی کے ہال میں غیر آئینی اور ماورائے عدالت سزا دینے کی بات کرنا اس حلف کی خلاف ورزی نہیں ہے جس کے تحت وہ اسمبلی کے رکن اور ریاست کے سربراہ بنے ہیں؟ کیا بھارت کے آئین میں عہد اور حلف کی خلاف ورزی پر کوئی سزا ہے؟
سوال شہنشاہ اورنگ زیب کے تاریخی کردار کا نہیں ہے کہ وہ انصاف پرور بادشاہ تھا یا ظالم و جابر حکم راں۔ سوال مغلیہ خاندان کی حکم رانی کے معیار، اس کے تجزیہ ایک مکمل تاریخی بحث کا ہے، اور ہر مورخ اپنی سوچ اور نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر اپنی الگ رائے رکھ سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا مختلف نظریات اور الگ رائے رکھنے والوں کو مجبور کیا جانا درست ہے؟ کیا بھارت میں اختلاف رائے، تاریخی اور علمی بحث کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ آزاد بھارت کی تاریخ کے سب سے متنازع کردار ساورکر کی جدوجہدِ آزادی میں شمولیت اور ان کے نظریات پر تنقید کرنے کے باعث کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی کو مختلف عدالتوں میں مقدمات کا سامنا ہے۔ مگر جب راہل گاندھی عدالت کے سامنے تاریخی دستاویزات پیش کرنے کی اجازت مانگتے ہیں تو نہ صرف ساورکر کے خاندان کے افراد مخالفت کرتے ہیں بلکہ عدالت بھی اجازت نہیں دیتی۔
اگر ان دونوں واقعات کو ایک ساتھ جوڑا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بھارت میں اب علمی بحث، تنقیدی نقطہ نظر، تحقیق اور مختلف نظریہ اختیار کرنے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ یہ پورا منظر نامہ ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ ملک کے تمام شہری، چاہے ان کا تعلق سیاسی اشرافیہ سے ہو یا عام سیاسی کارکن، یونیورسٹی کے اساتذہ ہوں یا طالب علم، سب کو طاقتور طبقے کے بیانیے کو من و عن قبول کرنا ہوگا، چاہے وہ تاریخی حقائق کے اعتبار سے کتنا ہی غلط اور مفروضے پر مبنی کیوں نہ ہو۔
سوال یہ ہے کہ جب کسی بھی سماج سے علم و تحقیق، متنوع فکر اور اظہار کی آزادی ختم ہو جائے تو اس کا اس ملک کی تنقیدی سوچ اور صلاحیت پر کیا اثر ہوگا؟ علومِ سماجیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سوچ و فکر کا تنوع، تخلیقی صلاحیتوں کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ جب سوچ و فکر اور مختلف نظریات اختیار کرنے کی گنجائش ختم کر دی جاتی ہے تو لوگوں کی تخلیقی صلاحیتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں اور سماج رواداری اور ہم آہنگی سے محروم ہو جاتا ہے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے معاشرے علمی اور آبادیاتی لحاظ سے متنوع ہوتے ہیں۔ نسلی تنوع تجسس کو تحریک دیتا ہے، اور صنفی توازن گفتگو کو موڑ دینے میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ سوچ کا تنوع تین وجوہات کی بنا پر طاقتور ہے۔ سب سے پہلے، یہ تنوع کے معاملے میں ایک مضبوط اور وسیع بیانیہ بنانے میں مدد کرتا ہے، جس میں سماج کا ہر شخص متعلقہ اور مشترکہ مقصد کا حصہ محسوس کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ سماجی یا آبادیاتی شناخت کے صرف ایک مخصوص پہلو پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے لوگوں کی باہمی پیچیدگی کو زیادہ درست طریقے سے ظاہر کرتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کوئی بھی معاشرہ یا کاروباری ادارہ اس وقت تک مفید اور کارآمد نہیں ہوتا جب تک تنوع اور شمولیت کے فارمولے پر عمل نہیں کیا جاتا۔ فکر و خیال کا جمود نہ صرف ذہنی و فکری پرواز پر روک لگاتا ہے بلکہ تخلیقی سوچ اور مزاج کا بھی خاتمہ کرتا ہے۔ چنانچہ دنیا کے ترقی یافتہ سماج اپنے نوجوانوں کو ذہنی و فکری تنوع سے لطف اندوز ہونے کے بھرپور مواقع فراہم کرتے ہیں، الگ سوچ اور نظریہ اختیار کرنے کی آزادی دیتے ہیں اور اس کے تحفظ کی بھرپور جدوجہد کرتے ہیں۔ آج اگر سائنسی ترقی سے ہم لطف اندوز ہو رہے ہیں تو اس کے پیچھے بھی یہی فارمولا تھا کہ ہر ایک محقق اور ریسرچ اسکالر کو مختلف آئیڈیاز پر کام کرنے اور ان کے اظہار کی مکمل آزادی حاصل تھی۔
مگر سوال یہ ہے کہ آج ہندتوا طبقہ مغل بادشاہوں کی تاریخ کو لے کر اس طرح جارحانہ رویہ کیوں اختیار کیے ہوئے ہے؟ اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مغل حکم رانی کا دور ظلم و زیادتی سے عبارت تھا تو سوال یہ ہے کہ اس کا آج کے مسلمانوں سے کیا تعلق ہے؟ مغل شہنشاہوں کی غلطیوں کی سزا آج کے مسلمانوں کو کیوں دی جا رہی ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں آر ایس ایس اور اس سے وابستہ افراد کی کتابیں اور ان کے نظریات کے مطالعے سے ملتا ہے۔ کولکاتا کے ”بنگالی بھدر لوک“ طبقے سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر جو تریپورہ کے گورنر بھی رہ چکے ہیں، نے چند سال قبل ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”ہندوؤں اور مسلمانوں کا مسئلہ خانہ جنگی کے بغیر حل نہیں ہو سکتا۔“ تتاگت رائے نے اپنی اس رائے کو تقویت دینے کے لیے کہا کہ وہ صرف ہندوؤں کو ایک نامکمل کام کی یاد دلا رہے ہیں جس کی خواہش شیاما پرساد مکھرجی نے کی تھی، جو کہ آج ہندوستان پر حکم رانی کرنے والے آر ایس ایس کے کیڈرز کے لیے ایک آئیکون ہیں۔ شیاما پرساد مکھرجی کی خواہش کیا تھی؟ یہ جاننا بھی اہم ہے۔
دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر شمس الاسلام جنہوں نے آر ایس ایس کے بارے میں کئی کتابیں لکھی ہیں، اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”آر ایس ایس اور اس کے ہندتوا ضمیمے میں مسلم دورِ حکم رانی میں مبینہ طور پر ہندوؤں کے خلاف جرائم کا بدلہ لینے کی دیرینہ خواہش رہی ہے۔ اس لیے یہ صرف ”مسلم حکم رانوں کے ظلم و ستم پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے قرون وسطی کے دور کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ واقعی حیرت کی بات ہے کہ بھارت جیسے ملک میں جس کی تہذیب پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے، مگر 400-500 سال کی مدت (مسلمانوں کی حکومت) کو ہی زیرِ بحث لایا جاتا ہے“۔
شمس الاسلام اپنے مذکورہ مضمون میں ایک تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مغل بادشاہوں کے ہندو سماج کے اعلیٰ ذات پات کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات، بشمول ازدواجی تعقات تھے۔ ہمیں یہ بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ’ہندو‘ تاریخ مذہبی، سماجی اور سیاسی ظلم و ستم سے خالی تھی؟ شمس الاسلام ایک تاریخی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلم حکم رانوں نے ہندوؤں کے اعلیٰ ذات کے افراد کی مدد سے ہی طویل حکم رانی کی ہے۔ یہ اتحاد کتنا مضبوط تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکبر کے بعد کوئی بھی مغل بادشاہ مسلمان ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوا۔ مزید یہ کہ ہندو اعلیٰ ذاتوں نے مسلمان حکم رانوں کو ایمانداری سے دماغ اور پٹھے فراہم کیے تھے۔ اسی طرح بابر کی طرف سے قائم کردہ مغل حکومت جسے ہندو بادشاہوں کے ایک حصے نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کی دعوت دی تھی، وہ بھی دراصل ہندو اعلیٰ ذاتوں کی حکم رانی تھی۔ ہندوستانی قوم پرستی کو ہندو بنیاد فراہم کرنے میں نمایاں کردار ادا کرنے والے اروبندو گھوش بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ”مغل حکم رانوں نے ہندوؤں کو ‘طاقت اور مملکت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا اور اپنی بادشاہت کو بچانے کے لیے ہندوؤں کے اعلیٰ دماغوں اور بازوؤں کا استعمال کیا۔ 19ویں صدی کے وسط تک یہ معقول طور پر نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پورے ہندوستان میں، مغربی پنجاب کو چھوڑ کر، زمین پر اعلیٰ حقوق ہندوؤں کے ہاتھ میں آ گئے تھے جن میں سے زیادہ تر راجپوت تھے۔
سومناتھ کے مندر پر محمود غزنوی کے حملے کے واقعات کو لے کر بہت کچھ لکھا اور بولا جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا سومناتھ مندر پر حملہ اور اس میں لوٹ مار میں صرف مسلم فوجی شامل تھے؟ اس سوال کا جواب آر ایس ایس کے سب سے نمایاں نظریہ ساز ایم ایس گولوالکر خود دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
”محمود غزنوی نے درہ خیبر کو عبور کیا اور سومناتھ کی دولت لوٹنے کے لیے بھارت میں قدم رکھا۔ اسے راجستھان کے عظیم صحرا کو عبور کرنا تھا۔ مگر ایک ایسا وقت بھی آیا جب اس کے پاس اپنی فوج کے لیے کھانا تھا نہ پانی، یہاں تک کہ اپنے لیے بھی کچھ نہیں تھا۔ وہ اپنی قسمت پر چھوڑ دیا گیا، وہ ہلاک ہو جاتا…
مگر محمود غزنوی نے راجستھان کے ہندو مقامی سرداروں کو یہ باور کرایا کہ سوراشٹرا ان کے خلاف توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے۔ انہوں نے اپنی حماقت اور گھٹیا پن میں اس پر یقین کیا اور وہ اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ جب محمود غزنوی نے مندر پر حملہ کیا تو اول دستے میں ہندو شامل تھے۔“
مشہور مورخ اور دانشور رام پنیانی سمبھاجی مہاراج سے متعلق ساورکر اور گوالکر کے خیالات کو پیش کرتے ہیں کہ ساورکر اور گوالکر کی سوچ سمبھاجی مہاراج کو لے کر اچھی نہیں تھی۔ ساورکر صاف لکھتے ہیں کہ ان میں ہندوؤں کی قیادت کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں تھی۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا سومناتھ مندر ہندوؤں کا مندر تھا؟ سوامی ویویکانند اپنی کتاب The Complete Works of Swami Vivekananda, vol. 3, 264 میں اعتراف کرتے ہیں:
”جگن ناتھ کا مندر ایک پرانا بدھ مندر ہے۔ ہم نے اسے اور دوسروں سے لیا اور انہیں دوبارہ ہندو بنایا۔ ہمیں ابھی اس طرح کے بہت سے کام کرنے ہوں گے۔“
ستیارتھ پرکاش میں سوامی دیانند سرسوتی، جن کو ہندتوا کا پیامبر مانا جاتا ہے، کے حوالے سے لکھا ہے کہ شنکر آچاریہ کے تعاون سے انہوں نے دس سال تک پورے ملک کا دورہ کیا، جین مت کی تردید کی اور ویدک مذہب کی وکالت کی۔ وہ تمام ٹوٹی پھوٹی تصویریں جو آج کل زمین سے کھودی جاتی ہیں، شنکر کے زمانے میں توڑ دی گئی تھیں، جب کہ جو یہاں اور وہاں پوری طرح سے زمین کے نیچے پائی جاتی ہیں وہ جینیوں کے ٹوٹے ہوئے مندر ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بدھ مذہب جس کی ابتدا بھارت سے ہوئی اور جس نے سماجی انقلاب برپا کیا، آج وہ بھارت میں معمولی اقلیت میں ہے۔ اگر اس کے تاریخی حقائق کا جائزہ لیں تو اس کے پیچھے برہمن وادیوں کے جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں نظر آئیں گی۔ بدھسٹ اور جینی مذاہب کے خاتمے کے پیچھے برہمنوں کا بڑا کردار ہے۔
تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مغل بادشاہوں کے دور میں اہم عہدوں پر ہندو فائز تھے۔ رام پنیانی کہتے ہیں کہ اورنگ زیب کے دور میں سب سے زیادہ ہندو افسران تعینات تھے۔ شیواجی کا مقابلہ کرنے والی افواج میں ہندو فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ اورنگ زیب نے چند مندروں کو ضرور منہدم کیا مگر اس سے کہیں زیادہ مندروں کے لیے جاگیریں بھی دیں۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ اورنگ زیب کے مظالم میں ہندو افسران، جن میں بڑی ذات کے برہمن، کائستھ اور راجپوت شامل تھے، برابر کے شریک تھے۔ تو کیا ہندتوا کے نظریے کے مطابق برہمن، کائستھ اور راجپوتوں کو سزا دی جانی چاہیے؟ کیا مراٹھوں کو میواڑ اور بنگال میں مظالم کی سزا دی جائے گی؟
سر جادوناتھ سرکار (1870-1958) ایک مشہور مورخ نے 1742 میں بنگال پر مراٹھا حملے کے بارے میں لکھا ہے کہ مراٹھا فوج نے بنگال کے ہندوؤں کی عزت اور جائیداد کی کوئی پروا نہیں کی۔ گھومنے والے مراٹھا بینڈ نے بے دریغ تباہی مچائی اور ناقابل بیان غم و غصے کا ارتکاب کیا۔
بھارت میں مسلم حکم رانی سے متعلق ایک بیانیہ مرتب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ "مسلم حکم رانی ہندوؤں کو ختم کرنے یا انہیں زبردستی اسلام قبول کرانے کے منصوبے کے سوا کچھ نہیں تھی۔” سوال یہ ہے کہ اگر سات سو برس کی مسلم حکم رانی کے دور میں شعوری طور پر تبدیلی مذہب کی کوششیں کی جاتیں تو کیا آج بھارت میں مسلمان اقلیت میں ہوتے؟
برطانوی حکم رانی کی پہلی مردم شماری 72-1871 میں جب رسمی مسلم حکومت بھی ختم ہو چکی تھی، مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی کل آبادی 140.5 ملین تھی، جس میں ہندو، بشمول سکھ 73.5 فیصد تھے۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ ہندوؤں پر ظلم و ستم اور ان کا صفایا کرنا مسلمانوں کی حکومت کا کوئی ثانوی منصوبہ بھی نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو بھارت سے ہندو غائب ہی ہو جاتے۔ مسلم حکم رانی کے اختتام پر ہندوؤں کی تعداد 73.5 فیصد تھی جو اب 2011 کی مردم شماری کے مطابق بڑھ کر 79.80 فیصد ہو گئی ہے۔ اس کے برعکس مسلمان جو 21.5 فیصد تھے کم ہو کر 14.23 فیصد رہ گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان واحد ملک ہے جہاں نصف سے زائد ہزار سال کی مسلمان حکم رانی کے باوجود عوام نے حکم رانوں کا مذہب قبول نہیں کیا۔
اب ہم اس سوال پر آتے ہیں کہ آخر اس ساری بحث اور اختلافی نقطہ نظر اور متنوع سوچ کو ختم کرنے کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ اس پورے عمل سے کیا حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ اور آخری سوال یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے اور اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ماحول کا ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
آر ایس ایس کے نظریہ سازوں نے واضح لفظوں میں ہندتوا کی بالادستی کی خواہش کے اظہار کے ساتھ مسلم اور عیسائی اقلیت کو "باہری” اور "غیر” بنانے کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ یہ ملک ان کے لیے مقدس سرزمین نہیں ہے۔ اس لیے اگر یہاں رہنا ہے تو انہیں ہماری بالادستی قبول کرنی ہوگی، اپنی تہذیب و ثقافت سے دست بردار ہونا ہوگا اور انہیں دوسرے درجے کا شہری بن کر بھارت میں رہنا ہوگا۔
آر ایس ایس کی اس بنیادی سوچ اور فکر کے تناظر میں اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ تاریخی بحث اور اس میں ہیر پھیر کا واحد مقصد مسلمانوں میں احساسِ جرم پیدا کرنا اور ان کے خلاف کارروائی کا جواز فراہم کرنا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر تاریخ کے دوسرے پہلوؤں پر بات کرنے والوں پر لعن و طعن اور انہیں خاموش کرانے کی کوشش اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس پوری بحث میں مسلمانوں اور ملک کے سنجیدہ، سیکولر اور انصاف پسندانہ سوچ کے حاملین کی ذمہ داری کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امیدوں یا حالات کے حوالے کرنے کے بجائے متبادل بیانیہ مرتب کرنے، تاریخی حقائق کو پیش کرنے اور نوجوانوں میں متنوع سوچ اور فکر کی آزادی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ملک پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، تو اس کا جواب واضح ہے کہ خانہ جنگی کی خواہش رکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اس آگ میں صرف مسلمان یا اقلیتیں ہی جلیں گی تو ان کی سوچ غلط ہے۔ اس آگ میں پورا ملک جلے گا اور طاقتور بھارت کے خواب کی موت ہوگی۔ ملک کے ایک طبقے کو دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی شعوری کوشش سے نہ صرف جمہوری، سیکولر بھارت کا خاتمہ ہوگا بلکہ ملک کی ترقی کی رفتار بھی رک جائے گی۔
اگر ملک کے موجودہ حالات کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی رفتار رک گئی ہے اور حالیہ برسوں میں ملک کے دولت مند اور صلاحیت مند افراد کے شہریت سے دست بردار ہونے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اقتصادی ترقی جبر، خراب امن و امان کے حالات میں دیرپا نہیں ہو سکتی۔

 

***

 خانہ جنگی کی خواہش رکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اس آگ میں صرف مسلمان یا اقلیتیں ہی جلیں گی تو ان کی سوچ غلط ہے۔ اس آگ میں پورا ملک جلے گا اور طاقتور بھارت کے خواب کی موت ہوگی۔ ملک کے ایک طبقے کو دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی شعوری کوشش سے نہ صرف جمہوری، سیکولر بھارت کا خاتمہ ہوگا، بلکہ ملک کی ترقی کی رفتار بھی رک جائے گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025