آئی آئی ٹی کھڑگپور کے طالب علم کی موت: کلکتہ ہائی کورٹ نے لاش کو قبر سے نکالنے اور دوبارہ پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم دیا

نئی دہلی، اپریل 26: کلکتہ ہائی کورٹ نے منگل کو حکم دیا کہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کھڑگپور کے ایک طالب علم کی لاش کو نکالا جائے اور تازہ پوسٹ مارٹم کیا جائے۔

فیضان احمد نامی طالب علم 14 اکتوبر کو اپنے ہاسٹل کے کمرے میں مردہ پایا گیا تھا۔ مدنی پور میڈیکل کالج اور اسپتال میں کرائے گئے پوسٹ مارٹم سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ احمد کی موت خودکشی سے ہوئی ہے۔ تاہم اس کے اہل خانہ نے اس دعوے سے اختلاف کیا ہے اور مبینہ طور پر اس کے قتل کا الزام لگایا ہے۔

احمد کی والدہ نے دی ٹیلی گراف کو بتایا ’’پولیس اور آئی آئی ٹی حکام قتل کو خودکشی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم سب یہ کہتے رہے ہیں کہ اسے سینئر طلباء نے ریگنگ کرکے قتل کیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ عدالت بھی آئی آئی ٹی حکام اور پولیس کی باتوں کو قبول نہیں کر رہی ہے۔‘‘

29 مارچ کو فارنسک میڈیسن ماہر اجے گپتا نے، جنھیں عدالت نے معاملے کی تحقیقات کرنے کے لیے کہا تھا، عدالت کو بتایا کہ وہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔

گپتا نے کہا کہ رپورٹ میں مذکور نتائج اور پوسٹ مارٹم کا ایک ویڈیو موت کی وجہ اور طریقہ کے بارے میں حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ احمد کے والدین نے اکتوبر میں قتل کا الزام لگاتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

منگل کو جسٹس راج شیکھر منتھا نے گپتا سے کہا کہ وہ ڈاکٹروں کی موجودگی میں احمد کے جسم کا دوسرا پوسٹ مارٹم کریں۔

عدالت نے کہا ’’پوسٹ مارٹم کلکتہ میڈیکل کالج اور ہسپتال میں کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ بالا مشق فیضان احمد کی موت کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے بہت ضروری ہے۔‘‘

عدالت نے یہ حکم یہ نوٹ کرنے کے بعد دیا کہ احمد کے خاندان نے اس کی لاش کو نکالنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔

منتھا نے سندیپ بھٹاچاریہ کی طرف سے جمع کرائے گئے نتائج کا بھی نوٹس لیا، جنھیں اس کیس میں امیکس کیوری کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا ’’سب سے پہلے یہ کہ متاثرہ کے سر کے پچھلے حصے پر زخم کے دو نشانات نظر آتے ہیں، جنھیں طبی طور پر ہیماٹوما کہلاتے ہیں اور ان نشانات کی تصدیق مسٹر سندیپ کمار بھٹاچاریہ، ایل ڈی امیکس کیوری نے کی ہے۔ لیکن اصل پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس کا ذکر نہیں ہے۔‘‘

ہیماٹوما جسم پر جمنے والے خون کا ایک نشان ہے اور یہ سرجری یا چوٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔

بھٹاچاریہ کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پولیس نے اس جگہ سے ایمپلورا نامی کیمیکل کا پتہ لگایا تھا، جس میں سوڈیم نائٹریٹ ہوتا ہے، جہاں سے احمد کی لاش ملی تھی۔

جج نے کہا کہ کیمیکل کی موجودگی سے یہ سوال اٹھتے ہیں کہ آیا اس کا استعمال طالب علم کے جسم کو گلنے سے محفوظ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ یہ عرض کیا جاتا ہے کہ جب کوئی لاش گل جائے تو یہ ناممکن ہے کہ ہاسٹل کے ساتھی اس کا پتہ نہ لگا سکیں۔ ’’تین دن تک پراسرار طور پر جسم سے کوئی بدبو نہیں آئی۔‘‘

تاہم عدالت نے کہا کہ ان کے حکم کو پولیس پر شکوک و شبہات کے طور پر نہیں سمجھا جانا چاہئے، کیوں کہ پولیس نے انھیں دی گئی پوسٹ مارٹم رپورٹ کی بنیاد پر کام کیا۔ اس نے حکام کو احمد کی لاش کو نکالنے اور ایک ماہ میں دوسرا پوسٹ مارٹم کرنے کی ہدایت کی۔