بندے کو ہمہ وقت بندگی ربمیں بندھے رہنے کی تربیت
قرآن کی رو سے عبادت وہ اصل مقصد ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:
میں نے نہیں پیدا کیا جن و انس کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔ (سورہ الذّٰریٰت:56)
انبیاء علیہم السلام جس غرض کے لیے دنیا میں بھیجے گئے وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ انسان کو خدا کی عبادت کی طرف دعوت دیں۔
یہ کہ بندگی کرو اللہ کی اور دُور رہو طاغوت سے (سورۃ النحل:36)
پس ہمارے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ اسلام میں جو عبادات ہم پر فرض کی گئی ہیں ان کی اصلی روح کیا ہے۔ اگر ان اُمور کو ہم نہ جانیں گے تو اس مقصد ہی کو پورا کرنے سے قاصر رہ جائیں گے جس کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ہے۔
اسلام انسان کی پوری دنیوی زندگی کو عبادت میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے، اس کا مطالبہ یہ ہے کہ آدمی کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو، لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے ساتھ ہی یہ بات لازم آجاتی ہے کہ جس اللہ کو آدمی نے اپنا معبود تسلیم کیا ہے، اس کا عبد یعنی بندہ بن کر رہے، اور بندہ بن کر رہنے ہی کا نام عبادت ہے۔ کہنے کو تو یہ چھوٹی سی بات ہے اور بڑی آسانی کے ساتھ اسے زبان سے ادا کر دیا جاسکتا ہے مگر عملاً آدمی کی ساری زندگی کا اپنے تمام گوشوں کے ساتھ عبادت بن جانا آسان کام نہیں، اس کے لیے بڑی زبردست ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خاص طور پر ذہن کی تربیت کی جائے۔ مضبوط کیریکٹر پیدا کیا جائے۔ عادات اور خصائل کو ایک سانچے میں ڈھالا جائے اور صرف انفرادی سیرت ہی کی تعمیر پر اکتفا نہ کر لیا جائے بلکہ ایک ایسا اجتماعی نظام قائم کیا جائے جو بڑے پیمانہ پر افراد کو اس عبادت کے لیے تیار کرنے والا ہو، اور جس میں جماعت کی طاقت فرد کی پشت پناہ، اس کی مددگار اور اس کی کم زوریوں کی تلافی کرنے والی ہو۔ یہی غرض ہے جس کے لیے اسلام میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی عبادتیں فرض کی گئی ہیں۔ انہیں عبادت کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس یہی عبادات ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اصلی عبادت کے لیے آدمی کو تیار کرتی ہیں۔ یہ اس کے لیے لازمی ٹریننگ کورس ہیں۔ انہی سے وہ مخصوص ذہنیت بنتی ہے، اس خاص کیریکٹر کی تشکیل ہوتی ہے، منظم عادات و خصائل کا وہ پختہ سانچا بنتا ہے اور اس اجتماعی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں جس کے بغیر انسان کی زندگی کسی طرح عبادت الٰہی میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ اسی بنا پر انہیں ارکان اسلام قرار دیا گیا ہے۔
روزہ کی فرضیت کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کیا جائے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ (سورہ بقرہ:183)
یہ تقوٰی ہی دراصل اسلامی سیرت کی جان ہے۔ جس نوعیت کا کیریکٹر اسلام ہر مسلمان فرد میں پیدا کرنا چاہتا ہے اس کا اسلامی تصور اس تقوٰی کے لفظ میں پوشیدہ ہے۔ افسوس کہ آج کل اس لفظ کا مفہوم بہت محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک خاص طرز کی شکل و وضع بنا لینا، چند مشہور ونمایاں گناہوں سے بچنا اور بعض ایسے مکروہات سے پرہیز کرنا جنہوں نے عوام کی نگاہ میں بہت اہمیت اختیار کرلی ہے بس اسی کا نام تقوٰی ہے۔ حالانکہ دراصل یہ ایک نہایت وسیع اصطلاح ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ تقوٰی کی صفت کا ابتدائی جوہر جن لوگوں میں موجود ہو ان کے اندر اس صفت کو نشو و نما دینے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے روزے سے زیادہ طاقت وَر اور کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا۔
تقویٰ کی اس صفت کو پیدا کرنے کے لیے انسان کو اپنے نفس پر کنٹرول ضروری تھا جس کی تربیت اللہ نے روزے کے ذریعے کی۔ اس تربیت کے ضابطہ میں انسانوں کو کسنے کے لیے صرف دو خواہشوں کو منتخب کیا گیا ہے یعنی پیٹ کی خواہش اور جنسی خواہش اور ان کے ساتھ ایک تیسری خواہش… آرام لینے کی خواہش بھی زد میں آگئی ہے کیوں کہ تراویح کے قیام اور سحری کے لیے آخر شب میں مزے کی نیند توڑ کر اٹھنے کی وجہ سے اس پر بھی اچھی خاصی ضرب پڑتی ہے۔
حیوانی زندگی کے مطالبات میں یہ تین مطالبے اصل و بنیاد کا حکم رکھتے ہیں:
زندگی کو باقی رکھنےکے لیے غذا کا مطالبہ۔
اپنی نسل کو باقی رکھنےکے لیے صنف مقابل سے اتصال کا مطالبہ اور اپنی کھوئی ہوئی طاقتوں کو بحال کرنے کے لیے آرام کا مطالبہ۔ انہی تین ضرورتوں کا تقاضا تمام حیوانی خواہشات کی بنیاد اور تمام حیوانی اعمال کا محرک ہے اور یہ تقاضا اتنا طاقت وَر ہے کہ حیوان جو کچھ کرتا ہے اسی کے زور سے مجبور ہو کر کرتا ہے۔
انسان کو خدمت گار اور آلۂ کار کی حیثیت سے جو بہترین ساخت کا حیوان (جسم) دیا گیا ہے اس کے بنیادی مطالبات بھی یہی تین ہیں اور چونکہ وہ تمام حیوانات سے اونچی قسم کا حیوان ہے اس لیے اس کے مطالبات بھی ان سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ وہ صرف زندہ رہنے کے لیے غذا ہی نہیں مانگتا بلکہ اچھی غذا مانگتا ہے۔ طرح طرح کی مزے دار غذائیں مانگتا ہے، غذائی مواد کی ترکیبوں کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کے اس مطالبہ میں سے اتنی شاخیں نکلتی چلی جاتی ہیں کہ اسے پورا کرنے کے لیے ایک دنیا کی دنیا درکار ہوتی ہے۔ وہ صرف بقائے نوع کے لیے صنف مقابل سے اتصال ہی کا مطالبہ نہیں کرتا، بلکہ اس مطالبہ میں ہزار نزاکتیں اور ہزار باریکیاں پیدا کرتا ہے۔ تنوع چاہتا ہے، حسن چاہتا ہے، آرائش کے بے شمار سامان چاہتا ہے، طرب انگیز سماں اور لذت انگیز ماحول چاہتا ہے، غرض اس سلسلہ میں بھی اس کے مطالبات اتنی شاخیں نکالتے ہیں کہ کہیں جاکر ان کا سلسلہ رکتا ہی نہیں۔ اسی طرح اس کی آرام طلبی بھی عام حیوانات کے مثل صرف کھوئی ہوئی قوتوں کو بحال کرنے کی حد تک نہیں رہتی، بلکہ وہ بھی بے شمار شاخیں نکالتی ہے جن کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ وہ صرف کھوئی ہوئی طاقتوں کو بحال ہی نہیں کرنا چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ حتی الامکان قوتیں کھونے کی نوبت ہی نہ آنے پائے، مشقت سے جی چراتا ہے، محنت کے بغیر کام نکالنے کی کوشش کرتا ہے، طرح طرح کی تدبیریں اس غرض کے لیے نکالتا ہے کہ بِلامحنت یا کم از کم محنت سے مقصد براری ہو جائے اور خصوصًا ایسے مقاصد کے لیے محنت کرنے میں تو اس کی جان پر بنتی ہے جو اس کے حیوانی مقاصد سے بالاتر ہوں۔
اس طرح ان تین ابتدائی خواہشوں سے خواہشات کا ایک لامتناہی جال بن جاتا ہے جو انسان کی پوری زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لینا چاہتا ہے۔ پس دراصل انسان کے اس خادم، اس منہ زور حیوان کے پاس یہی تین ہتھیار وہ سب سے بڑے ہتھیار ہیں جن کی طاقت سے وہ انسان کا خادم بننے کے بجائے خود انسان کو اپنا خادم بنانے کی کوشش کرتا ہے اور ہمیشہ زور لگاتا رہتا ہے کہ اس کے اور انسان کے تعلق کی نوعیت صحیح فطری نوعیت کے برعکس ہو جائے یعنی بجائے اس کے کہ انسان اس پر سوار ہو، الٹا وہ انسان پر سوار ہو کر اسے اپنی خواہشات کے مطابق کھینچے کھینچے پھرے۔ اگر انسان پوری قوت سے اس پر اپنا اقتدار مسلط نہ کرے اور تمیز دار ارادہ کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دے تو بالآخر وہ اس پر غالب آجاتا ہے۔ پھر وہ اپنے خدمت گار کا غلام اور اس کا خدمت گار اس کا آقا ہوتا ہے۔ علم اسما کی جو نعمت اللہ نے اسے دی ہے فکر و استدلال اور تسخیر و ایجاد کی جو قابلیتیں اسے عطا کی ہیں وہ سب کی سب اس اندھے جاہل، نادان جانور کی خدمت میں لگ جاتی ہیں، بلندیوں پر اڑنے کے بجائے پستیوں پر اترنے کے کام آتی ہیں، اعلیٰ درجہ کے انسانی مقاصد کی جگہ ذلیل حیوانی مقاصد حاصل کرنے کا آلہ بن جاتی ہیں، ان کا کوئی مصرف اس کے سوا باقی نہیں رہتا کہ رات دن بس اسی حیوان کی خواہشات پوری کرنے کے لیے نئے نئے وسائل تلاش کرتی رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ حیوان شرالدواب……تمام حیوانات سے بدتر قسم کا حیوان… بن کر رہ جاتا ہے۔
ان پستیوں میں گرنے سے انسان کو بچانے کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ اس کے سامنے انسانی زندگی کا نصب العین پیش کیا جائے اور اسے انسانی قوتوں کا صحیح مصرف بتایا جائے بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس حیوان کے ساتھ اس کے تعلق کی جو فطری نوعیت ہے اسے عملاً قائم کیا جائے اور مشق و تمرین کے ذریعہ سے سوار کو اتنا چست کر دیا جائے کہ وہ اپنی سواری پر جم کر بیٹھے اور ارادے کی باگیں مضبوطی کے ساتھ تھامے اور اس پر اتنا قابو یافتہ ہو کہ اس کی خواہشات کے پیچھے خود نہ چلے بلکہ اپنے ارادے کے مطابق اسے سیدھا سیدھا چلائے۔ اس حیوان کو خدا نے اس لیے ہمارے سپرد کیا ہے کہ ہم اس سے کام لیں اور اسے اپنی زندگی کے مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ بنائیں۔ اس کا دماغ ہمارے لیے فکر کرنے کا وسیلہ ہے، اس کے آلات حواس ہمارے لیے علم حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس کے ہاتھ اور پاوں ہمارے لیے سعی و عمل کرنے کے آلات ہیں۔ جتنی چیزیں خدا نے اس دنیا میں ہمارے لیے مسخر کی ہیں ان میں سب سے زیادہ کار آمد چیز یہی حیوانی جسم ہے۔ اس کے اندر جتنی فطری خواہشات ہیں وہ سب اس کی حقیقی ضرورتوں سے تعلق رکھتی ہیں جنہیں پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہم پر اس کا حق ہے کہ اسے آرام سے رکھیں۔ اسے قوت بخش غذا دیں، بقائے نوع کے لیے اس کی طلب کو پورا کریں، اور اسے خواہ مخواہ ضائع نہ کر دیں۔ لیکن بہرحال یہ ہماری اور ہمارے مقصد زندگی کی خدمت کے لیے ہے نہ کہ ہم اس کی اور اس کے مقصد زندگی کی خدمت کے لیے۔ اسے ہمارے ارادے کا تابع ہونا چاہیے، نہ کہ ہمیں اس کی خواہشات کا تابع؟ اس کا یہ مرتبہ نہیں ہے کہ ایک فرماں روا کی طرح اپنی خواہشات ہم سے پوری کرائے بلکہ اس کا صحیح مقام یہ ہے کہ ایک غلام کی طرح ہمارے سامنے اپنی خواہشات پیش کرے اور یہ ہماری تمیز اور تربیت یافتہ خودی کا کام ہے کہ اس کی جس درخواست کو جب اور جس طرح مناسب سمجھیں، پورا کریں یا رَد کردیں۔
روزے کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد انسان کو اس کے حیوانی جسم پر یہی اقتدار بخشتا ہے۔ جو تین خواہشیں تمام حیوانی خواہشات کا مبدا ہیں، جو تین ہتھیار اس حیوان کے پاس ایسے طاقت وَر ہیں کہ ان کے زور سے یہ ہمیں اپنا مطیع بنانے کے لیے اٹھتا ہے، روزہ انہی تینوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اس کے منہ میں مضبوط لگام دے کر اس کی راسیں ہماری اس خودی کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جو خدا پر ایمان لائی ہے اور اس کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کا عزم کر چکی ہے۔
روزے کی یہ مشق جو ہمیں ہر سال تیس دن تک کرائی جاتی ہے تاکہ اپنے اس خادم پر ہمیں پورا اقتدار حاصل ہو جائے، اس سے ہم اپنے جسم اور جسمانی قوتوں کے بااختیار حاکم بن جاتے ہیں۔ حیوانی خواہشات کا جابرانہ زور ختم ہو جاتا ہے۔ ہم میں اتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنی جس خواہش کو جس حد پر چاہیں روک دیں، اور اپنی جس قوت سے جس طرح چاہیں کام لے سکیں۔ وہ شخص جسے اپنی خواہشات کا مقابلہ کرنے کی کبھی عادت ہی نہ رہی ہو، جو نفس کے ہر مطالبہ پر بے چون و چرا سر جھکا دینے کا خوگر رہا ہو اور جس کے لیے حیوانی جبلت کا داعیہ ایک فرمان واجب الاذعان کا حکم رکھتا ہو، دنیا میں کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ بڑے درجہ کے کام انجام دینے کے لیے بہرحال آدمی کی خودی میں اتنا بل بوتا ہونا چاہیے کہ وہ نفس کی خواہشات کو اپنے قابو میں رکھ سکے اور ان قوتوں کو جو اللہ نے اس کے نفس و جسم کو ودیعت کی ہیں اپنے ارادے کے مطابق استعمال کرسکے۔ اسی لیے رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ سال کے دوران میں کبھی کبھی نفل روزے بھی رکھنے کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے تاکہ اس اقتدار کی گرفت مضبوط ہوتی رہے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک مومن و متقی انسان جس کی خودی اللہ تعالیٰ کی رضا کے آگے سپر ڈال چکی ہو، دنیا کی کسی چیز پر بھی ظلم نہیں کرسکتا کجا کہ خود اپنے جسم حیوانی کا حق مارے اور اپنے اس رفیق پر ظلم کرے جسے اللہ نے مدۃ العمر کے لیے اس کا بہترین مدد گار بنایا ہے۔ وہ اسے اچھے سے اچھا کھلائے گا اچھے سے اچھا پہنائے گا بہتر سے بہتر مکان میں رکھے گا زیادہ سے زیادہ آرام دے گا۔ اس کے ہر فطری جذبہ کی تسکین کا سامان فراہم کرے گا۔ اس لیے نہیں کہ اس کا نفس یہ چاہتا ہے بلکہ اس لیے کہ خدا نے اس کا حق مقرر کیا ہے اور اس حق کو ادا کرنا خدا کی خوشنودی کا موجب ہے۔ البتہ وہی نفس جب اچھا کھانے کے لیے حرام غذا یا حرام کی کمائی کا تقاضا کرے گا، جب اچھے لباس اچھی سواری اچھے مکان کے لیے ایسی تدبیریں اختیار کرنے کا مطالبہ کرے گا جنہیں اللہ نے پسند نہیں کیا ہے، جب وہ اپنے جذبات شہوانی کی تسکین کے لیے ایسے دروازے کھولنا چاہے گا جنہیں اللہ نے بند کیا ہے، جب وہ اپنی آرام طلبی کے لیے ان فریضوں اور ان خدمتوں کو ادا کرنے سے جی چرائے گا جو اللہ نے اس پر عائد کیے ہیں اور جب وہ اس جگہ اپنی خواہشات اور خود اپنی قربانی دینے سے رکنا چاہے گا جہاں اللہ کی رضا ہے کہ اسے اور اس کی خواہشوں کو قربان کر دیا جائے، وہاں مومن کی خودی اپنے حاکمانہ اختیارات کو پوری شدت کے ساتھ استعمال کرے گی اور بجبر اسے سرکشی و نافرمانی کے راستہ سے ہٹا کر فرماں برداری کے سیدھے راستہ پر لے جائے گی۔ اسی چیز کی مشق مومن سے رمضان میں کرائی جاتی ہے تاکہ دنیا کی اس امتحان گاہ میں نازک مواقع جب پیش آئیں ….اور وہ روز ہر وقت پیش آتے ہیں…. تو اس کے ارادے کی باگیں اس منہ زور حیوان کو قابو میں رکھنے سے عاجز نہ آجائیں۔
(بحوالہ : اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اپریل تا 22 اپریل 2023