!ادھر کنواں ہے ادھر کھائی کس طرف جائیں

روہنگیائی شہری میانمار کی فوج اور باغی گروپ کے درمیان پھنس گئے

نور اللہ جاوید، کولکاتا

میانمار کی خونریز خانہ جنگی میں روہنگیائی مسلمانوں کا بطور ایندھن استعمال افسوس ناک
بنگلہ دیش کے کاکس بازار کے کیمپوں میں آباد روہنگیائی نوجوانوں کی جبراً فوج میں بھرتی اور اغوا قابل تشویش
کیمپوں کے مکین رات بھر جاگ کر نوجوانوں کی حفاظت پر مجبور۔ فوری مسائل کا حل ضروری
فروری 2021 میں فوجی بغاوت کے ذریعہ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی قیادت والی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی میانمار بدترین خانہ جنگی کا شکار ہے۔ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور سیکڑوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ تین سال کی طویل خانہ جنگی کے نتیجے میں میانمار کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔صورت حال یہ ہے کہ کئی صوبے فوجی قیادت کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں جنہیں باغی گروپوں نے اپنے کنٹرول میں کرلیا ہے۔عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق میانمار کی معیشت کی شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم رہنے کی توقع ہے۔میانمار کی خانہ جنگی کے اثرات سے بھارت کی پڑوسی ریاستیں متاثر ہوئی ہیں ۔منی پور اور میزروم میں بڑی تعداد میں میانمار کے باشندے پناہ گزیں ہیں ۔ اس وقت کئی روہنگیائی آسام اور منی پور کے جیلوں میں بند ہیں ۔حال ہی میں ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ منی پور اور آسام کے جیلوں میں میانمار کے قیدی انسانی حقوق سے محروم ہیں ۔جیل کی مدت پوری کرنے اور جرمانہ ادا کرنے کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا جا رہا ہے۔ میانمار کی سیاسی صورت حال اور اس خانہ جنگی کا کیا نتیجہ نکلے گا اور کیا فوجی قیادت بیرکوں میں واپس چلی جائے گی اور حکومت سویلین کے ہاتھوں سونپ دی جائے گی یہ جاننا نہایت ہی اہم ہے۔ساتھ ہی یہ سوال بھی اہم ہے کہ فوجی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے باغی گروپ کیا جمہوریت کا حصہ بنیں گے؟ شاید ان سوالوں کا جواب اس وقت نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ عالمی طاقتیں خانہ جنگی کا خاتمہ نہیں چاہتیں ۔چین اور امریکہ اپنے مفادات کے تناظر میں میانمار کی صورت حال کو دیکھ رہے ہیں۔میانمار بھارت کا پڑوسی ملک ہے اور اگر میانمار میں صورت حال مزید بدترین ہوتی ہے تو اس کا سیدھا اثر بھارت پر بھی پڑسکتا ہے۔یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کو رکوانے کا دعویٰ کرنے والے ’وشو گرو مودی بھی کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ اس خونریز جنگ کا بدترین پہلو یہ ہے کہ اس میں ان بے گناہ مسلمانوں کو ایندھن بنایا جا جارہا ہے جنہیں گزشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے مسلسل ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی فوج، جس نے گزشتہ 46 برسوں سے روہنگیائی مسلمانوں کو صوبے راکھین سے روہنگیائی مسلمانوں کو خالی کروایا تھا جس کے بعد بچے کھچے مسلمانوں کو شہریت اور ووٹ دینے کے حق سے بھی محروم کردیا تھا آج وہی بنگلہ دیش کے کیمپوں میں جاکر روہنگیائی مسلم نوجوانوں کو فوج میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہی ہے بلکہ ان کا اغوا کرواکے جبری بھرتیاں کروا رہی ہے۔ ایشیاء پیسفک خطے کے لیے بین الاقوامی حالات حاضرہ سے متعلق مشہور میگزین ’’دی ڈپلومیٹ‘‘ ڈینا سانتانا پیریز کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں روہنگیائی کیمپوں میں آباد نوجوانوں کی جبراً بھرتی سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ شائع کی گئی ہے۔میگزین کے مطابق جیسے جیسے میانمار کی فوج کمزور ہو رہی ہے اس کے ساتھ ہی کاکس بازار کے کیمپوں میں جبراً بھرتی کی کارروائی تیز ہوگئی ہے۔بی بی سی کی ایک اور تحقیقاتی رپورٹ میں میانمار کے کیمپوں میں مقیم روہنگیائی نوجوانوں کو فوج میں جبراً شامل کیے جانے پر احوال درج کیے گئے ہیں ۔
روہنگیائی مسلمانوں کو بے وطن کرنے میں صرف میانمار کی فوجی جنتا تنہا مجرم نہیں ہے بلکہ اس میں بدھسٹ انتہا پسند اور میانمار کی سیاسی جماعتیں، یہاں تک کہ حقوق انسانی کی چمپیئن اور نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی بھی شامل ہیں ۔اقوام متحد ہ کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ روہنگیائی مسلمان ہیں۔دراصل یہ ایسا طبقہ ہے جنہیں پہلے اپنے حق رائے دہی سے محروم کیا گیا اور اس کے بعد شہریت چھین لی گئی اور بے وطن کر دیا گیا۔اس وقت دس لاکھ سے زائد افراد بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں لگائے گئے کیمپوں میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دس لاکھ پناہ گزینوں کی کفالت کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ ان کیمپوں کا دورہ کرنے والی بین الاقوامی صحافی برادری کی رپورٹوں سے انداز ہ ہوتا ہے کہ کیمپوں میں مقیم روہنگیائی صورت حال انتہائی خراب ہے ۔جب کہ روہنگیائی نام پر پوری دنیا سے بنگلہ دیش کو عطیات مل رہے ہیں مگر یہ عطیات ان روہنگیائی مظلوموں تک نہیں پہنچ رہے ہیں ۔بنگلہ دیش کی حسینہ حکومت نے ان روہنگیائی شہریوں کو بے یارو مدگار چھوڑ دیا ہے۔ ایک طرف رپورٹنگ کرنے کے لیے صحافیوں کو کیمپوں تک آزادانہ رسائی نہیں دی جا رہی ہے تو دوسری طرف کیمپوں میں میانمار کی فوجی جنتا کے اہلکار کیمپوں میں جا کر روہنگیائی نوجوانوں کو جنگ میں شامل ہونے کے لیے دھمکی آمیز ترغیب دے رہے ہیں بلکہ اغوا اور جبری بھرتی بھی کی جا رہی ہے۔ ایسے میں بنگلہ دیش کی سیکیورٹی انتظامیہ بھی سوالوں کی زد میں ہے۔ سوال یہ ہے بھی ہے کہ بنگلہ دیش حکومت کی مرضی کے بغیر میانمار کے فوجی جنتا کے اہلکاروں کی کاکس بازار تک رسائی کیسے ہوئی ۔
بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں مقیم روہنگیائی انسانی حقوق کے کارکن اور کمیونٹی لیڈر ہیتوے لائن کہتے ہیں کہ ’’بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین، جو پہلے ہی بے پناہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، اب فوج کی طرف سے ان کے پراکسیز بھرتی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کئی نوجوان بھرتی سے بچنے کے لیے کیمپ سے فرار ہو گئے ہیں، جبکہ دیگر رجسٹرڈ رفیوجی کیمپ سیٹلمنٹ میں واقع خاندان اور دوستوں کی پناہ گاہوں میں منتقل ہو گئے ہیں، کیوں کہ یہاں گینگ کی سرگرمیاں سب سے کم ہیں ۔میانمار فوج کی مسلح گروپ سے متعلق سماجی کارکن نے بتایا کہ ’’وہ چاہتے ہیں کہ ہم میانمار میں جا کر لڑیں۔ وہ روہنگیا کمیونٹی کے تمام نوجوانوں کو اکٹھا کر رہے ہیں اور انہیں اراکان آرمی کے خلاف میانمار کی فوج میں شامل ہونے پر مجبور کر رہے ہیں۔ہم جانا نہیں چاہتے لیکن وہ ہمیں روزانہ دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اب کیمپ میں رہنا پہلے سے کہیں زیادہ خوفناک ہو گیا ہے‘‘۔ مئی اور جون اور میں ان کی سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ کوتوپالونگ کیمپ میں رہنے والے حقوق انسانی کے کارکن محمود کہتے ہیں کہ مسلح گروپ چوبیس گھنٹے گرفتاریاں کرتا ہے، کسی کو نشانہ بناتا ہے، خاص طور پر ہماری کمیونٹی کے رضاکار کارکنوں، جیسے اساتذہ اور انسانی امداد کے کارکنان وغیرہ۔ وہ اس مقصد کے لیے ہر کیمپ میں میٹنگیں کر رہے ہیں۔
علاقائی نیوز سرویس ریڈیو فری ایشیا کے مطابق مئی سے 15جون تک 500 سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینوں کو مبینہ طور پر مسلح گروہوں نے میانمار میں جاری جنگ میں جبراً شامل کرلیا ہے۔جو لوگ راکھین میں جنتا فوج میں بھرتی سے انکار کرتے ہیں انہیں مار پیٹ اور بعض صورتوں میں مہلک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روہنگیا رجسٹرڈ پناہ گزین کیمپ میں رہنے والی انسانی حقوق کی ایک اور کارکن ثمینہ اسلام نے بتایا کہ بہت سے روہنگیا جو حقوق انسانی کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں انہیں سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔خطرے کی وجہ سے کام پر نہیں جا رہے ہیں۔ ثمینہ کہتی ہیں کہ مسلح گروہ کمیونٹی کو ڈرانے کے لیے کچھ کیمپوں میں آگ بھی لگا رہے ہیں۔مئی میں روہنگیائی کیمپوں میں بڑے پیمانے پر آتشزدگی کا ایک بڑا واقعہ پیش آیا تھا۔مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ اس آتشزدگی کے پیچھے بھی اسی گروپ کا ہاتھ تھا۔ ثمینہ اسلام کہتی ہیں کہ ہم اچھی طرح سو نہیں پاتے اور اکثر اندھیرے کے بعد گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔یہ گینگ زیادہ تر رات کو لوگوں کو لے جاتے ہیں، لیکن بعض اوقات دن کے وقت بھی ان کی ہمت عروج پر ہوتی ہے، اس لیے ہم کبھی بھی خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے ہیں۔ جبراً بھرتی کی کارروائی فروری سے جاری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جن نوجوانوں کو میانمار لے جایا گیا ہے ان میں سے کسی کو بھی شہریت کارڈ نہیں دیا گیا ہے۔
1978 میں آپریشن ڈریگن کنگ (ناگامین) کے ذریعے تقریباً تین لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش بھیج دیا گیا۔ 1982 میں شہریت کا قانون پاس کیا گیا اور راتوں رات روہنگیا مسلمانوں کی شہریت چھین لی گئی۔ صحت کی خدمات، تعلیم اور جائیداد کے حق جیسے بنیادی حقوق سے محروم روہنگیا کو تشدد اور ایذا رسانی کا سامنا کرنا پڑا۔جنرل تھان شوے نے اسی طرح 1991-1992 میں آپریشن کلین اینڈ بیوٹیفل نیشن کے ساتھ دو لاکھ سے زائد روہنگیائی شہریوں کو جن میں مڈل کلاس طبقے کی اچھی خاصی تعداد تھی، ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔صدر تھین سین نے بھی جو 2011 سے 2016 تک فوج کے سربراہ رہے، سوا لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو منظم پالیسیوں کے تحت بے گھر کیا۔ ان میں سے تقریباً ایک لاکھ اندرونی طور پر بے گھر افراد کے کیمپوں میں رہتے ہیں۔ اراکانی مسلمانوں کے یہ حقوق، جنہیں 1948 میں آزادی سے لے کر 2015 تک ووٹ ڈالنے اور منتخب ہونے کا حق تھا، مکمل طور پر چھین لیے گئے۔2016 اور 2017 کے درمیان نسل کشی کی دو اور بڑی مہمیں چلائی گئیں جس کے نتیجے میں اراکان (ریاست راکھین) کی 75 فیصد آبادی بے گھر ہو کر بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہوگئی۔ جن علاقوں میں یہ روہنگیائی آباد تھے ان علاقوں کو فوج کی ملکیت قرار دے دیا گیا ہے۔روہنگیا، جو کبھی میانمار کے شہری تھے، اب شہریت، اپنے گھروں اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ 1962 سے اب تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں ان سب کی ایک ہی پالیسی رہی ہے کہ کسی بھی صورت میں روہنگیاؤں کو میانمار کا شہری تسلیم نہ کیا جائے۔ میانمار کے دیگر علاقے اور ریاستوں میں آباد مسلمانوں کو وہ صورت حال کا سامنا نہیں ہے جو روہنگیائی شہریوں کو ہے۔ تاہم گزشتہ ایک دہائی میں بدھ بھکشوؤں نے مسلمانوں کے خلاف جو نفرت پھیلائی ہے اس کی وجہ سے دیگر علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ خانہ جنگی کی وجہ سے مسلمانوں کے دیگر طبقات بھی متاثر ہوئے ہیں تاہم، ان کی شہریت محفوظ ہے اور یہی چیز ان کے لیے باعث اطمینان ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ جسے شائینا باؤشنر نے تیار کی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ ’’میانمار کی فوج جس نے کئی دہائیوں سے روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف مظالم ڈھائے اور شہریت دینے سے انکار کیا ہے، اب انہیں اپنی طرف سے لڑنے پر مجبور کر رہی ہے۔ روہنگیائی نوجوانوں کو صرف میانمار کی فوجی جنتا ہی جبراً بھرتی نہیں کر رہی ہے بلکہ بین الاقوامی ایجنسیوں کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روہنگیا سالویشن آرگنائزیشن (RSO) اراکان روہنگیا آرمی (ARA) اور اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (ARSA) بھی بڑے پیمانے پر روہنگیائی مسلم نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لیے تشدد اور اغوا کا سہارا بھی لیا جا رہا ہے۔ کبھی کبھی ان مسلح گروپوں کے درمیان بھی مقابلہ آرائی ہوتی ہے اور ان تمام کی کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ روہنگیائی نوجوانوں کی فوج میں بھرتی کریں۔ کاکس بازار کوتو پالنگ کیمپ میں گزشتہ دنوں بڑے پیمانے پر آتشزدگی کا جو واقعہ پیش آیا وہ کوئی حادثاتی نہیں تھا بلکہ کیمپ کے اندر بدامنی کا دانستہ رد عمل تھا۔ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی آرمڈ پولیس بٹالین گینگ بھرتی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ بنگلہ دیشی پولیس گروہوں کی پرتشدد اور دھمکی آمیز سرگرمیوں پر آنکھیں بند کر رہی ہے اور مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ میانمار کی بدترین اور خونریز خانہ جنگی میں روہنگیائی مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟ آج بھی بڑی تعداد صوبے راکھین کے کیمپوں میں روہنگیائی مسلمان ٹھسے ہوئے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق میانمار کی ریاست راکھین میں ایک ہزار سے زیادہ روہنگیائی مردوں کو اغوا کر لیا گیا ہے اور انہیں میانمار کی فوج نے اپنی طرف سے باغی گروپ اراکان آرمی (AA) کے خلاف لڑنے کے لیے زبردستی بھرتی کیا ہے۔ روہنگیا مردوں اور ان کے خاندان کے افراد کو راکھین میں جنتا کے تنازعے کی حمایت کرنے کے لیے بھرتی کرنے اور فوجی تربیت لینے سے انکار کرنے پر مار پیٹ اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بھرتی کی کوششوں سے بچنے کے لیے ایک لاکھ سے زائد نوجوان اپنے گھروں سے فرار ہو گئے ہیں۔ میانمار کے قانون کے مطابق ہنگامی صورت حال میں ہر ایک شہری کو فوج کا حصہ بننا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب روہنگیائیوں کو میانمار کا شہری ہی تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے تو پھر ان پر یہ قانون کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے۔ 1982 میں پاس شدہ شہریت قانون کے مطابق روہنگیائی میانمار کے شہری نہیں ہیں۔ بی بی سی نے ایسے کئی نوجوانوں کا انٹرویو لیا ہے جنہیں جنتا فوج نے شہریت کا لالچ دے کر بھرتی کیا مگر جنگ میں حصہ لینے کے بعد اس وعدے کے مطابق انہیں شہریت نہیں دی گئی۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق فوجی افسران کیمپوں میں گھوم رہے ہیں اور نوجوانوں کو فوجی تربیت کے لیے رپورٹ کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔
2012 میں ہزاروں روہنگیائی مسلمانوں کو راکھین کی مخلوط آبادیوں سے بے دخل کر دیا گیا اور انہیں کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔ پانچ سال بعد اگست 2017 میں جب فوج نے ان کے خلاف وحشیانہ کلیئرنس آپریشن شروع کیا تو سات لاکھ روہنگیائی پڑوسی ملک بنگلہ دیش فرار ہو گئے۔ آپریشن کے دوران ہزاروں افراد کا قتل کیا گیا، خواتین کی عصمت دری کی گئی اور ان کے گھروں کو جلا دیا۔ ان میں سے چھ لاکھ روہنگیائی اب بھی میانمار کے راکھین کے کیمپوں میں مقیم ہیں۔انسانی حقوق کے گروپ فورٹیفائی رائٹس سے تعلق رکھنے والے میتھیو اسمتھ اپنی رپورٹ میں کہتے ہیں کہ یہ بھرتی مہم غیر قانونی اور جبری مشقت کے مترادف ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سفاکانہ مہم کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔فوج ایک ملک گیر جمہوری انقلاب کو روکنے کی کوشش میں روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کے متاثرین کی بھرتی کر رہی ہے۔ اس حکومت کو انسانی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
2012 اور 2017 میں راکھین میں روہنگیائیوں کے خلاف نسل کشی پر مبنی جو آپریشن چلایا گیا تھا اس میں میانمار کی فوجی جنتا کو بدھسٹ انتہا پسندوں اور راکھین آرمی کی حمایت حاصل تھی۔اب صورت حال ہے کہ یہ تینوں آپس میں دست و گریباں ہیں۔ صوبہ راکھین فوج کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ایسے میں راکھین آرمی نے جو میانمار کی فوج کے مقابل ہے، صوبے راکھین میں مقیم ہر ایک فرد کو شہریت دینے کا وعدہ کیا ہے۔اس کے بعد یہ امید جاگی تھی کہ حالات بہتر ہونے کے بعد بنگلہ دیش میں مقیم تمام روہنگیائی شہریوں کی واپسی ہوسکتی ہے۔ مگر روہنگیائی شہریوں کی میانمار جنتا کی فوج کی شمولیت کی خبروں نے ایک بار پھر راکھین آرمی کو روہنگیائی شہریوں سے بدظن کردیا ہے اور اب وہ شہریت دینے کے وعدے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ روہنگیا ایک ایسی فوج کے لیے لڑنے پر مجبور ہیں جو میانمار میں ان کے رہنے کے حق کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔ دوسری طرف نسلی باغیوں سے دور ہو گئے ہیں جو جلد ہی راکھین کے بیشتر حصے پر قابض ہو سکتے ہیں۔ یعنی باضابطہ طور پر روہنگیائی مسلمان مذکورہ دونوں گروپوں کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں جہاں سے ان کی خلاصی جلد از جلد ہونی ضروری ہے۔

 

***

 2012 میں ہزاروں روہنگیائی مسلمانوں کو راکھین کی مخلوط آبادیوں سے بے دخل کر دیا گیا اور انہیں کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔ پانچ سال بعد اگست 2017 میں جب فوج نے ان کے خلاف وحشیانہ کلیئرنس آپریشن شروع کیا تو سات لاکھ روہنگیائی پڑوسی ملک بنگلہ دیش فرار ہو گئے۔ آپریشن کے دوران ہزاروں افراد کا قتل کیا گیا، خواتین کی عصمت دری کی گئی اور ان کے گھروں کو جلا دیا۔ ان میں سے چھ لاکھ روہنگیائی اب بھی میانمار کے راکھین کے کیمپوں میں مقیم ہیں۔انسانی حقوق کے گروپ فورٹیفائی رائٹس سے تعلق رکھنے والے میتھیو اسمتھ اپنی رپورٹ میں کہتے ہیں کہ یہ بھرتی مہم غیر قانونی اور جبری مشقت کے مترادف ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سفاکانہ مہم کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔فوج ایک ملک گیر جمہوری انقلاب کو روکنے کی کوشش میں روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کے متاثرین کی بھرتی کر رہی ہے۔ اس حکومت کو انسانی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024