ملک میں سیاسی بیان بازیوں اور یہاں پیدا ہونے والے سماجی، معاشی و سیاسی بحرانوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے بچنے اور حقیقی مسائل سے عوام کا ذہن کا رخ موڑنے کے لیے برسر اقتدار طبقے کی جانب سے ہمیشہ سے ہی کچھ مخصوص اصطلاحات اور بیانیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ چناں چہ”غیر ملکی ہاتھ” اور "غیر ملکی طاقت” جیسی اصطلاحات ماضی کی سیاسی روایت کا حصہ رہ چکے ہیں اور اب "ڈیپ اسٹیٹ” اور "جارج سوروس” جیسے بیانیے اسی روایت کا تسلسل ہیں۔ یہ بیانیے اور اس سے جڑے الفاظ اس وقت زیادہ سامنے آتے ہیں جب حکومت خود کو داخلی مسائل، ناکامیوں یا عوامی تنقید کے دائرے میں گِھرا ہوا پاتی ہے۔
اندرا گاندھی کے دور حکومت میں بھی "غیر ملکی ہاتھ” ایک ایسا سیاسی ہتھیار تھا جو حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے اور حقیقی مسائل سے عوامی توجہ ہٹانے کے لیے خوب استعمال کیا گیا۔اس زمانے میں جب بھی حکومت کسی داخلی بحران، معاشی کمزوری یا عوامی بے چینی کا شکار ہوتی تو وہ "غیر ملکی ہاتھ” کی جانب اشارہ کر کے ذمہ داریوں سے پلہ جھاڑ لیتی تھی۔ اُس دور میں یہ بیانیہ اس قدر عام ہو گیا تھا کہ اپوزیشن، بشمول اٹل بہاری واجپائی نے اس کا خوب مذاق اڑایا۔ انہوں نے ایک مرتبہ یہ تک کہہ دیا تھا کہ اگر حکم راں جماعت کے کسی لیڈر کی بیوی حاملہ ہو جائے تو شاید حکومت اسے بھی "غیر ملکی ہاتھ” کی سازش قرار دے گی۔ اس وقت کی حکومت کے اس رویے نے اس اصطلاح کو ایک سیاسی تماشا بنا دیا تھا اور عوام بھی اس کی حقیقت سے واقف ہونے لگے تھے کہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے اور یہ صرف سیاسی چالیں ہیں۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ وہی اپوزیشن، جو ماضی میں اس بیانیے کا مذاق اڑاتی تھی، اب اقتدار میں آنے کے بعد اسی بیانیے کو استعمال کر رہی ہے۔ موجودہ حکومت جو خود کو نہایت مضبوط قیادت کی حامل اور خود کفیل بھارت کی علامت قرار دیتی ہے، ان دنوں "ڈیپ اسٹیٹ”، "جارج سوروس”، اور "غیر ملکی طاقتوں” کی سازشوں کے بیانیے پھیلاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ حکومت کی جانب سے اس طرح کے بیانات کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں مثلاً: اگر حکومت واقعی بہت مضبوط و مستحکم ہے تو اسے خارجی عناصر اور بیرونی طاقتوں سے کیوں خطرہ محسوس ہو رہا ہے؟ اور کیوں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، سماجی نا انصافی یا اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور ان جیسے مختلف داخلی مسائل پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے اس طرح کے بیانیے گھڑنے کی ضرورت پیش آئی ہے؟ کیا واقعی ان بیانیوں کی کوئی حقیقت بھی ہے؟ اگر ہے تو پھر حکومت اس کے سد باب کے لیے کیا کر رہی ہے؟ عام خیال تو یہی ہے کہ یہ حکمت عملی دراصل عوامی توجہات کو حقیقی مسائل سے ہٹانے کی ایک چال ہے۔
عصر حاضر میں "ڈیپ اسٹیٹ” کی اصطلاح ترکیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں سیاسی تجزیات کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ وہاں اس سے مراد ایسی تنظیمیں ہیں جو ریاستی اداروں میں خفیہ رہ کر حکومتوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن بھارت جیسے ملک میں اس اصطلاح کے استعمال کی کوئی واضح بنیاد نظر نہیں آتی، یہ صاف طور پر ایک سیاسی چال محسوس ہوتی ہے۔
حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ امریکہ کی ڈیپ اسٹیٹ یا دیگر مغربی طاقتیں بھارت میں بدامنی پیدا کر رہی ہیں، اس سلسلے میں بطور خاص، جارج سوروس جیسے افراد کو نشانہ بنانا، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت اپنے خاص نظریاتی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے یہ بیانیہ تشکیل دے رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے "غیر ملکی ہاتھ” یا "ڈیپ اسٹیٹ” جیسے بیانیوں کی تشکیل کے پس پردہ دراصل چند اہم مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ اولاً: حکومت اس کے ذریعے ملک کے اہم مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ کیوں کہ اس وقت ملک بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری، معاشی سست روی اور ہندتوادیوں کی جانب سے یہاں کے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے سبب اندرون و بیرون ملک حکومت کی امیج کافی متاثر ہوئی ہے۔ چناں چہ ان چیلنجوں پر پردہ ڈالنے کے لیے حکومت کی جانب سے اس قسم کے بیانیے تیار کیے گئے ہیں تاکہ جب عوام غیر ملکی طاقتوں کی سازشوں پر گفتگو کرنے لگیں گے تو اس کی اپنی ناکامیاں پس منظر میں چلی جائیں گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کے ذریعے حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام کرنا چاہتی ہے۔ چناں چہ "غیر ملکی ہاتھ” اور "جارج سوروس” جیسے بیانات کا مقصد دراصل اپوزیشن کو مغرب نواز اور ملک دشمن قرار دینا ہے۔ خاص طور پر سب سے بڑی اپوزیشن جماعت، کانگریس کے اہم رہنماؤں کو اس کے ذریعہ نشانہ بنا کر حکومت اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کر رہی ہے۔ اس بیانیہ کا تیسرا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ حکومت اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے قومی مفادات کی دہائی دے کر خود کو عوام کا محافظ بنا کر پیش کر رہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر اور ایک طرح کا خوف پیدا کیا جا رہا ہے کہ اگر یہ حکومت نہ رہی تو ملک دوبارہ غیر ملکی طاقتوں کے شکنجے میں چلا جائے گا۔
ان تین نکات کو سامنے رکھ کر جائزہ لیا جائے تو موجودہ حالات میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ "غیر ملکی ہاتھ” اور "ڈیپ اسٹیٹ” جیسے بیانیے دراصل حکومت کی اپنی کمزوریوں اور نا اہلیوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جو خود کو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کی قیادت کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، آخر اسے بیرونی سازشوں سے ڈرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟
حقیقت یہی ہے کہ یہ بیانیے حکومت کی گدی پر براجمان گروہ کی ایک مخصوص ذہنیت کا حصہ ہیں، جس کا مقصد عوام کو اصل مسائل سے غافل رکھنا اور اپنے سیاسی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ اب عوام کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا ہوگا کہ ان بیانات کا اصل مقصد ان کی فلاح و بہبود ہرگز نہیں بلکہ ان کے اپنے مسائل سے انہیں غافل کر دینا ہے۔ "غیر ملکی ہاتھ” اور "ڈیپ اسٹیٹ” جیسے بیانات ہمارے ملک میں نہ تو نئے ہیں اور نہ ہی کسی حقیقی خطرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ محض سیاسی مقاصد کے لیے گھڑے ہوئے بیانیے ہیں جو حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اپوزیشن کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ حکومت کی ان چالوں سے خبردار رہیں اور اصل مسائل پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں تاکہ حکومت کا احتساب ممکن ہو سکے۔
گذشتہ اسٹوری