بھارت کے آئین کی پچہترویں سالگرہ کے موقع پر پارلیمنٹ میں ہونے والے مباحثے نے آئینی اقدار، آئینی حقوق کی موجودہ صورت حال اور ملک کو درپیش سیاسی چیلنجز کے حوالے سے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا ہے۔ اس اہم موقع پر اپوزیشن قائدین، بالخصوص کانگریس قائد راہول گاندھی، ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا، کمیونسٹ لیڈر ڈی راجہ اور عام آدمی پارٹی ایم پی راگھو چڈا وغیرہ نے آئینی بحران، حکومتی کارکردگی اور مستقبل کے چیلنجز پر مختلف زاویوں سے اہم نکات پیش کیے۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے ان مسائل کو یکسر نظر انداز کر دیا اور اس اہم بحث کو سیاسی اکھاڑا بنا دیا۔
ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا نے اپنی تقریر میں آئینی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر کھل کر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے آئین کی روح کو مجروح کیا ہے اور ان حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے جنہیں آئین نے ہر شہری کو دیے ہیں۔ انہوں نے میڈیا، سِول سوسائٹی اور سیاسی مخالفین کی آواز کو دبانے پر حکومت کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں دیے گئے حقوق کے باوجود اقلیتوں کو سماجی، سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں محرومی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ اور دیگر آئینی ادارے دباؤ میں کام کر رہے ہیں جس سے جمہوریت کی بنیاد کمزور ہو رہی ہے۔ مہوا موئترا کی تقریر نے آئینی اصولوں اور موجودہ حکومت کے رویے کے درمیان گہری خلیج کو اجاگر کیا ہے جو بھارتی جمہوریت کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
ڈی ایم کے کے ایم پی اے راجہ نے آئین کے تحفظ پر زور دیا اور کہا کہ آج بھارت میں آئین کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین نے، بالخصوص دلتوں، آدیواسیوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے لیے جس سماجی انصاف کا وعدہ کیا تھا وہ اب محض ایک خواب بن گیا ہے۔ ڈی راجہ نے حکومت کی ان معاشی پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جنہوں نے امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو بڑھا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکولرازم آئین کی بنیاد ہے لیکن موجودہ سیاسی بیانیے نے مذہبی تعصب کو فروغ دیا ہے جو جمہوری ڈھانچے کے لیے خطرہ ہے۔
عام آدمی پارٹی لیڈر راگھو چڈا نے اپنی تقریر میں موجودہ بی جے پی حکومت کی کارکردگی پر سخت تنقید کی اور کہا کہ حکومت تعلیم، صحت اور روزگار کے شعبوں میں وعدے پورے کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے، آئینی ادارے سیاسی اثر و رسوخ تحت آ گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کے مباحثے کو دبانے اور حزب اختلاف کی آواز کو کچلنے کی کوششیں آئینی اقدار کی خلاف ورزی ہیں۔
ان سب کے درمیان آئین کی پچہترویں سال گرہ کے موقع پر ملک کے وزیر اعظم نے جو تقریر کی اس میں انہوں نے آئینی اقدار کو خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے یکساں سِول کوڈ کی تائید اور کانگریس پر تنقید کو مرکزی موضوع بنا کر اس مباحثے کا رخ موڑ دیا۔ وزیر آعظم کو آئین کی سیکڑوں دفعات میں سے وہی ایک یکساں سِول کوڈ کی دفعہ نظر آئی کیوں کہ یہ ان کے سیاسی نظریے کے لحاظ سے فائدہ مند ہے۔ انہوں نے آئین کے تحفظ اور اس پر عمل درآمد جیسے بنیادی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ایک سیاسی بیانیہ پیش کیا۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں ان اہم آئینی مسائل پر کوئی بات نہیں کی جو آج ملک کو در پیش ہیں۔
انہوں نے پارلیمنٹ کی کارروائی کو شفاف اور جامع بنانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر کوئی روشنی نہیں ڈالی، حالانکہ حالیہ برسوں میں پارلیمنٹ کے مباحثے کو محدود کرنے اور حزب اختلاف کی آواز کو دبانے کے واقعات عام ہو چکے ہیں۔ عدلیہ، میڈیا اور دیگر آئینی اداروں کے بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کے سوال پر وزیر اعظم خاموش رہے، جو آئینی جمہوریت کے لیے ایک سنگین خطرے کی بات ہے۔
وزیر اعظم نے یکساں سِول کوڈ کو ایک حل کے طور پر پیش کیا، لیکن اس مسئلے کے پیچیدہ پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس کے نفاذ سے اقلیتوں کی مذہبی آزادی اور شخصی قوانین متاثر ہو سکتے ہیں، جو آئین کی دفعہ 25-28 کے تحت محفوظ ہیں، اور یہ کہ یہ اقدام آئینی تحفظات سے کیسے مطابقت رکھ سکتا ہے۔ اس موقع پر یکساں سِول کوڈ کا ذکر درحقیقت سیاسی فائدے کے لیے ایک انتخابی حربہ تھا جس کا مقصد آئینی یکجہتی کے بجائے اپنی اکثریتی سیاست کو فروغ دینا نظر آتا ہے۔
وزیر اعظم کی تقریر میں کانگریس پر بار بار الزام تراشی اور ملک کی موجودہ خرابیوں کے لیے اسی کو ذمہ دار قرار دینا بھی ان کی ایک مستقل سیاسی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ آئین کی 75ویں سالگرہ جیسے سنجیدہ موقع پر کانگریس کو تمام مسائل کا محور قرار دینا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
اس اہم موقع پر وزیر اعظم سے توقع تھی کہ وہ عوامی مسائل، جیسے تعلیم، صحت، روزگار اور اقتصادی عدم مساوات وغیرہ پر اپنے خیالات سے قوم کو روشناس کروائیں گے اور ان کے حل کا کوئی منظم خاکہ پیش کریں گے لیکن انہوں نے ان تمام مسائل پر کوئی بات ہی نہیں کی۔ دلتوں، آدیواسیوں اور ملک کی دیگر اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے مظالم پر وزیر اعظم نے اظہار خیال نہیں کیا، جو بھارت کے آئینی وعدوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔ بحیثیت مجموعی وزیر اعظم کی تقریر نے آئینی سالگرہ کی تقریب کو ایک سیاسی اسٹیج میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے آئین کے مکمل نفاذ اور اس کے اصولوں پر عمل درآمد کے بارے میں کوئی عملی خاکہ پیش نہیں کیا بلکہ اس اہم آئینی بحث کو قوم کے حقیقی مسائل سے ہٹا کر ایک انتخابی بیانیے میں تبدیل کر دیا جو کہ جمہوریت کی توہین کے مترادف ہے۔
وزیر اعظم کی تقریر دراصل آئینی مباحثے کو ایک محدود سیاسی ایجنڈے کی طرف موڑنے کی کوشش تھی، جو اس دستاویز کے اصولوں کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے۔ بھارت کو آئین کی روح کے مطابق چلانے کے لیے ملک کی سیاسی قیادت کو آئین کے تحفظ کے تئیں سنجیدہ اور خالص رویہ اپنانا ہو گا۔
پارلیمنٹ میں ہونے والی اس بحث سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت میں آئینی اصولوں کی حفاظت اور ان پر عمل درآمد کے لیے ایک متوازن، غیر جانب دار اور موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ محض تقاریر اور سیاسی بیانات سے اس کا تحفظ اور اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا اور اگر آئین کو محض سیاسی بیانات تک محدود رکھا گیا تو اس کی اصل روح ختم ہوجائے گی جس کا مشاہدہ ہم اس وقت کر رہے ہیں۔
گذشتہ اسٹوری
اگلی اسٹوری