اداریہ

زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو

مقولہ مشہور ہے کہ ’’اپوزیشن کے وجود ہی سے جمہوریت کو ناپا جاتا ہے‘‘ جمہور یعنی عوام اپنی رائے صرف حکم راں جماعت کے حق میں نہیں دیتے بلکہ وہ حزب اختلاف کے لیے بھی اپنی رائے (ووٹ) دیا کرتے ہیں۔ بنا بریں صدر، وزیر اعظم اور وزراء کی کابینہ سے اقتدار تشکیل پاتا ہے لیکن جمہوریت کی تکمیل حزب اختلاف کے وجود سے ہوتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’پختہ جمہوریت کے لیے مضبوط اپوزیشن ضروری ہے‘‘۔ اسی سے عوام کے اندر آزادی، عزت نفس اور اتحاد کے ذریعے انسانی حیات کی فلاح، خوشی اور حکم رانی میں بہتری کا مقصد حاصل کرنا ممکن ہوتا ہے۔ حکومت سے سوال کرنا صرف میڈیا کا نہیں بلکہ اپوزیشن کا بھی فرض ہے۔ اگر یہ کام انجام نہ دیا جائے تو وہ مطلق العنان، آمریت پاور کچھ بھی ہوسکتی ہے لیکن معروف معنی میں مطلوبہ جمہوریت ہرگز نہیں ہوسکتی۔
بھلے ہی علامہ اقبالؒ نے اس طرز حکومت کے کھوکھلے پن کی تعبیر کرتے ہوئے پچھلی صدی میں کہہ دیا تھا کہ اس میں ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘ لیکن گنتی ہو جانے کے بعد اپوزیشن اپنے کردار کے ذریعے اپنا وزن منوا سکتی ہے اور اقتدار کی خامیوں و غلطیوں پر لگام بھی لگا سکتی ہے۔
جاریہ پارلیمانی اجلاس میں تعطل کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے حکومت اپنے این ڈی اے حلیفوں کے ساتھ مل کر اپوزیشن کو بے وزن اور ایوان میں بے آواز کرنے پر تل گئی ہے۔ دوسری جانب لوک سبھا انتخابات کے فوری بعد جس بلا کا اعتماد اور اتحاد و اشتراک ’انڈیا‘ بلاک اپوزیشن میں نظر آرہا تھا وہ اب باقی نہیں رہا۔ حکومت پر حاوی ہونے اور اس کو گھیرنے والی حکمت عملی اس اجلاس میں کیوں غائب ہے؟ کیا ہریانہ اور مہاراشٹر کے انتخابی نتائج نے اس کو حواس باختہ کر دیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ بھی عوام کے منشا کے مطابق نہیں کہا جا سکتا۔ کم و بیش چھبیس سیاسی جماعتوں کی نمائندگی پر مبنی انڈیا اتحاد جب بنا تھا تو بہت جوش و جذبہ دکھائی دیا تھا اور مشترکہ ایجنڈے کی بات بھی کی گئی تھی لیکن دسمبر 2024 کے آتے آتے کیرالا، پنجاب، مغربی بنگال، دلی اور مہاراشٹر بلکہ آسام میں بھی اس میں دراڑیں پڑتی ہوئی دکھائی دینے لگی ہیں۔ حکم راں این ڈی اے گروپ اس صورت حال کا فائدہ نہ اٹھاتا تو تعجب ہوتا۔ ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا اور شرد پوار کی این سی پی کے ساتھ کانگریس نے جو تال میل دکھایا اسے بحیرہ عرب میں کیوں بہا دیا جا رہا ہے۔ اس سوال کا جواب صرف ای وی ایم پر ٹھیکرا پھوڑ کر تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ جھارکھنڈ میں جے ایم ایم نے دوبارہ تخت نشین کروایا اور مہاراشٹر میں من پسند نتیجہ نہیں آیا تو دونوں جگہ الگ الگ رد عمل نے اپوزیشن بلاک کے اخلاقی موقف کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال اور ٹی ایم سی کی ممتا بنرجی نے اپنے اپنے علاقائی گڑھ کو بچانے کے لیے اس قومی اتحاد کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کیا۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کی لائن سے بالکل الگ آواز میں مہاراشٹر کی اکائی سے آواز دی گئی تو ادتیہ ٹھاکرے کو کہنا پڑا کہ شیوسینا نے ہندتوا کو ترک نہیں کیا تھا البتہ ان کا ہندتوا نظریہ رام اور کام دونوں کی بات کرتا ہے لیکن یو پی اور مہاراشٹر میں سماج وادی پارٹی کو انڈیا بلاک کے بارے میں جداگانہ موقف سے باز رہنا ہوگا۔ ممتا بنرجی کی خواہش ابھر آئی کہ وہ انڈیا بلاک کی قیادت کرنے کی آرزو مند ہیں تو شرد پوار کی بیٹی سپریا سولے سے لے کر شیوسینا کے سنجے راوت تک ان کی لائن سے خود کو قریب کرلیا اور ایسا کرتے وقت قومی اپوزیشن بلاک کو پہنچنے والے نقصان کا کوئی خیال نہ کیا۔
ادھر ایوان پارلیمنٹ میں برسر اقتدار بی جے پی نے کمزور پر وار کرنے کی حکمت عملی کو جاری رکھا اور اپنے اتحادیوں کی پشت پناہی بھی جاری رکھی۔ نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار کے تقریباً ایک ہزار کروڑ روییوں کی آئی ٹی محکمہ کی ضبطی کو معاف کر دیا گیا ہے اور متعدد مساجد و درگاہوں کی کھدائی کی آڑ میں کارپوریٹ طبقے کے کرپشن اور منی پور میں ڈیڑھ سال سے جاری نفرت، عداوت اور خوں ریزی کی داستان کی بڑی چابک دستی سے پردہ پوشی کی جا رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں اڈانی کے مبینہ گھوٹالوں پر سماج وادی پارٹی اور این سی پی سمیت بعض دیگر حلیفوں نے کانگریس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ ہر ریاست میں اپنے اپنے گھروں کو بچانے کی فراق میں رہے گی تو منی پور میں جلتے ہوئے گھروں کی تپش دلی تک لے جانے میں اپوزیشن بھلا کیوں کر کامیاب ہو سکے گی؟ کہنے کو تو منی پور کانگریس پارٹی نے نو نومبر کو دلی کے جنتر منتر پہنچ کر اپنے پھٹے ہوئے دامن کو منظر پر لے آنے کی اپنی سی کوشش کی تھی لیکن کیا وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ کی کرسی تک اس کی ہلکی سی آنچ بھی پہنچ سکے گی؟
سماجی اور حقوق انسانی کے جہد کاروں کی بڑی فوج اور سوشل میڈیا کے غیر جانب دار کارکنان نے بھارت کی جمہوریت کو بچانے کے لیے انڈیا بلاک کی آواز میں اپنی آواز ملا کر انصاف پسندی کا مظاہرہ تو کیا ہے لیکن بڑی پارٹی ہونے کے ناطے کانگریس کے کردار کو پر اثر، ہمہ گیر اور کارگر بنانے کا کام نہ کوئی باہر والا انجام دے سکتا ہے نہ ملک کی خود غرضی پر مبنی سیاست پر ووٹروں کا کوئی دباو بعد از انتخابات قائم رہ پاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ آئین جمہوریت اور حق و انصاف کو بچائے رکھنے کے قول اور سیاست دانوں کے عمل میں تفاوت کم نہیں ہو رہا ہے۔ اب عوام کو حکومت سے سوال کرنے، ان حکم رانوں اور تمام سیاست دانوں پر لگام کسنے کی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ جیسا کہ ضلع شولا پور کے مارگڈواڈی گاوں نے نجی ریپلنگ کا عمل کرنے کی تیاری کر کے دکھا دیا کہ وہ اپنی آواز کو بلند کرنے کے لیے نت نئے انداز خود تلاش کرتے رہیں گے۔
بھارت کے اس جمہور کی ایک قابل لحاظ تعداد ہم مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ملک کا ہر چھٹا فرد عوام کے شانہ بہ شانہ نظر آنا چاہے۔ اپنی شناخت کو نقصان پہنچائے بغیر توکل، دانائی اور ایمانی فراست کو ساتھ میں لے کر ہمیں ملک کی تقدیر کے فیصلے میں خود کو شامل کرنا ہو گا، اس کے علاوہ علیحدہ علیحدہ کوششوں کے ساتھ قومی اور ملکی امور پر باہم اشتراک و تعاون اور مشاورت پر مبنی کام انجام دینے ہوں گے۔ دعوتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ قوم و ملک کے امور و مسائل کے حل میں خود کی بات شامل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ دیر پا کام کے لیے آزمائشوں سے مقابلہ کرتے ہوئے خود اپنی کمر کسنے کے لیے ہمیں تیار رہنا ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ انہی کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے جو اس کی راہ میں اپنی کمر کسنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔