اداریہ

علم بردارانِ انصاف پر عتاب، ستم گروں پر مہربانی

ملک میں حالیہ برسوں کے دوران ایسے افراد، اداروں اور تنظیموں کو ریاستی جبر، انتقامی کارروائیوں اور غیر قانونی ہتھکنڈوں کا مسلسل سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو شہری حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں یا حکومت کی غلط کاریوں یا اس کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ کا یہ طرزِ عمل نہ صرف جمہوریت کی بنیادی روح کے خلاف ہے بلکہ شہری آزادیوں کو ختم کرنے کے خطرناک رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔
ان دنوں حکومت کی زیادتیوں کے خلاف کھڑے ہونے والے جہد کاروں کو عام طور پر ملک دشمنی یا دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں آلٹ نیوز کے محمد زبیر کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے جس میں انہیں ملک کی سالمیت کے لیے خطر ہ قرار دیا گیا ہے۔ زبیر نے آلٹ نیوز پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں یتی نرسنگھا نند کی نفرت پر مبنی تقریر دکھائی گئی تھی۔ ابھی حال ہی میں اے پی سی آر کے جنرل سکریٹری ندیم خان کے خلاف محض اس لیے ایف آئی آر درج کر کے انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے کہ وہ ہجومی تشدد میں مارے جانے والے مسلمانوں کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے پائے گئے تھے۔ انصاف دلانے والوں کے خلاف حکومتی عتاب کا یہ سلسلہ کافی دنوں سے جاری ہے۔ اس سے قبل بھیما کورے گاؤں کیس میں انسانی حقوق کے کئی کارکنوں کو دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا گیا، جن میں سدھا بھاردواج، آنند تیل تمبڈے، ورورا راو اور دیگر شامل ہیں۔ان پر الزام تھا کہ انہوں نے حکومت کے خلاف سازش کی، حالانکہ یہ سب سماجی انصاف کے لیے کام کرنے والے لوگ تھے۔ یہ تمام گرفتاریاں ایسے الزامات کے تحت کی گئیں جن کے ثبوت ناقابلِ اعتبار اور متنازعہ تھے۔ اس طرح ملک میں سماجی انصاف کے لیے کام کرنے والوں کو اکثر قانون کے نام پر ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔
2020 کے دہلی فسادات کے بعد بھی ان افراد کو نشانہ بنایا گیا جو امن و انصاف کے لیے کام کر رہے تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی (JNU) کے طلبہ لیڈروں، صفورا زرگر، عمر خالد، عشرت جہاں اور آصف اقبال تنہا پر فسادات بھڑکانے کے الزامات لگائے گئے، جبکہ اصل مجرموں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ان میں کئی لوگ آج بھی بغیر کسی عدالتی کارروائی کے جیلوں میں بند ہیں۔
افراد ہی نہیں بلکہ شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کا دائرہ بھی مسلسل تنگ کیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور گرین پیس جیسی تنظیموں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ انسانی حقوق کے معاملات پر آواز بلند کرنے کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل کو مالیاتی ضوابط کی خلاف ورزی کے جھوٹے الزامات کے تحت بھارت میں اپنا دفتر بند کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ایف سی آر اے کا بے جا استعمال کرکے بہت سی این جی اوز کو بند کر دیا گیا یا ان کی فنڈنگ روک دی گئی۔
حکومت کی بدعنوانیوں اور غلط کاریوں سے متعلق سچائیوں کو سامنے لانے والے صحافی بھی اسی طرح کی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں دھمکیاں ملتی ہیں، ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کر دیے جاتے ہیں اور میڈیا و سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کی باقاعدہ مہمات چلائی جاتی ہیں۔
یہ تمام مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہندوستان میں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد وادارے، حکومت کی خرابیوں کو سامنے لانے والے بے باک صحافی اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ حکومت کی کارروائیاں نہ صرف ان کے دائرہ کار کو تنگ کر رہی ہیں بلکہ ان سے ملک میں آزادی کے بعد سے رائج جمہوری آزادیاں اور آئینی اقدار بھی خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
ہندوستان میں جمہوری نظام کے تحت عدل و انصاف، سماجی مساوات اور انسانی حقوق کی پاسداری کا وعدہ آئینِ ہند کی بنیادوں میں شامل ہے۔ لیکن آج انہی اصولوں کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، خاص طور پر جب حکومت کے زیر انتظام ادارے، جن میں پولیس بھی شامل ہے، انصاف کے علم برداروں کو نشانہ بناتے ہیں اور نفرت پھیلانے والوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ کیوں کہ ملک میں حکومت کی جانب سے ایک طرف انصاف کے علم برداروں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف نفرت اور فرقہ واریت پھیلانے والوں کے لیے نرمی اور شفقت کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔
کئی ایسے سیاست داں ہیں جو کھلے عام اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیتے ہیں لیکن حکومت ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔ گولی مارو۔۔۔۔ جیسے انسانیت سوز نعرے لگانے والوں کو ہاتھ بھی نہیں لگاتی۔ مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر وزراء کھلے عام مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں لیکن ان کے خلاف نہ تو کوئی تحقیقات ہوتی ہیں اور نہ ہی کوئی قانونی کارروائی ہوتی ہے۔ حکومت میں شامل افراد با قاعدہ طور پر ان اجتماعات میں شامل ہوتے ہیں جہاں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیں۔ ان میں کھلے عام مسلمانوں کے خلاف قتل عام کی اپیلیں کی گئیں لیکن حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ گو رکھشا کے نام پر قتل و غارت گری کرنے والوں کو کئی بار نہ صرف بری کر دیا گیا بلکہ انہیں ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا، انہیں حکومتی نمائندوں کی بھی حمایت حاصل رہی۔
نفرت کا زہر پھیلانے والوں پر حکومت کی کرم فرمائیاں اور ان کے خلاف کارروائی نہ کرنا ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے ذریعے اقتدار کو مستحکم کرنا ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے بلکہ سماجی تانے بانے کے لیے بھی خطرناک ہے۔ یہ امتیازی رویہ صرف ایک مخصوص طبقے کے خلاف نہیں بلکہ ملک کے جمہوری ڈھانچے اور آئینی اقدار کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔اس سے قانون کی حکم رانی کی کیفیت کمزور ہوتی ہے اور پورے نظام پر سے عوام کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر بھارت کو عالمی سطح پر تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو ملک کے لیے نہ صرف بدنامی کا باعث ہے بلکہ اس کی ترقی میں رکاوٹ بھی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اس نفرت انگیز سیاست کو سمجھیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لیے متحد ہو جائیں تاکہ ہندوستان کی جمہوری اقدار اور سماجی یکجہتی کا تحفظ ممکن ہو۔ہندوستان کی موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر شہری آئین کے تحفظ اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
حکومت کی جانب سے انصاف کے علم برداروں کو دبانے اور نفرت پھیلانے والوں کو تحفظ دینے کا عمل صرف سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے ہے، جو طویل مدت میں نہ صرف سماج بلکہ خود حکومت کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے عوام کو متحد ہو کر حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ہمارا ملک ایک حقیقی جمہوری ملک کی حیثیت سے باقی رہ سکے۔