سنبھل کی تاریخی شاہی مسجد کے حالیہ سروے، اور سروے کے دوران ہندووں کی جانب سے اشتعال انگیز نعرے اور اس کے بعد مسلمانوں کے احتجاج اور ان پر پولیس کی یک طرفہ اور غیر منصفانہ کارروائی نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو سخت مجروح کیا ہے اور ساتھ ہی ملکی آئین کی روح اور ملک کی مذہبی رواداری کی روایات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اس تنازعہ کے سبب عبادت گاہوں کے قانون 1991 کے تحت عبادت گاہوں کی حفاظت کے ضوابط ایک بار پھر زیر بحث آگئے ہیں۔ اس واقعے کی سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ سروے کے ایک سرکاری کام کے دوران ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نہایت اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے اور ان کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی پوری کوشش کی گئی جس کے بعد مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ اس احتجاج کو پُر امن انداز سے ختم کرنے کے بجائے حکومت نے اپنے اکثریت کے گھمنڈ میں ہمیشہ کی طرح طاقت کا نہایت غلط استعمال کیا۔ اس پُر تشدد کارروائی کے دوران اب تک کی اطلاعات کے مطابق چھ افراد کی جانیں گئی ہیں۔ چنانچہ اس پورے واقعے کو تاریخی، قانونی اور سماجی تناظر میں دیکھنا بہت ضروری ہے۔
بھارت اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے، یہاں مختلف مذاہب امن و محبت اور بھائی چارگی کی فضاء میں پھلتے پھولتے رہے ہیں۔ لوگ اپنی مرضی و خوشی سے اپنا مذہب بدلتے بھی رہے اور مذہب کے بدلنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی عبادت گاہیں بھی ان کی مرضی سے تبدیل ہوتی رہیں اور اس معاملے میں کبھی کسی جبر اور زبردستی کا کوئی کردار نہیں رہا۔ اگر کہیں ایک آدھ مثال اس کے برعکس بھی رہی ہو تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات ختم ہوتے گئے اور یہاں رہنے والے مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے۔ لیکن ملک میں نفرت کا پجاری ایک طبقہ مستقل طور پر اس تاریخی حقیقت کو جھٹلا کر مسلم دورِ حکومت کو نشانہ بناتا رہا ہے۔بابری مسجد کے طویل تنازعہ کے بعد ملک میں ایک قانون منظور کیا گیا تھا جسے ہم پلیسس آف ورشپ ایکٹ 1991 کے نام سے جانتے ہیں۔
پلیسس آف ورشپ ایکٹ 1991 کا نفاذ اس وقت کیا گیا تھا جب ملک میں مذہبی ہم آہنگی شدید خطرے میں آ گئی تھی۔ اس قانون کا مقصد یہ تھا کہ عبادت گاہوں کی 15 اگست 1947 کی حیثیت کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے تاکہ مستقبل میں کہیں بھی مذہبی مقامات کو سیاسی یا مذہبی تنازعات کا شکار نہ بنایا جا سکے۔ یہ قانون واضح طور پر عبادت گاہوں کی حیثیت میں تبدیلی یا ان پر ملکیت کا دعویٰ کرنے یا ان کے بارے میں تنازعات کو ہوا دینے کی کسی بھی کوشش کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ لیکن بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس طرح کے واقعات کا سلسلہ دوبارہ چل پڑا ہے۔
گزشتہ دنوں سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے ذریعہ اسی طرح کے ایک معاملے کو جس طرح نمٹایا گیا ہے، اس نے عدلیہ کی غیر جانب داری پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اگر سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ نے پلیسس آف ورشپ ایکٹ 1991 کا حوالہ دے کر سروے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہوتا تو یہ تنازع ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا۔ لیکن بعض عدالتی فیصلوں نے نہ صرف موجودہ تنازع کو بڑھاوا دیا بلکہ نچلی عدالتوں کے لیے ایک خطرناک مثال فراہم کی۔
یہ سوال بھی بار بار اٹھتا رہا ہے کہ مذہبی مقامات کا سروے صرف مغل یا مسلم دور کی مساجد تک ہی محدود کیوں ہو؟ اگر تاریخ کو کھنگالنا ضروری ہے تو پشپ مترا سنگھ کے دور سے لے کر جدید دور تک سبھی مذہبی مقامات کا سروے کیوں نہیں کیا جاتا؟
بدھ مت کی کتابیں جیسے "دیویہ آوادان” اور "اشوک آوادان” اس بات کے ثبوت پیش کرتی ہیں کہ پشپ مترا سنگھ کے دور میں ہزاروں بدھ اسٹوپ اور مٹھ تباہ کر دیے گئے اور ان کی جگہ ہندو مندر تعمیر کیے گئے۔ بھارت میں جنم لینے والا بدھ مت جو دنیا کا ایک بڑا مذہب ہے، اس کے پیروکار آج ہمارے ملک میں محض ایک فیصد سے بھی کم کیوں ہیں؟ اسی طرح جین مذہب جو کسی دور میں بھارت کا ایک اہم مذہب تھا، آج صرف 0.72 فیصد آبادی کے ساتھ محدود کیوں ہو چکا ہے؟
بنیادی طور پر مذہبی منافرت کے موجودہ علم بردار اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے تاریخ کو مسخ کر رہے ہیں اور ایسے معاملات کو دانستہ طور پر اٹھاتے ہیں جو سماج کو تقسیم کرتے ہیں۔ یہ سارے واقعات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں کس طرح اس منافرت کے ایجنڈے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ اسی صورت حال سے ملک کو بچانے کے لیے مذکورہ قانون بنایا گیا تھا تاکہ مستقبل میں کسی کو بھی تاریخی مواد کو آگ لگا کر اس کی آنچ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کا موقع نہ ملے۔ لیکن کیا کِیا جائے کہ خود حکومت اور عدلیہ نے اس قانون کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔
سنبھل کی شاہی مسجد کے سروے کے دوران اشتعال انگیز نعرے واضح طور پر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے اور شہر میں کشیدہ ماحول پیدا کرنے کے لیے لگائے گئے تھے۔ لیکن جب مسلمانوں نے پُر امن احتجاج کے ذریعے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تو انہیں پولیس کی گولیوں، گرفتاریوں اور ظلم و تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجے میں احتجاج کے دوران چار مسلمانوں کی شہادت ہو گئی۔ یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ حکومت نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو نظر انداز کر رہی ہے بلکہ ان کے جمہوری حقوق کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
سنبھل کی شاہی مسجد کے سروے سے پیدا ہونے والے تنازعہ نے نہ صرف مسلمانوں کے حقوق پر حملہ کیا ہے بلکہ ملک کے آئینی اصولوں اور سیکولر شناخت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے تنازعات کا حل صرف اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنی تاریخ کو منصفانہ اور وسیع النظری سے دیکھیں اور تمام مذاہب کے حقوق کا احترام کرنا سیکھیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہر قسم کی سیاسی اور مذہبی منافرت کو ترک کر کے ایک ایسے سماج کی تشکیل کی جائے جو انصاف، مساوات اور ہم آہنگی پر مبنی ہو۔