مرکزی حکومت نے ماہ اکتوبر میں قومی صحت اکاؤنٹ (NHA) کا ایک جائزہ جاری کیا ہے۔ سنہ 2020 تا 2022 کے دوران وزارت صحت و خاندانی بہبود کی اس رپورٹ میں دعوے کیے گئے ہیں کہ حکومت نے ہر شہری کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ 2014 میں جی ڈی پی کا ایک اعشاریہ 13 فیصد خرچ ہوتا تھا جو 2022 میں 1.84 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ حکومت نے عمومی سرکاری اخرجات (GGE) میں اسی مدت میں 3.94 فیصد سے 6.12 فیصد تک کا اضافہ کیا ہے۔ کورونا وبا میں پیدا شدہ چیلنج سے نمٹنے کے لیے 37 فیصد زیادہ رقومات محکمہ صحت کو ملی ہیں۔ سرکاری صحت کے اخراجات (GHE) میں مرکزی حکومت کا حصہ 41.8 فیصد اور ریاستوں کا حصہ 58.2 فیصد ہے جس میں نیشنل ہیلتھ مشن، فوجی طبی خدمات اور سرکاری صحت کی اسکیموں پر بھی خرچ کیا جا رہا ہے۔ کارپوریٹ، غیر سرکاری اداروں ( این جی او) اور عطیہ دہندگان کی عطیہ کی ہوئی رقومات اس کے علاوہ ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ کورونا وبا کے دوران جانچ کروانا، علاج و معالجہ، بنیادی ڈھانچہ کو مضبوط کرنا اور ویکسینیشن پروگرام جیسی سرگرمیوں میں اس اضافی بجٹ سے مدد ملی ہے۔
حال میں وزیر اعظم نے ’’آیوشمان بھارت‘‘ کے نام سے صحت انشورنس کے تحت قریب دس کروڑ غریب خاندانوں کے لیے فی خاندان پانچ لاکھ روپے کا بیمہ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سینئر سٹیزن کے زمرے میں مفت علاج کے لیے خصوصی صحت کارڈ جاری کرنا بھی اسی کا حصہ ہے۔ پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (PM-JAY) کو دنیا میں سب سے بڑی اسکیم بتایا جا رہا ہے جس کے تحت مریض کو مفت علاج کی سہولت حاصل ہے۔ ایک فلاحی ریاست و مملکت میں شہریوں کی حفاظت اور تعلیم و روزگار کے ساتھ ساتھ شہریوں کی صحت کی دیکھ بھال حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا مذکورہ اقدامات لائق ستائش ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ترقی یافتہ کے علاوہ ترقی پذیر ممالک بھی صحت و طبی اخراجات میں ہم سے بہت آگے ہیں۔
جیسا کہ ہوتا آیا ہے، سرکاری اسکیمیں، فنڈز اور اس کے نفاذ تک آتے آتے ہر مرحلے میں دم توڑ رہی ہوتی ہیں۔ ہر PHC اور کوئی بھی سرکاری ہسپتال اگر واقعی اتنا اچھا ہوتا تو نجی ہسپتالوں کا جال ملک میں یوں نہ پھیلتا اور فائیو اسٹار کارپوریٹ ہسپتالوں کی یوں چاندی نہ ہو رہی ہوتی۔ آئے دن اخبارات اور چینلوں سے طب و صحت کی ناقص کارکردگی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ آئے دن ہسپتالوں میں بل نہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے مریضوں کو دھکے دے کر باہر نکال دینے اور آٹو رکشاؤں میں، سڑکوں پر بلکہ ہسپتال کی سیڑھیوں پر زچگی ہونے کی خبریں روز کا معمول بن چکی ہیں۔
تازہ ترین واقعہ یو پی کے شہر جھانسی کے ہسپتال کا ہے جو انتہائی دردناک ہونے کے ساتھ ساتھ شرم ناک بھی ہے جہاں دو سے پندرہ دنوں تک کی عمروں کے معصوم نو زائیدہ بچے NICU وارڈ میں جل کر راکھ ہوگئے۔ متعدد بچے شدید جھلس گئے۔ میڈیا نے بتایا کہ رات کی واردات کے دس بارہ گھنٹوں کے بعد بھی کئی ماؤں کو یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ان کے بچے زندہ ہیں بھی یا نہیں؟ وزیر اعلیٰ یوگی نے اگلے دن ایک ریلی میں دعویٰ کر ڈالا کہ محکمۂ صحت، پولیس اور حکومت کے عملے نے باقی بچوں کی جانیں بچائی ہیں لیکن میڈیا رپورٹوں نے ان کو پہلے ہی آئینہ دکھا دیا تھا کہ محمد یعقوب منصوری اور پشپیندر یادو جیسے بہادر کس طرح کھڑکیاں توڑ کر بچوں کی جانیں بچا رہے تھے۔
اور وہاں کسی کی مدد تو درکنار خود ہسپتال کا اسٹاف انہیں روک رہا تھا۔ سب سے دردک ناک پہلو تو یہ ہے کہ یعقوب منصوری دیگر افراد کی مدد کرتے رہے لیکن خود اپنی جڑاوں بیٹیوں کی جان بچا نہیں سکے۔ میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا پر بھی یعقوب منصوری کی بہادری اور جاں نثاری کے جذبے کی ستائش ہو رہی ہے لیکن ایوان اقتدار میں اس کا تذکرہ تک نہیں ہوا۔ بتا دیں کہ اسی نوعیت کے ایک معاملے میں مدھیہ پردیش کے سڑک حادثے میں ایک ہی خاندان کے سات افراد کی جان بچانے کے لیے بہادر وارث خان کو وزیر اعلیٰ نے ایک لاکھ روپے نقد انعام کا اعلان کیا تھا اور 15 اگست کو انہیں اعزاز عطا کرنے کی راج گڑھ کے کلکٹر کو ہدایت بھی جاری کی تھی۔
ٹھیک دس ماہ قبل جھانسی کے اس سرکاری ہسپتال کی سرکاری میڈیا میں خوب پذیرائی ہوئی تھی کہ وہاں اتر پردیش کی حکومت نے اب عالمی پیمانے کی طبی سہولیات مہیا کرائی ہیں۔ لیکن اب قلعی کھلی کہ آگ بجھانے والے آلات تک پرانے تھے، آگ لگنے پر بجنے والا الارم بھی کام نہیں کر رہا تھا، نائٹ شفٹ کے ڈاکٹروں اور نرسوں کے عملے ندارد ہیں ورنہ سسٹم چاق و چوبند رہتا تو یہ حادثہ ہی نہ ہوتا یا کم از کم انسانی جانوں کو بچانے کا کام آسان ہو جاتا۔
یہاں سوالات تو کئی ہیں۔ اس سے قبل وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے حلقے گورکھ پور میں واقع ایک بڑے ہسپتال میں آکسیجن سلنڈر بر وقت فراہم نہ ہونے سے متعدد بچے ہلاک ہوگئے تھے تب اپنی جیب سے سلنڈر کا انتظام کرنے والے ڈاکٹر کفیل خان پر الٹے مقدمے عائد کرکے انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا تھا اور حادثے کے اصلی مجرمین کی اعلیٰ سطح پر پشت پناہی کی گئی تھی۔ اس بار جھانسی ہسپتال کے سانحے میں جانچ کمیٹیوں اور چند لاکھ روپیوں کے معاوضے کی لیپا پوتی وقتی طور پر تو ہوئی ہے لیکن ابتدائی جانچ رپورٹ نے صاف کر دیا ہے کہ ایک درجن جانوں کی ہلاکتوں کے معاملے میں کوئی لاپروائی نہیں ہوئی ہے۔ مہارانی لکشمی بائی میڈیکل کالج حادثے کی مزید دو جانچ کمیٹیوں کی رپورٹوں کا ہنوز انتظار ہے۔ حالانکہ اس سے قبل اتر پردیش اور ملک کی دیگر ریاستوں میں پیش آنے والے کسی بھی سانحے کی جانچ رپورٹوں کے بعد کبھی کسی خاطی کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوئی خبر پڑھنے میں نہیں آئی۔
انتظامیہ اور سرکاری عملے کو جب اطمینان ہو کہ ان کی نا اہلی یا لاپروائیوں پر بھی کوئی کارروائی ان کے خلاف نہیں ہو گی، جب وزیروں اور عوامی نمائندوں کو یقین ہو کہ عوام کی جان و مال کے نقصان کے لیے ان کو ذمہ دار نہیں ٹھیرایا جائے گا تو ان کے اندر احساسِ جواب دہی کیوں کر پیدا ہوسکتا ہے؟ کیا اس سنگین واقعے کے بعد وزیر صحت کو استعفیٰ نہیں دے دینا چاہیے تھا؟
سیاست دانوں کی کھال اتنی موٹی ہو گئی ہے کہ بڑے سے بڑے حادثات بھی ان کو متاثر نہیں کر رہے ہیں۔ ان واقعات میں جو بات قدرِ مشترک ہے وہ یہی ہے کہ کسی کی جواب دہی یا تو طے ہی نہیں ہوتی یا کچھ کارروائی ہوتی بھی ہے تو وہ ذات یا مذہب کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ جب تک عوام تعصب، نفرت اور کسی غیر حقیقی موضوع پر سیاست دانوں کی اندھا دھند حمایت کرتے رہیں گے انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
معاملہ اخلاقی بدعنوانی کا بھی ہے۔ مالی بدعنوانی ہر زمانے اور ہر محکمے میں ہوتی رہی ہے لیکن پچھلے کچھ برسوں میں جو اخلاقی دیوالیہ پن عام ہوگیا ہے، مذہبی اور ذات پات کے تعصب نے اندھا بنا دیا ہے تو سرکاری اسکیموں کے لیے کھوکھلے اعلانات تو ہوتے رہیں گے۔ میڈیا میں حکم رانوں کی شبیہ بگڑنے سے بچانے کے لیے ’’ہیڈ لائن مینجمنٹ‘‘ کام چابکدستی کے ساتھ ہوتا رہے گا لیکن عوام کو وہ ایک فلاحی و رفاہی ریاست فراہم کرنے کے علاوہ باقی سب کچھ کرتے رہیں گے۔ کاش کہ خیر امت، خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس دلانے کے کام میں مزید تیز گام ہوجائے جو حکم رانوں کو قیامت کے دن خدا کے سامنے کھڑے ہونے کا احساس کرانے کا کام بھی انجام دیں۔ ہر بیماری کا علاج اسی میں پنہاں ہے۔