میڈیا جمہوری معاشرے کاایک بنیادی ستون اور اس کا پاسبان ہوتا ہے، لیکن اگر یہی ادارہ حکومتی اثر و رسوخ، سیاست دانوں کے ذاتی ایجنڈوں اور کاروباری مفادات کے تابع ہو جائے تو جمہوریت کو بری طرح کھوکھلا بھی کر دیتا ہے۔ اس وقت تو عالمی سطح پر بھی میڈیا کی ساکھ بری طرح زوال پذیر ہے۔ یہی میڈیا جو کبھی سچائی اور انصاف کا علم بردار سمجھا جاتا تھا اب متنازعہ خبروں، سیاسی مفادات کے تابع پروپیگنڈوں اور معاشرتی تعصبات کو فروغ دینے جیسے الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔ حالیہ امریکی انتخابات کے بعد وہاں کا میڈیا بھی بڑی تیزی سے عوام کا اعتماد کھو رہا ہے۔ یہ صورت حال عالمی جمہوریت اور آزاد صحافت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ ہمارے ملک میں بھی پچھلے کچھ عرصے سے یہ بات واضح طور پر دیکھی کی جا رہی ہے کہ یہاں کا مرکزی اور مین اسٹریم میڈیا جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کے ذریعے سماج میں انتشار و تفرقہ پیدا کرنے کا کام انجام دے رہا ہے اور بطور خاص مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی اور منفی پروپیگنڈے کے ذریعے انہیں نشانہ بنانے میں مصروف ہے دوسری طرف حکومت اور سیاسی اشرافیہ بھی اس تباہ کن بیانیے کو فروغ دینے میں برابر کے شریک ہیں۔ ان حالات میں حکومت اور سیاست دانوں کا منفی کردار نہ صرف مسلم مخالف پروپیگنڈے کو فروغ دے کر اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہا ہے بلکہ ملکی جمہوریت اور سیکولرازم کے اصولوں کی بنیادیں بھی ہلا رہا ہے۔
اس معاملے میں ہماری موجودہ حکومت نے جس بے حسی اور بے شرمی کا مظاہرہ کیا ہے وہ نہایت افسوسناک ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اقتدار میں رہنے والے افراد اپنے سیاسی فائدے کے لیے فرقہ وارانہ تقسیم کو فروغ دے کر اپنی انتخابی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ان نفرت انگیز مہمات کو نہ صرف نظر انداز کرتے ہیں بلکہ ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ آزادی صحافت کے تصور کا منافقانہ استعمال کرتے ہیں۔ آزادی صحافت کا مطلب یقیناً ایک آزاد اور غیر جانب دار میڈیا ہے جو عوامی فلاح کے لیے کام کرتا ہے۔ لیکن حکومت نے اس اصول کو مسخ کر کے اسے اپنی کٹھ پتلی بنا دیا ہے۔ حکومت آزاد میڈیا کے تصور کا منافقانہ استعمال کرتی ہے۔ جب ان کے حق میں بات ہو تو اسے آزادی صحافت کہا جاتا ہے، لیکن اگر وہ حکومت کے خلاف سوال اٹھائے تو اسے دھمکیاں دی جاتی ہیں، اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے، اور اشتہارات کے بجٹ کو کنٹرول کر کے اسے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ اس دوغلے پن کے سبب آزادی صحافت کا اصل مفہوم ہی بے معنی ہو چکا ہے۔اور اب تو "گودی میڈیا” بھارتی سیاست دانوں کی قدموں میں جھکا ہوا ایک شرمناک ادارہ بن چکا ہے، جس کا کام حکومتی پروپیگنڈے کو فروغ دینا اور اقلیتوں کے خلاف تعصبات کو ہوا دینا ہے۔ گودی میڈیا نہ صرف سرکاری ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے بلکہ اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو مجرم اور دہشت گرد بنا کر پیش کرتا ہے۔ یہ ادارے آزادی صحافت کی توہین ہیں جو غیر جانب دارانہ کوریج کو چھوڑ کر حکومت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
اس پوری صورت حال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس وقت حکومت اور میڈیا کے درمیان ایک بدعنوان گٹھ جوڑ قائم ہو چکا ہے، جو اقلیتوں کو فرقہ وارانہ منافرت کا نشانہ بنا کر اپنے مقاصد پورے کر رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں میڈیا کے ذریعے اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو تقویت دیتی ہیں اور انہیں قانونی کارروائی سے بچانے کے لیے پشت پناہی فراہم کرتی ہیں۔
ملک کے نیوز چینلوں کے بعد عوامی ذرائع ابلاغ کا ایک اور طاقت ور وسیلہ بھی اسی رخ پر آگے بڑھ رہا ہے۔ بالی ووڈ فلم انڈسٹری، جس کا اثر بھارت اور دنیا بھر میں نہایت گہرا ہے، پچھلے کچھ برسوں سے یہ بھی اپنی بعض فلموں کے ذریعے مسلمانوں کے کردار کی غلط عکاسی میں مصروف ہے۔ فلمیں عوامی رائے اور سوچ کو تشکیل دینے میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بالی ووڈ کی فلموں میں مسلمانوں کو شدت پسند، دہشت گرد اور ملک دشمن کرداروں میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ عکاسی نہ صرف واقعاتی اعتبار سے غلط ہے بلکہ سماج میں فرقہ ورانہ تعصب کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔
اس سلسلے کی تازہ ترین خبریہ ہے کہ اسی ماہ یعنی نومبر کی 15 تاریخ کو "میچ فکسنگ- دی نیشن ایز ایٹ اسٹیک” کے نام سے ایک نئی فلم ریلیز ہونے والی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس کا موضوع مالیگاوں بم دھماکہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس فلم میں بھی اس نوعیت کی دوسری فلموں کی طرح بے بنیاد باتوں کے ذریعے مسلمانوں کی عکاسی انتہائی منفی اور غلط انداز سے کی گئی ہے۔ فلم کے ٹریلر ہی میں ایسے کئی مکالمے اور مناظر موجود ہیں جو انتہائی جھوٹ پر مبنی اور نہایت ہی بے بنیاد ہیں۔ مختلف افراد اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر یہ فلم ریلیز ہوگئی تو اس کی وجہ سے عوام کے درمیان نفرت اور دوری میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگرچہ بامبے ہائی کورٹ میں اس کی ریلیز پر پابندی عائد کرنے کے لیے عرضی دائر کردی گئی ہے اور عدالت نے اس عرضی کو سنوائی کے لیے قبول بھی کرلیا ہے۔ اس مقدمے کا فیصلہ جو بھی ہو لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایک جمہوری اور کثیر ثقافتی و کثیر مذہبی ملک میں عوامی ذرائع ابلاغ کے ان پلیٹ فارموں کو نفرت اور جعلی پروپیگنڈے کے ایک اوزار کے طور پر اس طرح استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ دی جا سکتی ہے؟ اور کیا اس طرح کی بے ہودگیاں ہمارے ملک میں اسی طرح جاری رہیں گی؟ درحقیت اس معاملے میں حکومت اور سیاست دانوں کی بے عملی نے ملک کو ایسے بحران میں مبتلا کر دیا ہے جس کے نتائج انتہائی دور رس اور سنگین برآمد ہوں گے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اور میڈیا دونوں کو ان کے غیر جمہوری کرداروں پر جواب دہ بنایا جائے۔ یہ کام عوام کی طاقت ہی کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ اب اس دوغلی پالیسی کا خاتمہ کیا جانا چاہیے جس کے تحت حکومت اپنی مرضی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے میڈیا کا استعمال کرتی ہے اور خود ان کے خلاف اٹھنے والی آوازوں اور اقلیتوں اور مظلوموں کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو آہنی پنچوں سے دبا دیا جاتا ہے۔ عوام کو اب اس بگڑے ہوئے اور جھوٹ و نفرت پر قائم میڈیا پر اپنا انحصار کم کرنا چاہیے اور متبادل ذرائع سے حقائق کی تلاش کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر جو متبادل ذرائع ابلاغ فروغ پا رہے ہیں انہیں ان کی سرپرستی کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیے کہ گودی میڈیا کا بائیکاٹ کریں اور حقیقی جمہوری اصولوں کے مطابق آزاد میڈیا کا مطالبہ کریں۔ اگر ملک کے انصاف پسند، آئین اور آئینی قدروں پر یقین رکھنے والے افراد عزم کرلیں تو وہ یہ کام آسانی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔
گذشتہ اسٹوری