اداریہ

‘بٹوگے تو کٹوگے’ نفرتی ایجنڈے کی سیاست جمہوریت کے لیے بڑا چیلنج

بھارت کی سیاست میں شاید یہ رجحان مستقل بنیادوں پر قائم ہوچکا ہے کہ ملک میں انتخابات کے قریب آتے ہی نفرت پر مبنی بیانیوں اور فرقہ وارانہ سیاست کے ایجنڈے پر عمل آوری میں تیزی آجاتی ہے۔ یہ صورت حال کم و بیش پورے ملک میں پیدا ہوچکی ہے لیکن بعض ریاستوں میں اس نفرتی ایجنڈے کا اثر زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ حالیہ دنوں میں جب سے جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوا ہے یہاں ہندو فرقہ پرست گروہ اور ان سے منسلک مختلف تنظیمیں جان بوجھ کر ایسی صورت حال پیدا کر رہی ہے جس کی وجہ سے ملک کے عوام میں فرقہ واریت اور مذہبی تقسیم کو فروغ حاصل ہو تاکہ اسی کی مدد سے وہ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کر سکیں۔انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ سماج میں پھیلنے والی اس کیفیت سے ملک کی جمہوریت، قومی یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کو کس قدر شدید نقصان پہنچتا ہے۔
بھارت کی جمہوریت کا بنیادی اصول تمام شہریوں کے مساوی حقوق اور اتحاد پر مبنی ہے، لیکن ہندو فرقہ پرست گروہوں کا عمل اس اصول کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ آج کل یہ گروہ جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں مذہبی اور فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دینے میں سرگرمی کے ساتھ مصروف ہیں۔ جھارکھنڈ میں تبدیلی مذہب جیسے حساس موضوع کو اٹھا کر وہاں کی قبائلی آبادی اور مسلم طبقے کے درمیان دوریاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح مہاراشٹر میں ہندو مسلم تفریق کو بڑھاوا دینے کے لیے روزمرہ کے عام مسائل کو فرقہ ورانہ رنگ دے کر امن و امان کو بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ان کوششوں کا واحد مقصد مسلم برادری کو نشانہ بناکر اور اکثریتی فرقے کی جذباتی حمایت حاصل کرنا ہے۔اس طرح کے منافرانہ ایجنڈے پر کام کرنے والی سیاسی جماعتیں جان بوجھ کر عوام میں نفرت پیدا کرتی ہیں تاکہ ووٹوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جا سکے۔ یہ عمل نہ صرف ملک کی جمہوریت کے خلاف ہے بلکہ اس سے عوام کو حقیقی مسائل پر غور و فکر سے بھی دور رکھا جاتا ہے۔
نفرت پر مبنی فرقہ پرستانہ ایجنڈے کے ذریعے عوام کو حقیقی مسائل سے غافل کر کے سستے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے۔ ذات پات پر مبنی مردم شماری کا موضوع ہندوستان کے عوام، بالخصوص پس ماندہ طبقات کا ایک دیرینہ مطالبہ ہے۔ موجودہ حکم راں طبقہ اپنے لیے اس مطالبہ کی مخالفت اور اس پر عمل دونوں ہی کو نقصان دہ سمجھتا ہے۔ چناں چہ ملک کی مختلف ریاستوں میں حکم راں جماعت کے مختلف لیڈر ہندو یکجہتی کے جلسے منعقد کر رہے ہیں اور عوام، بالخصوص پس ماندہ طبقات کے ذہنوں سے اس اہم مسئلے کو ہٹاکر انہیں مسلمانوں کی آبادی اور مسلمانوں کا ایک موہوم خوف پیدا کر رہے ہیں اور انہیں یہ باور کرارہے ہیں کہ وہی ان کے نجات دہندہ ہیں۔ یہ لوگ ہندو اکثریتی ووٹروں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے ہیں، جس سے عوام میں خوف، تعصب اور عدم برداشت بڑھتا ہے۔ یہ اس گروہ کا آزمودہ نسخہ ہے کہ جب بھی پس ماندہ طبقات اپنے حقوق کے لیے اٹھنے لگتے ہیں انہیں ہندو ایکتا کا نشہ پلا کر سلا دیا جاتا ہے جس کے بعد یہ فرقہ پرست طاقتیں آرام سے اپنا کام کر جاتی ہیں۔
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکم راں کی ساحری
یہ ایک تیر سے دو شکار کی مانند ہے۔ ہمارے ملک میں نام نہاد اعلیٰ ذات کے طبقات نے پس ماندہ طبقات کو ہزاروں سال سے محکوم بنا کر رکھا، انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا، ان پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھائے۔ جب بھی ان طبقات نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی انہیں مختلف مسائل میں الجھا کر، انہیں مسلمانوں کا بھوت دکھا کر اسی حالت میں واپس پہنچا دیا گیا۔ اس طرح سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق اس گروہ کے سیاسی مفادات بھی محفوظ ہوگئے اور ان کمزور طبقات پر ان کی حکومت بھی اسی طرح جاری رہی۔ عوام کو اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ صحت، تعلیم اور روزگار جیسے حقیقی مسائل پس پشت چلے جاتے ہیں۔
عوام کو اس موقع پر کافی ذہانت کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ان فرقہ پرست گروہوں سے ہوشیار رہیں جو اس وقت جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں نفرت کا بیانیہ فروغ دے رہے ہیں۔ یہ عناصر جمہوری اقدار کے خلاف کام کرتے ہیں اور بھارت کے آئینی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد محض اقتدار کا حصول ہے، چاہے اس کے لیے ملک کو سماجی تقسیم کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ایسی سیاست کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے اور عوام کو چاہیے کہ وہ ان کے خلاف آواز اٹھائیں اور ایسے سیاست دانوں کو مسترد کریں جو نفرت کو ہوا دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
طویل مدتی منصوبے کے تحت ملک کی سِول سوسائٹی اور رواداری و ہم آہنگی کے نظریات پر یقین رکھنے والے تعلیمی اداروں کو عوام میں یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ نفرت و فرقہ واریت پر مبنی یہ سیاست کس قدر بھیانک ہے اور ان گروہوں کے اصل مقاصد کیا ہیں؟ مختلف عوامی و شہری حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ ایسے واقعات کا فوری نوٹس لیں، عوام میں نفرت پھیلانے اور سماج کا امن و سکون بگاڑ کر اپنا الو سیدھا کرنے والے ان عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کریں تاکہ ملک کی سالمیت کو محفوظ رکھا جا سکے۔ میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے نفرت انگیز بیانیے کے فروغ سے گریز کرنا چاہیے تھا لیکن وہ اس وقت اسی بیانیے کا ترجمان بنا ہوا ہے اس لیے سوشل میڈیا اور اس کے وابستہ لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مین اسٹریم میڈیا کے اس زہر کا اپنی فعال کارکردگی سے تریاق کریں اور ایسے پروگرامز نشر کریں جو عوام کو حقائق سے آگاہ کریں۔ عوام میں سیاسی شعور کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ وہ فرقہ واریت پر مبنی سیاست کے اثرات کو سمجھ سکیں اور انتخابات کے موقع پر ایسے نمائندوں کا انتخاب کریں جو اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینے والے ہوں۔
ابھی فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ جھارکھنڈ اور مہاراشٹر کے عوام اپنی دانشمندی کا استعمال کرتے ہوئے ان فرقہ پرست عناصر کو مسترد کریں جو نفرت کو فروغ دیتے ہیں۔ رائے دہندگان کو اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے وقت فرقہ وارانہ تقسیم کے بجائے ترقی، تعلیم، اور صحت جیسے حقیقی مسائل پر غور کرنا چاہیے۔ جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں ہونے والے انتخابات میں ہندو فرقہ پرست گروہوں اور ان سے منسلک سیاسی جماعتوں کی نفرت انگیز سیاست یہاں کی جمہوریت اور معاشرتی ہم آہنگی کو شدیدنقصان پہنچارہی ہے۔ اس فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام، سِول سوسائٹی اور سوشل میڈیا کو مل کر کوششیں کرنی ہوں گی تاکہ سماج میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی باقی رہ سکے ۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ایسے نمائندوں کو منتخب کریں جو ملک میں امن، اتحاد، اور ترقی کی راہ ہموار کریں اور نفرت کو ہر سطح پر مسترد کریں۔