قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال (NCPCR) نے حالیہ دنوں مدارس سے متعلق ایک اہم حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں مدارس میں فراہم کی جانے والی تعلیم کے معیار اور ان میں غیر مسلم بچوں کے داخلوں کے بارے سوالات اٹھائے گئے تھے۔ این سی پی سی آر نے مدارس کے تعلیمی معیار کو چیلنج کرتے ہوئے کچھ سفارشات پیش کی تھیں جن پر ملک کے مختلف حلقوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ یہ بات بڑی خوش آئند ہے کل یعنی 21 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے اس حکم نامے پر عبوری روک لگا دی ہے جس نے مدارس، اقلیتوں کے حقوق اور بچوں کی تعلیم کے موضوع پر ایک قومی سطح کی بحث چھیڑ دی ہے۔
قومی کمیشن برائے تحفظ حقوقِ اطفال کے مذکورہ حکم نامے میں کئی اہم نکات شامل تھے جن میں مدارس کے متعلق نہ صرف بے بنیاد باتیں کہی گئی تھیں بلکہ ان میں پیش کی جانے والی سفارشات، عدل و انصاف کے تقاضوں اور ملک کے آئین میں اقلیتوں کے متعلق دی گئی ضمانتوں کے خلاف بھی تھیں۔ مزید یہ کہ ان سفارشات کے ذریعے ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدارس کے کردار کو غلط انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ قومی کمیشن برائے تحفظ حقوقِ اطفال کی جانب سے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ارسال کیے گئے حکم نامے میں مدارس کے نظام، ان میں فراہم کی جانے والی تعلیم کے معیار، غیر مسلم بچوں کے داخلوں اور قانون حقِ تعلیم کے معیارات کی پابندی نہ کرنے والے مدارس کی ریاستی فنڈنگ کو بند کرنے سے متعلق ہدایات تھیں۔
کمیشن نے ان سفارشات میں کہا کہ ان مدارس میں دی جانے والی تعلیم کو باضابطہ طور پر قانون حقِ تعلیم کے مطابق عصری اسکولوں کے نصاب سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے تاکہ بچوں کو بنیادی اور معیاری تعلیم مل سکے، جب کہ یہ مدارس بچوں کو بنیادی ضروری تعلیم فراہم نہیں کرتے ہیں۔ کمیشن نے اس بات کی بھی سفارش کی تھی کہ ایسے تمام مدارس کی ریاستی فنڈنگ بند کر دی جائے جو قانون حقِ تعلیم کے تحت مقرر کردہ تعلیمی معیارات پر پورا نہیں اترتے۔ این سی پی سی آر نے یہ بھی کہا ہے کہ مدارس میں ایک مربوط اور معیاری نظامِ تعلیم کا فقدان ہے جس کی وجہ سے بچوں کے تعلیمی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
قومی کمیشن برائے حقوق اطفال نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ ان مداراس میں کچھ غیر مسلم بچے بھی اپنے والدین کی مرضی یا اجازت کے بغیر داخل ہیں جس سے بچوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ کمیشن نے سفارش کی کہ قانون حق تعلیم کے معیارات کی پابندی نہ کرنے والے ان مدارس سے ان غیر مسلم بچوں کو نکال کر سرکاری اسکولوں میں داخل کیا جائے تاکہ انہیں قانون حق تعلیم کے تحت معیاری تعلیم مل سکے۔
قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کا یہ حکم نامہ اور اس کی سفارشات کئی اعتبارات سے انتہائی گمراہ کن، متعصبانہ اور غیر منصفانہ ہیں۔ اس میں جو سفارشات پیش کی گئی ہیں وہ آئین ہند کے تحت اقلیتوں کو حاصل آئینی ضمانتوں اور اقلیتی اداروں کے آئینی حقوق کے صریح خلاف ہیں۔ خاص طور پر آئین کی دفعہ 30 کے تحت انہیں اپنے تعلیمی اداروں کے قیام کا جو حق حاصل ہے وہ اس حکم نامے کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے یہ مدارس نہ صرف تعلیمی ادارے ہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے لیے مذہبی تعلیمات کی فراہمی کے مراکز بھی مرکز ہیں جس کو نشانہ بنا کر ایک حکومتی ادارہ مسلمانوں کے مذہبی آزادی کے حق پر راست حملہ کرنے لگا تھا۔
کمیشن کے حکم نامے میں ان مدارس کی ریاستی فنڈنگ بند کرنے کی بھی سفارش کی گئی تھی۔ اگرچہ ملک کے بیشتر مدارس کے اخراجات کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے اپنے مالی وسائل سے پورا ہوتا ہے، اس کے علاوہ ریاستی حکومتیں بھی ان مدارس کو فنڈ فراہم کرتی ہیں جس سے مدارس کی جدید کاری اور عصری مضامین کے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اگر ریاستی فنڈنگ کو بند کردیا جائے تو مدارس کی جدید کاری اور عصری مضامین کی تدریس کا عمل متاثر ہو جائے گا اور اس سے اقلیتی بچوں کی تعلیم متاثر ہو سکتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ کئی مدارس ان دیہی علاقوں میں قائم ہیں جہاں تعلیم کی رسائی پہلے ہی سے مشکل ہے، اور اگر اس طرح کی پابندی عائد کر دی جائے تو وہاں کے بچوں کی تعلیمی ضروریات صحیح طریقے سے پوری نہیں ہو پائیں گی۔
اس کے علاوہ غیر مسلم بچوں کو مدارس سے نکال کر سرکاری اسکولوں میں داخل کروانے کا حکم بھی تفرقہ انگیزی پر مبنی ہے۔ اس اقدام کو ملک کے مختلف حلقوں نے مذہبی ہم آہنگی اور باہمی رواداری کے منافی قرار دیا ہے۔ یہ مدارس، بالخصوص دیہی علاقوں میں قائم مدارس ہمیشہ سے مختلف مذہبی اور سماجی پس منظر رکھنے والے بچوں کے لیے کھلے رہے ہیں، اس طرح کی پابندی اور مذہبی بنیادوں پر احکام و سفارشات پیش کرنا ملک میں سماجی تقسیم کو بڑھاوا دے سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے 5 اپریل کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے 22 مارچ کے فیصلے پر روک لگا دی تھی جس میں ‘یو پی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004’ کو غیر آئینی اور سیکولرِزم اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔
اب یہ تازہ فیصلہ عبوری ہی سہی، لیکن سپریم کرٹ نے واضح کر دیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی دینی تعلیم اور اس کے لیے درکار فنڈنگ اور نظم و انصرام کا آئینی حق اب بھی محفوظ ہے اور سرکاری اداروں کی آڑ میں یا بچوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر قائم کردہ کمیشن کو اکسا کر مسلم بلکہ دیگر طلبہ سے ان کی پسند اور ضرورت کی تعلیم سے کوئی محروم نہیں کر سکتا۔
ساتھ ہی مدارس میں مداخلت اور پابندی کے چور راستے بھی اگر بند ہو جائیں تو ملک کی سب سے بڑی اقلیت سکون سے اپنی نسلوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانے پر یکسو ہو سکے گی۔
یہ بات عارضی طور پر تو خوش آئند ہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے این سی پی سی آر کے مذکورہ حکم نامے پر عبوری روک لگائی ہے اور اس معاملے پر مزید سماعت کا عندیہ دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ریاست کو بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کا حق حاصل ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اقلیتی اداروں کے وجود اور ان کے آئینی حقوق کو ختم کر دیا جائے۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ مدارس میں تعلیم اور اس کے معیار کو بہتر بنایا جائے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس کارروائی کو اقلیتی اداروں کی تعلیمی آزادی کے ساتھ ہم آہنگ کر کے انجام دینا ہوگا۔
یقیناً مدارس کے نظامِ تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ نو عمر طلبہ کو بھی بنیادی اور معیاری تعلیم میسر ہو لیکن اس کو حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے آئینی حقوق میں مداخلت کرنے یا ان کو متاثر کرنے کا جواز نہیں بنانا چاہیے۔ آئین کے تحت اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کا حق حاصل ہے۔ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مدارس میں فراہم کی جانے والی تعلیم آئینی حدود میں رہتے ہوئے جاری رہے اور کسی بھی حکم نامے سے ان کے حقوق متاثر نہ ہوں۔
بحیثیت مجموعی این سی پی سی آر کا یہ حکم نامہ اگر تعلیمی معیار اور مذہبی آزادی کے درمیان توازن کے ساتھ ہوتا تو مناسب تھا لیکن اس حکم نامے کی پشت پر سیاسی مقاصد کار فرما معلوم ہوتے ہیں جس کے نفاذ سے کئی آئینی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس پر روک لگا کر اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ اقلیتی طبقات کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے اور تعلیم میں اصلاحات کو بھی آئینی حقوق اور آئینی ضمانتوں کے ساتھ متوازن رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
گذشتہ اسٹوری