اداریہ

مجبور تارکینِ وطن

ہنلے اینڈ پارٹنرز نامی برطانوی تحقیقی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سال آٹھ ہزار کے قریب انتہائی مالدار طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ملک چھوڑ کر جانے والے ہیں۔ دوسری جانب جاریہ پارلیمانی بجٹ سیشن میں وزارت داخلہ نے لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں انکشاف کیاکہ پچھلے تین برسوں کے دوران قریب چار لاکھ بھارتی شہریوں نے اپنی شہریت ترک کر دی ہے۔ بتادیں کہ ایوان پارلیمان میں تحریری جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے بتایا کہ پچھلے بارہ برسوں کے دوران کل سولہ لاکھ تریسٹھ ہزار چار سو چالیس لوگوں نے بھارتی شہریت ترک کرکے دوسرے ملکوں میں سکونت اختیار کی ہے۔ گویا ہر سال ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے اپنا وطن چھوڑا ہے۔ سب سے زیادہ پچھلے سال سوا دو لاکھ سے زائد لوگوں نے اپنی شہریت کو خیرباد کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو اپنے وطن میں کاروبار، ملازمت یا کسی روزگار یا روشن مستقبل کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی، حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں شہریت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔امریکی ویزا پانے کے لیے انٹرویو کی خاطر قطار میں کھڑے ہوئے لوگوں کو بسا اوقات دو سال تک بھی انتظا رکرنا پڑا ہے لیکن ملک سے باہرجانے کی ہوڑ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ تعلیم اور ملازمت کے خواہشمند ہی نہیں بلکہ ملک میں اچھے خاصے کاروبار کرنے والے بھی ان قطاروں میں کھڑے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں اپنے ملک میں محفوظ ماحول میسر ہوتا تو وہ ملک سے باہر جانے کا کیوں سوچتے؟
بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق سن 2021 میں بھی ایک لاکھ تریسٹھ ہزار تین سو ستر افراد نے شہریت کو چھوڑا تھا۔ دستاویزات کے مطابق ان لوگوں نے ’ذاتی وجوہات ‘ کی بنا پر شہریت ترک کی تھی جن میں نصف سے زیادہ یعنی اٹھتر ہزار لوگ امریکہ منتقل ہوگئے جبکہ تیئیس ہزار سے زائد لوگ آسٹریلیا میں جا بسے اور اکیس ہزار سے زائد لوگوں نے کینیڈا میں سکونت اختیار کرلی۔ قانوناً بھارت میں دوہری شہریت نہیں ہے اس لیے بیرون ملک جاکر بسنے والوں کے بھارتی شہریت ترک کرنے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ بالعموم شہریت ترک کرنے والے جو وجوہات بیان کرتے ہیں ان میں بعض اہم اور نمایاں اسباب یہ بتائے جاتے ہیں کہ بھارت میں کاروبار کرنا آسان نہیں رہا، جتنی سرمایہ کاری ہوتی ہے اس تناسب میں منافع حاصل نہیں ہو رہا ہے۔ حالانکہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں کاروبار اور سرمایہ کاری کرنے والوں کا سرخ قالین بچھا کر استقبال کرنے کی بات تو کرتی ہیں لیکن بعض خطوں کو چھوڑ کر ملک میں بالعموم محفوظ ماحول میسر نہیں ہے۔ ملک کی معاشی حالت بعض دیگر ممالک سے بہتر ضرور بتائی جاتی ہے لیکن بہتر کام کا ماحول، بہترین معیار زندگی، عمدہ مواقع اور اچھی آمدنی کی لالچ میں مالدار ہی کیا متوسط طبقہ بھی ترقی یافتہ ممالک میں جا کر رہائش اختیار کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان کے خاندان والے وہاں آباد ہوتے ہیں اس لیے وہ بھی ان کے ساتھ وہاں کاروبار کرنے کے لیے بیرون ملک جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بعض لوگوں کو اپنے ملک سے جذباتی لگاؤ تو ہوتا ہے لیکن سرمایہ، کاروبار یا خاندانی تقاضوں کے تحت وہ بیرون ملک جا کر بس جاتے ہیں۔ فی الوقت بھارتی پاسپورٹ پر بغیر ویزا کے ساٹھ ملکوں کا سفر کیا جا سکتا ہے جبکہ بہت سے دیگر ممالک اس سے زیادہ کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ ایک سبب بھارت کے سماجی تانے بانے کے منتشر ہونے کا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مالدار ترین طبقے (High Net Worth Indians) کو اپنی جان و مال کے متعلق اندیشے لاحق ہو رہے ہیں۔ 2018 میں ورائیٹی آف ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ نے شہری سماج اور ذرائع ابلاغ کی آزادی کو سلب کرنے کی بنا پر جمہوریت پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ 2019 میں ہی اکنامسٹ انٹلیجنس یونٹ کے ڈیموکریسی انڈیکس میں بھارت ایک ناکام جمہوریت کے طور پر درج ہوچکا تھا کیونکہ یہاں سماجی آزادیاں محدود تر ہوتی جارہی ہیں۔ 2020 میں فریڈم ہاؤس کی سالانہ رپورٹ میں بھارت جمہوریت، کالے قوانین اور انسانی آزادیوں کے متعلق تنزلی کا شکار ملک ہے۔ ماب لنچنگ فلموں اور کتابوں پر سنسر شپ صحافیوں، سوشل میڈیا کارکنان پر بندشیں، لکھنؤ کے مشہور لؤلؤ مال میں انتہا پسند گروہوں کی جانب سے ہنگامہ آرائی، تعلیمی اداروں میں عدم برداشت اور بعض سیاسی اور مذہبی جنونیوں کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات نے ملک کی شبیہ کو نہایت داغ دار بنا دیا ہے۔ انتہا پسند قوم پرستی اور مفروضہ تاریخی و ثقافتی ورثے پر جنون کی حد تک فخر جتانے والا رویہ بھی ملک کے امن پسند لوگوں کی سانسوں میں گھٹن پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
ایک طرف ہم بین الاقوامی سطح پر ملک کی شبیہ کو بہتر بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ G20 گروپ کی صدارت، کورونا وبا کے دوران ویکسن ڈپلومیسی اور اب ترکی و سیریا میں زلزلہ سے متاثرین کے لیے آپریشن دوست کے تحت امداد کے قابل تحسین اقدامات ہیں تو دوسری جانب ملک کا غیر محفوظ ماحول اور بین الاقوامی میڈیا میں خراب حکمرانی کی کریہہ تصویر۔ ان دونوں میں سےآخر کونسی تصویر غالب آئے گی، یہ منحصر ہے ہماری حکومت اور ان طاقتوں پر جو اس حکومت کی گردن پر سوار ہو کر اپنے ایجنڈے کو نافذ کروانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ تشہیر پر زور کم لگایا جائے اور حالات کو سدھارنے پر توجہ زیادہ مرکوز کی جائے۔ یہ بھی لازم ہے کہ نفرت تعصب اور انتشار کا سبب بننے والی تمام سرگرمیوں پر قانون کی نکیل کس دی جائے۔