اداریہ

تضاد بیانی اور حقیقت سے پرے اتحاد کی اپیل

اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا ہے کہ بھارت کی عوام ہمیشہ سے مذہب اور عقیدہ کے پرستار بلکہ اس کے علم بردار رہے ہیں۔ آر ایس ایس اپنے قیام کی سالگرہ کی مناسبت سے ہر سال دسہرہ کے دن شہر ناگپور میں ایک پرشکوہ ریلی کا انعقاد کرتی ہے جس میں اس کے سربراہ ملک و باشندگان ملک کو مخاطب کرکے بزعم خود رہنما خطوط اور وعظ و نصیحت سے نوازتے ہیں۔ امسال ڈاکٹر موہن بھاگوت نے دیگر کئی امور کے ساتھ مذکورہ بالا موضوع کا اعادہ کیا ۔ ۲۷ ستمبر ۱۹۲۵ کے وجے دشمی کو ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈ گیوار کی قیادت میں معرض وجود میں آنے والی آر ایس ایس دعویٰ کرتی آئی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرتی ہے ’’راشٹر‘‘ یعنی قوم، مملکت اور ملک کے لیے کرتی ہے اور اسی کو ہر بات اور ہر فرد پر فوقیت دیتی ہے۔ بنا بریں یہ ضروری تھا کہ اپنی قوم کو وہ اپنے دھرم سے بھی وابستہ کرے۔ اسی لیے کلچرل نیشنلزم، ہندوتوا ہی راشٹریتو اور ہندو سناتن جیسی اصطلاحوں کو رائج کروایا گیا تاکہ اصل برہمنی یا سناتنی طرز زندگی کو ڈھیلے ڈھالے تہذیب و ثقات اور دھرم کرم کے چولے میں تہ بہ تہ چھپا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے۔ اسی سوچ و فکر کی بنیاد میں یہ بات ڈال دی گئی کہ اس مٹی یعنی ملک میں جنم لینے والے عقیدہ و مذہب کا ماننے والا ہی ملک و قوم کا وفادار ہوسکتا ہے اور جس کا عقیدہ و ایمان بھارت کے جغرافیہ سے باہر کا ہو تو وہ اعتبار کے لائق بلکہ شہریت اور دیگر بنیادی حقوق حاصل کرنے کا حق دار بھی نہیں ہوسکتا۔ گویا مفروضہ پہلے سے وہی نتائج پیدا کر رہا ہے جو فرض کرنے کی غایت ہوتی ہے، جس کے لیے دلائل کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسی لیے دھرم یا مذہب کی اخلاقی پابندیوں اور انسانی ہمدردی کی تعلیمات درکنار کردی جاتی ہیں۔ سنگھ کا دوسرا کام یا نظریہ یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ ’’سماج میں اتحاد‘‘ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ دراصل موہن بھاگوت نے اس بار اپنے خطاب میں اس ’’اتحاد‘‘ کے نظریے کو بھارت سے باہر لے جاکر اکھنڈ بھارت، بلکہ عالمگیر ہندو سماج کے اتحاد سے جوڑ کر پیش کر دیا ہے۔ ہر سال کے برعکس اس سال بہت کھل کر اسلحوں اور مہلک ہتھیاروں کی نمائش دسہرہ پوجن کے نام پر ملک بھر میں کی گئی۔ اب یہ بات اعلیٰ سطح پر کہی جارہی ہے کہ ’’شاستر‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’شستر‘‘ یعنی کتاب کے ساتھ ہتھیار بھی رکھنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کونسا اتحاد ہے جس کے لیے ہتھیاروں کو عام آدمی کے ہاتھوں میں تھمایا جا رہا ہے؟ کیا ایسا کر کے وہ ملک کی فوج اور حکومت کو ناکارہ ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ دراصل وہ بغض و دشمنی، غم و غصہ اور نفرت کا ہتھیار ہے جو ہر فرد اور ہر خاندان کے ہاتھوں میں پہنچایا جا رہا ہے۔ کیا ایسا اتحاد کبھی پائیدار ہوسکتا ہے جو کسی اور کی نفرت کے سہارے کا محتاج ہو؟ دوم یہ کہ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتوں کے اتحاد کا ذکر فخریہ انداز سے کرنے والے موہن بھاگوت سے کوئی پوچھے کہ وہ اپنے ملک کی اقلیتوں کے اتحاد کی بات کرنے والوں کو ملک دشمن اور ہندو سماج کے لیے خطرہ کیوں خیال کرتے ہیں؟
وجے دشمی کے سنگھی نظریہ کو مسترد کرتے ہوئے ملک کے تعلیم یافتہ دلتوں اور بودھوں نے ’’اشوک وجے دشمی‘‘ کی تاریخ کو کسی قدر پرزور انداز سے پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ رام ہی نہیں بلکہ راون کی کہانی کو بھی ماننے سے انکار کرنے والوں میں خود ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے پڑ پوتے نمایاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خیالی کرداروں کو پوجنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک counter revelation کی بات کہی جاسکے اور سمراٹ اشوک کے عظیم ’’دس شیل‘‘ کی تعلیمات کو مٹایا جاسکے جو کہ اصلاً مہاتما بودھ کی دس بنیادی تعلیمات ہیں اور جن کی مخالفت میں دس سروں والے ایک خیالی راون کے مجسمے کو وجود میں لایا گیا ہے اور اصلی تاریخ کو دبایا، چھپایا بلکہ ختم کیا جا رہا ہے۔ خود اپنے ملک اور سماج کی تاریخ کو مٹانے والے سنگھ سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے وجود و تشخص اور ان کی تاریخ کو برداشت کر سکے گا؟ بھارت کے کثیر ثقافتی، کثیر لسانی اور متنوع سماج کی تاریخ کا اعتراف کیے بغیر کسی بھی سماجی اتحاد کا خواب آخر کیسے شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے؟
ملک کے دارالحکومت اور دیگر کئی حصوں میں قائم اپنی ریاستی حکومتوں کی بنیاد پر اپنی طاقت میں اضافے کی بنیاد پر سنگھ اب یہ دعویٰ کرنے لگا ہے کہ دراصل ملک کی طاقت میں اضافہ سنگھ کی طاقت بڑھنے سے ہی ہوگا۔ لیکن جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور دیر سویر افیم کا نشہ اتر ہی جاتا ہے۔ تب زمینی حقیقت کا سامنا ہوگا اور بھارت کے عوام کی مذہبی شناخت انسانی ہمدردی، بھائی چارہ، باہمی ہم آہنگی اور نفرت سے پاک معاشرہ کے وجود پر منتج ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نفرتی ایجنڈے کے مد مقابل اس سے زیادہ پر زور انداز سے متبادل نظریہ کو پیش کرنا ہوگا، ساتھ ہی اس کھوکھلے بیانیہ کی ہوا نکال کر بتانا ہوگا کہ بے سر و پا باتوں پر کسی پختہ معاشرے کی تعمیر کبھی نہیں ہو سکتی۔ اگر بزور و قوت کچھ کھڑاکر بھی دیا گیا تو کچھ ہی عرصے میں دھڑام سے نیچے آ گرے گا۔
ملک کے باضمیر عوام آج بھی اس نفرتی بیانیے کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں ان کے بیچ ایک نئے اتحاد کو پیدا کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی تحریکوں کی ملک اور پڑوسی ملکوں میں طاقت اور ان کے انقلابی لٹریچر کی قوت سے فسطائی طاقتیں بھی واقف ہیں اسی لیے وہ ملک اور بیرون ملک میں اسلاموفوبیا کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی کمزوریوں کا تجزیہ کرکے اپنی طاقت کو بیان بھی کرتے رہنا چاہیے۔ مظلومیت کا رونا بند کرنا چاہیے اور توکل کے پیمانے پر پورا اترنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اپنی داعیانہ فکر کو اتنے بڑے ملک میں ہر طبقے تک پہنچانا کسی ہمالیائی چیلنج کی مانند ضرور ہے لیکن نبی آخر الزماں نے اس سے زیادہ نازک اور پر خطر حالات میں کام کرکے دکھا دیا ہے۔ تو ایک خدا، ایک کتاب اور ایک رسول کی پختہ بنیاد پر حقیقی اتحاد کی طرف دعوت دینے والا انسانی نجات دہندہ اور عالمگیر اتحاد کی بنیاد فراہم کرنے والا آفاقی پیغام لے کر ہم نفرت کا مقابلہ کرنے کی طرف پیش قدمی کیوں نہ کریں؟ عدل و قسط اور مساوات، ترقی و نجات کا نسخہ کیمیا ہمارے پاس موجود ہے پھر بھی چراغ تلے اندھیر کیوں ہے؟ اس شب ظلمات کے بعد نوید سحر لانے کے لیے ہر فرد اور ہر اجتماعیت کو آج سے بلکہ ابھی سے کمر کس لینی چاہیے اور خدائے واحد کی ہستی سے بڑھ کر تو کوئی اور طاقت تو اس کائنات میں نہیں پائی جاتی۔