اداریہ

“گستاخ محبت” کی سزا۔۔۔

ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس ڈی چندر چوڑ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس جے بی پارڈی والا کی ایک بینچ نے جب یہ لکھا کہ "حکومت پر مثبت انداز سے یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تفریق کو روکے” تو گویا وہ یہ اعتراف تھا کہ ملک عزیز میں انسانوں کے بیچ تفریق موجود ہے نیز، یہ کہ ملک کے کرتا دھرتا اس ناسور کو ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
ایک صحافی اور مصنفہ سوکنیا شانتا کی عرضی پر سپریم کورٹ نے تین اکتوبر کو فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی سماج میں پائی جانے والی ایک بڑی خرابی کو درست کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
جیلوں میں قید افراد کے ساتھ نفرت بھرے رویے کا جائزہ صحافیہ سوکنیا شانتا تقریباً 2016 سے لے رہی تھیں، اس دوران ملک کی مختلف ریاستوں میں جاری جیل مینوئیل میں انتہائی چونکا دینے والے ضابطے انہوں نے نوٹ کیے۔ مثلاً جیل میں اڈمیٹ کرتے وقت ہر قیدی کی ذات کو درج کیا جاتا ہے۔ انسانی نا برابری اور تفریق پر مبنی ہزاروں سال کے رواج کے مطابق نچلی ذات (مہتر وغیرہ) کے قیدی سے بیت الخلاء کی صفائی اور جھاڑو لگانے جیسے کام کروائے جاتے ہیں جبکہ مبینہ اعلی ذات (یعنی برہمن وغیرہ) کے قیدی سے کھانا پکانے جیسے بہتر کام کروائے جاتے ہیں اور یہ سب باقاعدہ جیلوں کے ضابطوں میں درج کیا گیا ہے۔ گویا ابھی تک ملک کی جیلوں کو ذات پات اور نفرت میں قید رکھا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اب جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر داخلے اور ستھرے یا گندے کاموں کی ایسی تقسیم کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں جگہ جگہ ہمارے آئین کے خلاف قوانین بن رہے ہیں اور ان پر بڑی دیدہ دلیری سے عمل بھی کیا جا رہا ہے۔ اس بات کو خود قانون کی محافظ عدالت نے بھی تسلیم کرلیا ہے اور اب اسے کالعدم قرار دے کر کم از کم قید خانوں میں ایک طرح کی غیر آئینی سرگرمیوں کو بند کرنے کا حکم صادر کر دیا ہے جو کہ قابل ستائش اقدام ہے۔
یوں تو انگریزوں نے درجن بھر قبیح اور مکروہ رسموں کو باضابطہ قانون بنا کر ختم کر دیا تھا اور بھارت کو ایک مہذب معاشرہ بنانے میں اپنا رول ادا کیا تھا۔سَتی کی رسم، شادی کے بعد پہلی رات برہمن کے گھر دلہن کو بھیجنے کی رسم، مبینہ نچلی ذات کے گھر پیدا ہونے والے پہلے توانا بچے کو قتل کرنے کی رسم، پونے کے پیشوا حکم رانوں کے زمانے میں کومبی ذات کے غلاموں کو بیچنے کا عمل، پوری میں جگناتھ رتھ یاترا کے دوران رتھ کے نیچے عقیدت مندوں کی جان دے دینے کی رسم، کاشی کے ایک مخصوص تالاب میں عقیدت مندوں کا نجات پانے کے لیے اپنی جان دے دینا، اڑیسہ اور راج پتانا میں لڑکی کی پیدائش پر اسے قتل کر دینا، شمال و جنوب میں یگیہ کے عمل میں کسی یتیم کو آگ میں بلی چڑھانا، گرنار اور ست پڑا پہاڑوں کی چوٹیوں سے گرا کر پہلی اولاد کی بلی چڑھانا جیسی رسمیں نمایاں ہیں۔
یہ بات دوسری ہے کہ صدیوں تک مختلف مسلم حکم رانوں کے ادوار میں بھارتی سماج کے مذہبی اور اندرونی معاملات کو چھیڑا نہیں گیا اور نہ دین اسلام کی انسانیت دوستی پر مبنی تعلیمات سے عوام و خواص کو واقف کرانے کی کوئی دانستہ اور قانونی یا عملی کوشش کرنے میں مسلمانوں کو ویسی دلچسپی رہی۔
حاصل یہ ہے کہ بھارت میں انسانوں کے بیچ نفرت اور باہم ظلم و تفریق پر مبنی اتنی ساری باتیں آج بھی چلی آرہی ہیں کہ اسلام کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ ان رسوم و رواج کی جکڑ بندیوں کے لیے ایک چیلنج بن کر کھڑی ہے اور یہاں کے غالب طبقے اس بات کو خود رسول اکرمؐ کے نام لیواؤں سے بھی زیادہ جان اور سمجھ رہے ہیں۔ کیا مہاراشٹر کے رامگیری مہاراج اور غازی آباد کے یتی نرسنگھانند جیسے بھگوا دھاری لوگ مسلسل اللہ کے آخری نبی کی کردار کشی کرنے پر یوں ہی تلے بیٹھے ہیں؟ حضرت محمد ﷺ کی ذات کے بارے میں گستاخی ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں ہوتی رہی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں نقص نکالنے کا سلسلہ بھی پرانا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نفرت کا رد عمل ہوش مندانہ اقدام سے ہی کارگر ہو سکتا ہے۔ چاہے سوکنیا شانتا کی طرح لگن کے ساتھ مطالعہ کرنے اور قانونی چارہ جوئی کے ذریعے خاموشی کے ساتھ کارروائی کرنا ہو یا عوام کی رائے عامہ کو خدائی ضابطے کی طرف مائل اور ہموار کرنا ہو، ہر صورت ہمیں جذباتیت سے بچنا ہوگا۔ بعض پرجوش سوشل میڈیا کے شہ سوار بن کر اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے یا کسی اور غرض سے ملت اسلامیہ ہند کی صالح قیادت پر آئے دن سوالیہ نشان کھڑا کر دیتے ہیں، ان کو اور ان کی تنظیموں کو بزدل وغیرہ تک کہہ ڈالتے ہیں، لیکن کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ، جماعت اسلامی ہند اور جمعیت العلماء ہند جیسی انتہائی موقر جماعتوں سے لے کر متعدد ذی فہم اور نباض شخصیات نے بھی ان نازک حالات میں یہی کہا ہے کہ مسلمان گستاخانہ کلمات پر مشتعل نہ ہوں ورنہ وہ خود ان کے جال میں پھنس کر رہ جائیں گے۔ حکمت و دانائی کا دامن مضبوطی سے تھامے رہیں اور ملت اسلامیہ کے سواد اعظم پر اعتماد کو متزلزل نہ ہونے دیں۔ ملکی اور عالمی مسائل و آزمائش سے نبرد آزما ہونا ہے تو سیرتِ رسول سے رہنمائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اجتماعی فیصلے اور اجتماعی قیادت پر اعتماد رکھنا ہوگا کہ توکل اور استقامت کا بھی یہی تقاضا ہے۔
سنت سے بھی شاتم رسول کے ساتھ کیا رویہ اپنانا چاہیے اس پر واضح رہنمائی ملتی ہے۔ قرآن نے تو بہت واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ گستاخی اور نفرت کا جواب "موعظۃ حسنہ” اور "احسان” کے رویے سے دینا چاہیے تاکہ اسلام اور پیغمبر اسلام دونوں کے دشمنوں کو دوست بنایا جا سکے۔ نفرت سے مزید نفرت اور ٹکراؤ سے مزید ٹکراؤ کی راہ ہی ہموار ہوگی۔
کاش مسلمانوں میں کوئی سوکنیا شانتا پیدا ہو اور محنت و دلائل اور اعداد و شمار کی مدد سے سماج کی اصلاح کے لیے ٹھوس اور پرامن کوششوں میں لگ جائے!
کاش نفرت میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو پیار و محبت کا سبق دے کر دلوں کو جیتنے کی کوششیں تیز تر ہو جائیں!!!