اداریہ

صدائے جمہور کی پسپائی کا راستہ

’’ون نیشن ون الیکشن‘‘ کا نیا نعرہ مرکزی حکومت کی جانب سے آنے والے بے شمار جملوں میں سے تازہ ترین نعرہ ہے۔ سابق صدر جمہوریہ ہند رامناتھ کووند کی صدارت والی ایک کمیٹی کی تجویز کو پچھلے دنوں کابینہ میں منظور کروالیا گیا تب سے مسلسل زیر بحث اس موضوع کے حق میں اور مخالفت میں زوردار دلائل دیے جا رہے ہیں۔ ملک کے پولرائزڈ معاشرے میں مودی کے حق میں یا ان کے خلاف ایسی دو آراء رکھنے والے طبقے ہر حال میں حمایت اور ہر معاملے میں مخالفت کرنے پر اتر آتے ہیں۔ سابقہ تجربات کی روشنی میں بی جے پی کی قیادت والی حکومتوں نے متعدد قومی، ملکی و عالمی پیمانے پر کچھ اہم فیصلے کیے جن پر ان کو ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اسی تناظر میں وزیر اعظم مودی نے جب سے ملک میں پارلیمانی، اسمبلی اور مقامی بلدیاتی انتخابات کو ایک ساتھ منعقد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، ایک بڑے طبقے کو اس بات میں سازش کی بو محسوس ہونے لگی حالانکہ سنگھی ٹولیوں سے وابستہ مختلف کارندوں کو یہ ایک ماسٹر اسٹروک نظر آیا۔
حقیقت یہ ہے کہ 1967 تک آزاد بھارت میں تمام انتخابات ایک ہی وقت میں منعقد ہوتے رہے ہیں تو اب اگر وزیر اعظم مودی نے یہ نظریہ پیش کیا ہے تو وہ کوئی دور کی کوڑی نہیں نکال لائے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ ان کا نظریہ ملک کے ہر شعبے میں شکست کھاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، انہوں نے یہ پانسہ پھینکا ہے۔ آج سے پہلے جن سنگھ یا بی جے پی یا آر ایس ایس میں سے کسی نے اس پر یوں عوامی بحث کی دعوت نہیں دی تھی۔ ان لوگوں کو بھگوا رنگ کی گہرائی و گیرائی کو ناپ کر اپنے مفادت کو آگے بڑھانے میں جو ایشو بھی کار گر نظر آتا ہے اسی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ملک یا شاید دنیا کی سب سے بڑی اور امیر سیاسی جماعت اور سنگھ کے لاکھوں وابستگان کی بے پناہ پشت پناہی کی حامل بی جے پی کو ملک کی دیگر تمام قومی سیاسی اور علاقائی جماعتوں پر ہر لحاظ سے فوقیت حاصل ہے۔ تربیت یافتہ کیڈر، تکنیک میں ماہر افرادی قوت، مال و زر کی فراوانی اور ملک گیر سطح کا ان کی ٹولیوں کا نیٹ ورک اس بات کے لیے کافی ہے کہ پورے ملک میں کسی بھی ایشو کو بنیاد بناکر اس کے حق میں ووٹروں کی رائے عامہ کو کچھ وقت کے لیے متاثر کر دیا جائے اور انتخابی کامیابی حاصل کر لینے کے بعد اپنے طبقاتی، عصبیتی ایجنڈے کو بے مہار نافذ کرنے میں لگ جائیں۔
حیرت تو تب ہوتی ہے جب بیک وقت انتخابات کرانے کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس سے ملک و قوم کے اخراجات میں بچت ہوگی۔ کارپوریٹ طبقے سے قربت کے الزامات جھیلنے والی پارٹی پانچ ہزار کروڑ روپیوں سے زیادہ کی بچت نہیں کر پائے گی لیکن ڈھنڈورہ پیٹنا تو کوئی ان سے سیکھے جن کی حکومتوں نے لاکھوں کروڑوں روپیوں کی خیرات سرمایہ داروں کے جھولی میں ڈال دی ہے۔ مزید اربوں روپے قوم کو ہندتوا کا نشہ پلانے کے لیے ذرائع ابلاغ اور اپنی شخصی امیج سازی پر انڈیل چکے ہیں۔
آئین کی شق 83 (2) اور 172 (1) کے تحت ایوان پارلیمنٹ کی مدت کارکردگی کو پانچ برس تک کے لیے متعین یا محدود کر دیا گیا ہے۔ یہی معاملہ ریاستی اسمبلیوں کے لیے بھی لاگو ہوتا ہے۔ سب سے پہلے یہ آئینی چیلنج پار کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے تو یہ کہ عوام کو ’’ایک دیش، ایک قانون‘‘ ’ایک دیش ایک جی ایس ٹی‘ وغیرہ کے فریب میں رکھ کر آئین کی روح کو مجروح کرنے کی گہری سازش رچی جا رہی ہے۔ بھارت کسی بھی پہلو سے ’’ایک‘‘ نہیں ہے، اس طرح کی رائے رکھنے والا ایک طبقہ ملک میں اکثریت میں موجود ہے۔ چاہے شمال مشرق میں گائے کھانے والے بی جے پی کے وزیر ہوں، جنوب میں رہ کر شمالی یا ہندی بولنے والوں کی مخالفت کرنے والے بھاجپائی ہوں، کشمیر سے پنجاب اور گوا سے بنگال تک اپنی مرکزی پارٹی کی لائن سے ہٹ کر بیان دینے اور کام کرنے والے سنگھی ٹولی کے کارندے ہوں، وہ سب آخر کیسے بھول سکتے ہیں کہ بھارت ایک Union Of States ہے؟
ملک کا تنوع ہی اس کی خاصیت اور عوام کی طاقت ہے۔ ملک میں یک رنگی سماج بنا دینے کا خواب دراصل غیر آئینی ہی نہیں بلکہ فطرت کے خلاف بھی ہے۔
رائٹ ٹو ری کال:
جب بھارت نے ایک ساتھ انتخابات کرانے کا عمل ترک کر دیا اور اب کسی گوشے سے کوئی مطالبہ بھی نہیں ہو رہا تھا تو کیوں ون نیشن ون الیکشن کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے؟ دراصل ضرورت اس بات کی ہے کہ پچاس برس قبل جن سنگھ اور بی جے پی کے قد آور رہنما رہ چکے آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کی اس بات کو یاد کیوں نہیں کیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی عوامی نمائندہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو اس کے حلقے کے ووٹرس اس کو واپس بلاسکتے ہیں؟ اسے Right To Recall کہا گیا ہے۔ ووٹروں کی توقعات کو پورا کرنے میں ناکام عوامی نمائندوں کو آخر پانچ سال تک اپنے کندھوں پر کیوں لاد کر چلا جائے؟
ایک اہم تقاضا یہ ہوتا ہے کہ عوام کے مقامی اور علاقائی ایشوز کو انتخابی موضوع بنایا جاتا ہے لیکن بیک وقت انتخابات ہوں تو قومی و عالمی موضوعات کے شور میں ووٹروں کی اپنی آواز دب کر رہ جائے گی اور کثیر ثقافتی و کثیر مذہبی بھارت اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ایک جانب الکٹورل بانڈ کے نام پر دھاندلی کے الزامات میں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن پر ایف آئی آر درج ہوگئی ہے اور حزب اختلاف بانڈ کے خلاف گلا پھاڑ کر پکارتا رہا ہے کہ حکومت انتخابی پروسیس میں شفافیت تو دور الٹا کالا دھن استعمال کرنے کا ایک چور راستہ اپنا رہی ہے تو عدالت کی پھٹکار کے باوجود حکومت کے کان پرجوں تک نہ رینگی اور اب یہ نیا شوشہ کہیں مختلف فضیحتوں کی طرف سے دھیان بھٹکانے کا بہانہ تو نہیں ہے؟
ایک نظریہ، ایک شخص کو ملک پر تھوپنے کی جو کوشش چور راستے سے کی جا رہی ہے جس میں ملک کے آئین کی بلی پہلے چڑھنے والی ہے۔ اس کے ’’بنیادی ڈھانچے‘‘ اور روح کو متاثر کیا جا رہا ہے اور عوام کو خواب غفلت میں رکھا جا رہا ہے۔ بیدار عوام، تعلیم یافتہ ووٹر اور باشعور قیادت ہی اس کا صحیح جواب ہیں۔