اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری تنازعہ ایک بار پھر عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ حالیہ دنوں لبنان میں بیک وقت مختصر پیغام رسانی کے آلات پیجروں میں دھماکے ہوئے جن میں تیس سے زائد افراد ہلاک اور کم و بیش تین ہزار افراد زخمی ہوگئے۔ ان میں ایک نو سال کی بچی اور کئی عام شہری شامل ہیں۔ ان دھماکوں کے دوسرے ہی دن وائرلیس ریڈیو ڈیوائس واکی ٹاکی میں بھی اسی طرح کے دھماکے ہوئے جن میں پچیس افراد ہلاک اور پانچ سو افراد زخمی ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ پیجرز حزب اللہ کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے موبائل فون کے بجائے استعمال کرتے تھے۔حزب اللہ کے قائدین نے کہا کہ اسرائیل کی یہ کارروائی بین الاقوامی جنگی قوانین کی خلاف وزری ہے جس کے مطابق روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کو مہلک ہتھیار میں تبدیل کردینا بین الاقوامی قوانین کی کھلی مخالفت ہے اور اسرائیل کی اس حرکت نے دنیا میں ایک نئی طرز کی جنگ کی راہ ہموار کر دی ہے جس کے بعد کوئی بھی ملک موبائل فون، لیپ ٹیپ، ٹیبس وغیرہ جیسی عام اور روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کو ہیک کرکے انہیں چھوٹے چھوٹے بموں میں تبدیل کرسکتا ہے۔ اسرائیل کی اس کارروائی کا عالمی برادری کو فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔
حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین ہونے والی ان بڑھتی ہوئی جھڑپوں نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو مزید کشیدہ اور دھماکو بنا دیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی ان جارحانہ کارروائیوں کے ذریعے لبنان کو اس جنگ میں گھسیٹنے کی اسرائیلی کوششوں نے پورے خطے میں غیر یقینی حالات پیدا کر دیے ہیں۔ 22ستمبر اتوار کی رات اسرائیل نے لبنان پر ایک بڑا حملہ کیا، جس کی شدت ایٹمی حملے جیسی محسوس کی گئی، جس سے بے شمار عام شہری بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس حملے سے مشرق وسطیٰ کے اس علاقے میں انسانی بحران مزید بڑھتا جا رہا ہے اور لبنان پر ایک نئی جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے نتائج انتہائی تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ اس پورے تنازعے میں اسرائیل کی پالیسی نہ صرف فلسطینی عوام کے خلاف جارحانہ ہے، بلکہ یہ خطے کے دوسرے ممالک، خصوصاً لبنان کو بھی جنگ میں ملوث کر رہی ہے۔ اسرائیل نے اپنے فضائی حملوں کے ذریعے لبنان کے شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا اور ان حملوں کی ویڈیوز جاری کر کے عالمی سطح پر اپنی مظلومیت کا ڈھونگ رچایا۔اسرائیل کا یہ دعویٰ بالکل جھوٹ ہے کہ وہ صرف عسکری اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس نے عالمی برادری کے سامنے مظلوم بننے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے حملے شہری علاقوں کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے شہری آبادیوں پر حملے اور بڑے پیمانے پر تباہی کو دنیا کے سامنے صرف اپنے دفاع کے نام پر پیش کرنا ایک مضحکہ خیز دعویٰ ہے۔
اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کا سلسلہ صرف حزب اللہ یا حماس کے ساتھ ہی محدود نہیں بلکہ فلسطین میں ذرائع ابلاغ کی آزادی پر بھی اس کے حملے جاری ہیں۔ ایک اہم واقعہ میں اسرائیلی فوج نے رات کے اندھیرے میں فلسطینی زیر کنٹرول علاقے کے شہر رام اللہ میں الجزیرہ کے دفتر پر دھاوا بولا اور دفتر کے عملے کو باہر نکال کر دفتر بند کر دیا۔ الجزیرہ نے اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے صحافت کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ یہ واقعہ اسرائیل کے ان اقدامات کی نشان دہی کرتا ہے جو وہ اپنی ظالمانہ کارروائیوں کو چھپانے کے لیے اٹھا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو دبانے کی یہ کوشش بین الاقوامی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے جس کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی جانی چاہیے۔
اس سلسلے کی ایک اور اہم پیش رفت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل کے خلاف پیش کردہ قرارداد ہے۔ اس قرارداد میں اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی ہے اور عالمی برادری سے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی جارحانہ پالیسیوں کو ترک کرے اور فلسطینی علاقوں پر اپنے قبضوں کو فوری ختم کر دے۔ اس واقعے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے ہمارے ملک نے فلسطین کے متعلق اپنی دیرینہ پالیسی کے برخلاف اس قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر نے کہا کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ "دیواریں نہیں بلکہ پل تعمیر کیے جائیں” یہ جملہ بظاہر مثبت محسوس ہوتا ہے لیکن موجودہ حالات میں ہندوستان کی جانب سے غیر جانب داری اختیار کرنا ظالم و مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دینے کے مترادف ہے۔ یہ موقف فلسطینی عوام کے ساتھ ناانصافی اور اسرائیل کے مظالم کو یکسر نظر انداز کرنے کے برابر ہے۔ غزہ میں اسرائیل کے حالیہ جارحانہ اقدامات کے تناظر میں، جس میں چالیس ہزار سے زائد بے قصور انسان مارے جا چکے ہیں، بھارت جیسے اہم ملک کی غیر حاضری نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکامی ہے بلکہ عالمی انصاف کے اصولوں سے بھی انحراف ہے۔ ہمارے ملک کا یہ موقف کہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کیا جانا چاہیے، سفارتی لحاظ سے ایک مناسب خیال ہو سکتا ہے، لیکن جب ایک فریق (اسرائیل) مسلسل جارحیت اور ظلم کا مرتکب ہو رہا ہو تو اس کے خلاف عالمی سطح پر مضبوط موقف اپنانا ضروری ہے۔ بھارت جیسے ممالک کا اس موقع پر غیر جانب دار رہنا اسرائیل کی موجودہ جارحیت کو مزید ہوا دے سکتا ہے۔
ان تینوں واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کی حالیہ کارروائیاں عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ حزب اللہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی، صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے دفاتر پر حملے اور فلسطینی عوام پر مسلسل مظالم اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسرائیل نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے، بلکہ خطے میں امن کے استحکام کے لیے بھی بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ عالمی برادری، خاص طور پر بھارت جیسے ممالک کو اس موقع پر غیر جانب داری کے بجائے ایک واضح اور مضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے تاکہ مظلوموں کی حمایت کی جا سکے اور اسرائیل کی جارحیت کو روکا جا سکے۔ اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر مذمت اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ جیسے فورموں کو مضبوطی سے اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔
گذشتہ اسٹوری