اداریہ

ضمانت اور جیل کے اصول کی پامالی:انصاف کا قتل

ملک عزیز میں زیر تصفیہ مقدمات میں بے انتہا تاخیر اور اس کی وجہ سے لوگوں کوبرسوں تک شخصی آزادی سے محروم کرنے کامسئلہ انتہائی سنگین نوعیت اختیار کرچکا ہے ۔ اس مسئلے کی سنگینی کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کئی اہم شخصیات اور عام شہری کسی چارج شیٹ یا مقدمے کے بغیر ہی برسوں تک جیل میں رہنے پر مجبور ہیں اور یہ صورت حال ہمارے عدالتی نظام کی خامیوں اور حکومت کے غیر ذمہ دارانہ طرزعمل کو ظاہر کرتی ہے۔
ہمارے ملک کے عدالتی نظام کا یہ ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ایک طرف تو ملک کی عدالتوں میں لاکھوں مقدمات عدالتی نظام کی خامیوں اور کارروائیوں کی سست روی کے سبب برسوں سے التواء کا شکار ہیں وہیں حکومت کی جانب سے اپنے سیاسی مخالفین اور آواز اٹھانے والوں کومختلف الزامات کے تحت ماخوذ کرکےجیل میں بند رکھنا ایک معمول بن چکا ہے۔ ان میں اروند کیجریوال، منیش سسودیا، عمر خالد،میران حیدر، شرجیل امام اور بھیما کورے گاوں کیس میں ماخوذ ملزمان شامل ہیں۔ ان تمام افراد کومختلف الزامات کے تحت گرفتار تو کیا گیا لیکن برسوں گزر جانے کے باوجود نہ ان کی چارج شیٹ داخل کی گئی ، نہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کیے گئے ، نہ ان پر باقاعدہ مقدمے کا آغاز ہوا اور نہ انہیں ضمانت دی گئی ۔
ان مقدمات میں حکومت کی جانب سے سیاسی دباؤ اور قانونی عمل کا غلط استعمال واضح طور پر نظر آتا ہے۔حکومت کے رویے سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہ ان مقدمات کو طول دے کر اپنے مخالفین کو خاموش کرنے کی کوشش کررہی اوراس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہاں قانونی عمل ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) اور یواے پی اے (UAPA) جیسے سخت قوانین کا استعمال بغیر چارج شیٹ فائل کیے طویل قید کے لیے کیا جا رہا ہے، جو سیاسی مخالفین اور سماجی کارکنان کو نشانہ بنانے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ ان قوانین کے تحت ملزمان کو کئی ماہ یا سالوں تک بغیر مقدمے کے جیل میں رکھا جا سکتا ہے، اور حکومت اس کا غلط استعمال کر کے سیاسی انتقام لے رہی ہے۔
مثال کے طور پر مہاراشٹر کے بھیما کورے گاوں واقعے کے بعد پولیس نے 16 لوگوں کو اربن نکسلس کے نام پر ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کا الزام لگاکر گرفتار کرلیا۔ برسوں تک ان کے خلاف کوئی چارج شیٹ تک فائل نہیں کی گئی۔ ان کی ضمانت کی عرضیاں بار بار مسترد کی جاتی رہیں۔ لگاتار کوشش کے بعد ان میں صرف پانچ لوگوں کو ان کی عمر کے زیادہ ہونے کا لحاظ کرتے ہوئے ضمانت دی گئی ۔ حصول ضمانت کے اس طویل مرحلے میں 84 برس کے اسٹین سوامی ضمانت کا انتظارکرتے ہوئے قید ہی میں فوت ہوگئے۔ اس کیس کے باقی لوگ پانچ برس مکمل ہوجانے کے باوجود ابھی تک اپنی آزادی سےمحروم ہیں۔
یہی صورت حال دہلی فسادات کے مقدمے کی ہے۔ فروری 2020 میں دہلی میں شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے خلاف مظاہروں کے دوران فسادات پھوٹ پڑے۔ پولیس نے فسادات کے اصل مجرموں کو پکڑنے کے بجائے زیادہ تر ان لوگوں کو نشانہ بنایا جو CAA کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔حکومت اور پولیس نے اس سلسلے میں درجنوں افراد کو گرفتار کیا، جن میں زیادہ تر مسلم سماجی کارکنان، طلبہ اور سیاسی مخالفین شامل تھے۔عمر خالداور دیگر نوجوان بھی اسی کیس میں ملزم قراردے کرگرفتار کیے گئے اور ان کی گرفتاری کو آج چار برس پورے ہوچکے ہیں لیکن نہ آج تک ان کے خلاف نہ تو فرد جرم عائد کی گئی اور نہ مقدمے کی باقاعدہ سنوائی شروع ہوئی۔ دہلی فسادات کا مقدمہ بھارت کے عدالتی اور قانونی نظام کی خامیوں اور حکومت کے متنازع کردار کو بے نقاب کرتا ہے۔ مشہور ٹی وی اینکر ارنب گوسوامی کو ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ تھا بغیر کسی ثبوت کے ایک دن کے لیے بھی آزادی سے محروم کرنا انصاف کے خلاف ہے لیکن دوسرے لوگوں کے معاملے میں یہ اصول بلاکسی تکلف کے پامال کردیا جاتا ہے۔اس صورت حال کی ذمہ دار حکومت ہے یا عدلیہ کے نظام کی خامیاں ہیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اور اس طرح کے مختلف مقدمات میں حکومت کا رویہ پوری طرح غیر منصفانہ اور سیاسی انتقام پر مبنی ہے، جس میں حکومت نے اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے قانونی عمل کو استعمال کیا ۔ ملزمان کو بغیر چارج شیٹ اور مقدمہ چلائے بغیر طویل عرصے تک جیل میں رکھنا، قانونی کارروائیوں میں تاخیر کی یہ بدترین مثال ہے۔ان مقدمات میں ضمانت اصول ہے اور جیل استثنا ہے کے بنیادی اصول کی دھجیاں بکھیر کر جیل اصول ہے اور ضمانت استثنا ہے کےاصول کو اختیار کرکے گویا قانونی عمل ہی کو سزا میں تبدیل کردیا گیاہے۔ اس صورتحال میں ملزمان کو کئی سال تک جیل میں بندرکھنا ایک غیر انسانی عمل ہے اور اس میں حکومت کا کردار براہ راست یا بالواسطہ ہے۔
گرچہ یہ بات بڑی امید افزا ہے کہ حالیہ دنوں میں بعض آزاد صحافیوں اور دانشوروں نے ان معاملات، بالخصوص عمر خالد کے مسئلے پر کھل کر لکھا اور بولا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں آج بھی انصاف پسند لوگ باقی ہیں جو اس طرح کی ناانصافی پر بے باکی سے بولتے اور لکھتےہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان آوازوں کو مزید طاقت ور بنایا جائے اور حکومت پر اس بات کے لیے دباو ڈالا جائے کہ وہ ایک جانب اپنے انتقامی رویے کو ترک کرکے تمام شہریوں کے ساتھ منصفانہ طرز عمل اختیار کرےاور دوسری جانب ملک کے عدالتی نظام میں ضروری اصلاحات کرے تاکہ اس نظام کی بعض کمزوریوں کو استعمال کرکے کسی انسان کی آزادی کو سلب نہ کیا جاسکے اور عوام کو انصاف کے حصول میں بے جاتاخیر کا ظلم نہ سہنا پڑے۔