اداریہ

منی پور: سماجی خلیج پاٹنے سے گریز کیوں؟

بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور گزشتہ کچھ عرصے سے سنگین تنازعات اور شورش کا شکار ہے۔ یہاں ایک طرف نسلی تنازعات، سماجی و سیاسی عدم استحکام اور انتہا پسند تحریکیں ریاست کی صورت حال کو انتہائی پیچیدہ بنا رہی ہیں تو دوسری طرف حالیہ دنوں میں راکٹوں اور ڈرونز جیسے جدید ہتھیاروں کا استعمال ایک نئے اور تشویش ناک رجحان کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ریاست کی یہ صورتحال نہ صرف منی پور بلکہ پورے ملک کے قومی اتحاد اور استحکام کے لیے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ یہاں مختلف طبقات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور جدید ہتھیاروں کا یوں بے دریغ استعمال پورے ملک و قوم کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
واضح رہے کہ منی پور کی آبادی مختلف نسلی اور قبائلی گروہوں پر مشتمل ہے، جن میں میتی، کوکی اور ناگا قبائل اہم ہیں۔ ان گروہوں کے درمیان زمینی وسائل، سیاسی نمائندگی اور تہذیبی شناخت جیسے مسائل پر طویل عرصے سے تنازعات جاری ہیں۔ 2023 میں ماہ مئی میں ہونے والے نسلی فسادات نے ان تنازعات کو مزید شدید بنا دیا ہے۔ خاص طور پر میتی اور کوکی قبائل کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی نے ریاست کو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ یہ سماجی تقسیم نہ صرف نظریاتی ہے بلکہ عملی طور پر مسلح تنازعات کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مختلف گروہ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں اور ریاست میں تشدد کی اس لہر کی وجہ سے یہاں کی عام زندگی بری طرح متاثر ہوچکی ہے۔ نسلی بنیادوں پر مسلسل بڑھتی ہوئی دشمنی نے منی پور میں مختلف سماجی گروہوں کے درمیان اعتماد کو پوری طرح ختم کر دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں منی پور میں راکٹوں اور ڈرونز جیسے جدید ہتھیاروں کا استعمال ایک نیا اور خطرناک پہلو بن کر سامنے آیا ہے۔ جہاں پہلے عام روایتی ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا تھا وہاں اب ڈرونوں اور راکٹ لانچروں جیسے مہلک ہتھیاروں کا استعمال مسلح گروہوں کے درمیان عام ہوتا جا رہا ہے۔ ڈرونز جو جدید جنگی ٹیکنالوجی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں، منی پور میں مختلف طبقات کے انتہا پسند عناصر اور باغی گروہ انہیں نہ صرف نگرانی کے لیے بلکہ حملوں کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ڈرونز مقامی طور پر تیار کردہ دھماکہ خیز مواد سے لیس ہوتے ہیں جو مخصوص اہداف پر درست حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان حملوں میں اکثر معصوم شہری بھی نشانہ بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے ریاست کے عام لوگوں میں شدید خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہو چکا ہے۔
خبریں ہیں کہ منی پور کے شورش شدہ علاقوں میں راکٹ لانچرز اور مارٹر جیسے بھاری ہتھیار بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ ہتھیار بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کا یوں بے دریغ استعمال عام لوگوں کے لیے شدید خطرے کا باعث بن رہا ہے۔ ان ہتھیاروں کے استعمال سے صرف مخالف طبقے کے مسلح گروہ ہی متاثر نہیں ہو رہے بلکہ اسکولس، دوا خانے اور دیگر عوامی مقامات بھی تباہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ منی پور میں ان جدید ہتھیاروں کا استعمال امن و امان اور جان و مال کے لیے سنگین خطرہ تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ یہ صورت حال وہاں پائی جانے والی نسلی اور سماجی تقسیم کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ مختلف قبائل اور گروہوں کے درمیان موجود تنازعات کو یہ ہتھیار زیادہ پیچیدہ اور خطرناک بنا رہے ہیں۔ میتی اور کوکی جیسے قبائل کے درمیان پہلے سے موجود نسلی کشیدگی اب راکٹوں اور ڈرونوں کے استعمال کی وجہ سے سنگین مسلح تنازع کی صورت میں شدت اختیار کر چکی ہے جس کے سبب ریاست کے حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔
ان سماجی گروہوں کے درمیان شدید گہری ہوتی ہوئی یہ خلیج منی پور کی عوامی زندگی کو نہایت بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ مختلف گروہ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جدید ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ایک طرف انسانی جانوں کا اتلاف ہو رہا ہے اور دوسری طرف یہاں کے سماجی تانے بانے بری طرح بکھر رہے ہیں۔
منی پور کی یہ صورتحال ملک کی قومی سلامتی کے لیے بھی ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ تنازع ملک کی اندرونی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے جو ملک کے دیگر شورش زدہ علاقوں پر بھی منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ جدید ہتھیاروں کا استعمال اور منی پور کے تنازعات کا پھیلاؤ اب کوئی مقامی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ قومی سطح کا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی یہ سوال بھی انتہائی اہم اور تشویش ناک ہے کہ ان قبائل کو یہ ہتھیار کہاں سے حاصل ہو رہے ہیں، چوں کہ غیر قانونی ہتھیاروں کی اسمگلنگ اور جدید ٹیکنالوجی کا اس طرح غیر قانونی استعمال ملک کی سلامتی کے حوالے سے بھی ایک اہم اور تشویش ناک مسئلہ ہے، اور حکومت کو اس مسئلے پرفوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
لیکن اس قدر سنگین اور تشویش ناک صورت حال کے باوجود ملک کی مرکزی حکومت اس پر وہ توجہ نہیں دے رہی ہے جس کا یہ مسئلہ تقاضا کرتا ہے۔ منی پور میں تشدد کے آغاز کے بعد سے ایک طویل عرصے تک خود وزیر اعظم کو اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ خود وہاں کا دورہ کریں۔ اس تنازع اور تشدد کے سبب ریاست میں امن و قانون کی جو درگت بنی ہوئی ہے اور منی پور کے باشندوں میں جو تقسیم اور خلیج پیدا ہوئی ہے اس بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کو فوری اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ مرکزی و ریاستی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ منی پور میں امن و امان کی بحالی کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔ اس میں فوری امن کی بحالی اور قانون کے نفاذ کی کارروائی کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی سطح پر دونوں طبقات کے درمیان مذاکرات و گفت و شنید کے ماحول کو پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نسلی گروہوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنایا جا سکے خاص طور پر مرکزی حکومت اور یہاں کے دستوری مناصب پر فائز افراد کو اپنے سر پر سوار انتخاب کے بھوت کو نکال کر اپنی منصبی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی طرف فوری متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔
ریاست اور ملک کے عوام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس صورت حال میں حکومت وقت پر مسئلے کے حل کے دباو ڈالنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے نسلی اور سماجی تنازعات کو ختم کرکے ریاست میں امن کی بحالی اور ہم آہنگی کے قیام کے لیے کام کریں۔ مقامی سطح پر سماجی تنظیمیں، نوجوان قیادت اور تعلیم یافتہ طبقہ تنازع کو کم کرنے اور سماجی امن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حکومت اور عوام دونوں کو اپنی اپنی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ منی پور میں امن و استحکام بحال ہو سکے اور ملک کی قومی سالمیت کو لاحق خطرات سے بچایا جا سکے۔