اداریہ

’بلڈوزر انصاف‘ کی سوچ پر عدالت عظمیٰ کی لگام

یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ سپریم کورٹ نے بتاریخ 2 ستمبر 2024 کو ایک اہم مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارک کیا کہ "کسی گھر کو صرف اس بنیاد پر منہدم نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں رہنے والا شخص کسی الزام میں ماخوذ ہے”۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی عندیہ دیا کہ وہ بلڈوزر کارروائیوں کے متعلق ملک گیر رہنما اصول وضع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ ریاستی حکومتوں کے اس عمل پر روک لگائی جاسکے جس میں وہ سزا کے طور پر ملزموں کے گھروں کو بے دردی سے منہدم کر دیتی ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل بنچ مختلف ریاستوں میں ہونے والی "بلڈوزر کارروائیوں” کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔
سماعت کے دوران بنچ نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی شخص کا گھر محض اس کے ملزم ہونے کی بنیاد پر منہدم نہیں کیا جاسکتا، بلکہ جسٹس گوائی نے تو آگے بڑھ کر یہ بھی کہا کہ اگر کسی شخص پر جرم ثابت ہوجائے تب بھی اس کا مکان منہدم کرنا جائز نہیں ہے۔ جسٹس گوائی نے واضح کیا کہ اس فیصلے کے ذریعے عدالت غیر قانونی تعمیرات کو تحفظ فراہم نہیں کر رہی ہے بلکہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ جو بھی انہدانی کارروائی ہو وہ قانون کے مطابق ہو۔ جسٹس وشواناتھن نے کہا کہ اس سلسلے میں ملک گیر رہنما اصول وضع کیے جانے چاہئیں تاکہ ہر ریاست میں یکساں قانون پر عمل درآمد کیا جا سکے۔
گزشتہ کچھ عرصے میں بی جے پی کی زیر اقتدار حکومتوں میں نشانہ بنا کر بعض مخصوص طبقات، خاص کر مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر کارروائی کے ذریعے منہدم کرنے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ بالخصوص اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں طرف سے حالیہ برسوں میں کئی مواقع پر مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں اپریل 2022 کے دوران ایک شخص کا گھر محض اس لیے زمین دوز کر دیا گیا کہ اس پر فرقہ وارانہ فسادات کے دوران تشدد میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ جب اس کارروائی پر اعتراض ہوا تو حکومت نے یہ کہہ کر اپنے عمل کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی کہ مذکورہ مکان غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا، حالاں کہ یہ کارروائی صاف طور پر انتقامی کارروائی تھی۔
مدھیہ پردیش کے ضلع کھرگون میں اپریل 2022 میں رام نومی کے موقع پر ہونے والے فسادات کے بعد متعدد مسلم خاندانوں کے مکانات منہدم کر دیے گئے۔یہاں بھی حکومت نے یہی دعویٰ کیا کہ یہ مکانات غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ تھے اور انہدامی کارروائی قانونی عمل کے تحت انجام دی گئی تھی۔ تاہم، کئی مقامی اور قومی سطح کے سیاسی اور سماجی کارکنوں نے اس اقدام کی بھی مذمت کی اور اسے مذہبی بنیادوں پر امتیاز اور انتقامی کارروائی قرار دیا۔
جون 2022 میں اتر پردیش کے شہر پریاگ راج میں ایک معروف مسلم تاجر کا گھر بلڈوزر سے منہدم کر دیا گیا، اس پر الزام تھا کہ وہ سیاسی مظاہروں کے دوران اشتعال انگیزی میں ملوث تھا۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ مکان غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا، لیکن ناقدین نے کہا کہ یہ اقدام محض سیاسی انتقام کے لیے کیا گیا۔ حالیہ دنوں مدھیہ پردیش میں ایک سیاسی لیڈر اور سابق وزیر کا مکان بھی اسی طرح کی انہدامی کارروائی کا نشانہ بنا۔ یہاں بھی حکومت نے یہی دعویٰ کیا کہ مکان غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا، لیکن کئی تجزیہ کاروں اور سیاسی جماعتوں نے اس کارروائی کو بھی سیاسی انتقام قرار دیا تھا۔ سینئر وکیل چندر ادے سنگھ نے اودے پور کے ایک کیس کا حوالہ دیا جہاں ایک شخص کا گھر اس بنیاد پر منہدم کر دیا گیا تھا کہ کرایہ دار کا بیٹا کسی کیس کا ملزم تھا۔ اسی طرح دہلی کے جہانگیر پوری کے علاقے میں بھی فرقہ وارانہ فسادات کے بعد کئی لوگوں کے مکانات منہدم کر دیے گئے جن پر فسادات بھڑکانے کا الزام تھا۔
اس معاملے میں ریاست اتر پردیش کی نمائندگی کرتے ہوئے، سالیسٹر جنرل آف انڈیا، تشار مہتا نے کہا کہ ریاست کا موقف واضح ہے کہ کسی شخص کے جرم میں ملوث ہونے کے الزام کی بنیاد پر اس کا مکان منہدم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جن معاملات کا ذکر یو پی حکومت کے خلاف دائر درخواست میں کیا گیا ہے ان میں خلاف ورزیوں کے نوٹس بھیجے گئے تھے اور قانونی عمل کے بعد ہی منہدم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جب کہ بے گھر ہونے والوں کا یہ کہنا تھا کہ اس طرح کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی، نہ انہیں نوٹس ملی اور نہ ہی کوئی وقت دیا گیا۔
درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل دشینت دوے نے حکومتوں کے اس عمل پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ وہ ملزموں کے گھروں کو بلڈوزر کے ذریعے منہدم کر رہی ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ گھر کا حق آرٹیکل 21 کے تحت زندگی کے حق کا ایک اہم پہلو ہے اور عدالت کو اس پر کارروائی کرنی چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بھی شخص بغیر کسی قانونی جوازکے بے گھر نہ ہو۔
اس موقع پر عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ غیر قانونی تعمیرات کو بھی منہدم کرنے کا ایک قانونی طریقہ ہونا چاہیے اور یہ کارروائی قانون کے مطابق ہی ہونی چاہیے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے، کیونکہ بہت سے معاملات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر لوگوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جو کہ سراسر غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ملک گیر سطح پر بلڈوزر کارروائیوں کے متعلق رہنما اصول وضع کرنے کا اقدام ایک اہم اور امید افزا قدم ہے۔ کیوں کہ حالیہ برسوں میں مختلف ریاستوں کی حکومتوں کی جانب سے ملزموں کے گھروں کو منہدم کرنے کے جو واقعات پیش آئے ہیں وہ نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ غیر انسانی بھی ہیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے ملک گیر رہنما اصول وضع کرنے کی کوشش سے بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالت قانون کی حکم رانی کو یقینی بنانا چاہتی ہے اور ایسی تمام غیر قانونی اور غیر منصفانہ کارروائیوں کو روکنا چاہتی ہے جو آئین کے تحت دیے گئے حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہوں۔ اگرچہ ملک کے عدالتی نظام سے توقع تو یہ تھی کہ وہ از خود اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے کر ریاستی حکومتوں کو پابند کرتی، لیکن تاخیر سے ہی سہی عدالت عظمیٰ کا یہ اقدام اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ قانون کی حکم رانی کو برقرار رکھنا اور شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کی نگرانی کرنا عدالت کا فریضہ ہے۔