مسلمان اس ملک سے محبت کرتے ہیں انہوں نے اس کی آزادی کے لیے، اس کو بنانے سنوارنے اور اس کی تعمیر و ترقی کے لیے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کی وادیوں پر، اس کے دریاوں پر، اس کے کھیتوں و کارخانوں پر اور اس کے تمام وسائل پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مودی، بھاگوت اور راہل گاندھی کا ہے۔ انہیں نہ تو کسی کے سامنے اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کی ضرورت ہے نہ اس پر کسی کی سند لینے کی ضروررت ہے۔ اگرچہ بھارت کی آزادی کے بعد ہی سے مسلمانوں کو اکثر شک کی نگاہوں سے دیکھا گیا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے اس میں کافی اضافہ ہوگیا ہے جس کے سبب صورت حال کافی پیچیدہ ہوگئی ہے۔ اس کا نتیجہ مسلمانوں کے مختلف گروہوں کی جانب سے حب الوطنی کے اظہار کے عجیب و غریب اقدامات کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
موجودہ حالات میں مسلمانوں کی جانب سے ظاہر کیا گیا طرز عمل بسا اوقات احساس کمتری یا احساس جرم میں مبتلا ہونے کا مظہر بن جاتا ہے، جہاں وہ اپنی حب الوطنی کو ثابت کرنے کے لیے مساجد میں تک قومی ترانہ گانے یا قومی تقریبات میں معمول سے ہٹ کر بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگتے ہیں۔ احساس کمتری یا احساس جرم کے تحت اس طرح کے اقدامات نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ اجتماعی طور پر بھی پوری قوم کے نفسیاتی و سماجی شعور پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اور ان اثرات کی وجہ سے پوری مسلم قوم کی خود اعتمادی مجروح ہوتی ہے۔ حب الوطنی ایک فطری اور دل سے نکلنے والا جذبہ ہے جو آدمی اپنے وطن اور اپنی قوم کے ساتھ رکھتا ہے۔ حب الوطنی کا یہ جذبہ وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا ہے، جس میں فرد کی زندگی کے تجربات، اس کی تعلیم و تربیت اور معاشرتی ماحول اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اور مختلف مذاہب تعلق رکھنے والے ملک کے تمام باشندے ہمیشہ ہی سے فطری انداز سے اپنے ان جذبات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ انہیں کبھی یہ ضرورت پیش نہیں آئی کہ انہیں اپنی حب الوطنی کو ثابت کرنے کے لیے اپنی عبادت گاہوں میں اس کا اظہار کریں۔ اس موقع پر مساجد میں قومی ترانہ گانے کے شرعی جواز و عدم جواز کی بحث بے محل ہے۔ اصل مسئلہ مسلمانوں کی وہ نفسیاتی کیفیت ہے جس نے انہیں اس کام کے لیے مجبور کیا ہے۔ اور یہ نفسیاتی کیفیت مسلمانوں کو مستقل طور پر احساس کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے جو بحیثیت ملت اسلامیہ بہت ہی بڑا نقصان ہے۔
بھارت کے آئین میں ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ یہ حقوق نہ صرف انسانی بنیادی حقوق ہیں بلکہ ایک سیکولر ریاست کے بنیادی اصولوں کے عکاس بھی ہیں۔ اگر مسلمانوں کے لیے اس طرح کا ماحول بنا دیا جائے کہ وہ اس کا شدید دباو اپنے اوپر محسوس کریں اور اس کے تحت اپنی حب الوطنی کے اظہار کے لیے اپنی عبادت گاہوں کے استعمال پر مجبور ہو جائیں تو یہ دراصل ان کے بنیادی مذہبی و شہری حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ایسے حالات میں مسلمانوں کو بھی اپنے بنیادی انسانی و دستوری حقوق اور ان کے استعمال کا مکمل شعور ہونا چاہیے۔ حب الوطنی کا غیر فطری اور مصنوعی اظہار جو کسی دباو یا سماجی مجبوری کے تحت کیا جائے حب الوطنی کے حقیقی جذبات کو مجروح کر دیتا ہے۔ اس طرح کا اظہار نہ صرف فرد بلکہ پوری قوم کی خود اعتمادی اور اجتماعی تشخص کو متاثر کرتا ہے بلکہ یہ سماجی ہم آہنگی کے لیے بھی فائدہ مند نہیں ہے۔ حب الوطنی کا صحیح اظہار وہی ہے جو فطری انداز سے، بغیر کسی دباو کے اور پوری خود مختاری کے ساتھ کیا جائے۔ یہ ملک کے تمام شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے ماحول کی تشکیل کریں جہاں ہر شہری اپنے وطن سے محبت اور وفاداری کا اظہار اپنے طریقے، اپنی مذہبی شناخت کی برقراری اور بغیر کسی بیرونی دباو کے کرسکے۔
اس معاملے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ حب الوطنی کا جو بیانیہ اور اس کے اظہار کا جو معیار فسطائیت کے علم برداروں نے طے کیا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اسے جوں کا توں قبول کرلیا ہے۔ حب الوطنی کا یہ فسطائی بیانیہ دراصل تنگ نظری اور کلیت پسندانہ رجحانات پر مبنی ہے، جس میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس بیانیے میں حب الوطنی کو بھی مذہبی شناخت سے جوڑ دیا گیا ہے اور دیگر مذاہب کے لوگوں سے غیر ضروری طور پر اپنی وفاداری ثابت کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو حب الوطنی کے اس تنگ نظر بیانیے کے ساتھ بہنے کے بجائے حب الوطنی کا ایک نیا ڈسکورس کھڑا کرنے کی ضرورت ہے جو مختلف اقلیتوں کی ثقافتی، مذہبی اور سماجی شناخت کے ساتھ ہم آہنگ ہو، اور جو حب الوطنی کے ایک جامع متوازن اور جمہوری تصور کو پیش کرے۔ انہیں چاہیے کہ وہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں اور مختلف طبقات کے ساتھ مکالمے کو فروغ دیں اور اپنے قول و عمل سے یہ بتائیں کہ ملک سے حقیقی محبت کیا ہے اور اس کا اظہار کیسے کیا جاتا ہے۔ یقیناً بعض اہم مواقع پر حب الوطنی کے علامتی مظاہر بھی اہم ہوتے ہیں لیکن یہی حقیقی حب الوطنی نہیں ہے۔ملک سے حقیقی محبت یہ ہے کہ ہم اس میں رہنے والے تمام انسانوں کو ایک بہتر زندگی فراہم کرنے کے لیے ان تھک محنت کریں۔
گذشتہ اسٹوری