15؍ اگست 1947 کو ہمارے ملک نے ایک نئے سورج کا استقبال کیا تھا۔ وہ سورج آزادی، خودمختاری اور جمہوریت کی کرنیں بکھیرنے والا تھا۔ آج 76 سال بعد، ہم اس روشنی کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا یہ وہی بھارت ہے جس کا خواب ہمارے مجاہدین آزادی نے دیکھا تھا؟
بھارت کی آزادی محض ایک دن کی بات نہیں تھی بلکہ ایک طویل جدوجہد اور قربانیوں کا ثمرہ تھی۔ گاندھی جی، جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، خان عبدالغفار خان، اشفاق اللہ خان، مولوی احمد اللہ شاہ اور ان جیسے بے شمار رہنماؤں نے اپنی زندگیاں قوم کے نام وقف کر دیں تاکہ آنے والی نسلیں ایک آزاد اور خود مختار ملک میں سانس لے سکیں۔
آج کا بھارت تکنیکی اور اقتصادی ترقی میں دنیا کے سامنے ایک مستحکم قوت کے طور پر کھڑا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری نظام کا حامل ملک، جہاں مختلف زبانیں، مذاہب اور ثقافتیں ایک گلدستے کی مانند جڑی ہوئی ہیں، اس کی سائنس، ٹیکنالوجی اور دفاع کے میدان میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔ چاند پر قدم رکھنے کا خواب اب حقیقت بن چکا ہے، اور ہماری معیشت، عالمی معیشت کے ایک اہم ستون کے طور پر جانی جاتی ہے لیکن اس ترقی کے پیچھے ایک اور کہانی بھی ہے جو کم ہی سنائی جاتی ہے۔ پنڈت نہرو کا جھکاؤ سوشلزم کی طرف تھا، جس نے ابتدا میں غریب عوام کو کسی حد تک فائدہ پہنچایا، مگر فطرت کے اصولوں سے ٹکراؤ کے سبب یہ نظریہ عالمی پیمانے پر ناکام ہو گیا۔ اس کے بعد پی وی نرسمہا راؤ نے سرمایہ داری کو درآمد کیا، اٹل بہاری واجپائی نے اسے پروان چڑھایا اور منموہن سنگھ نے اسے مزید فروغ بخشا۔ لیکن نریندر مودی نے اس نظام کو غالی سرمایہ داری میں تبدیل کر دیا۔ اس نظام میں سرمایہ دار اور حکومت کے درمیان ایک یارانہ ہو جاتا ہے اور دونوں مل کر عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ جہاں عام سرمایہ دارانہ نظام میں حکومت عوام کو سرمایہ دار کے استحصال سے بچاتی ہے، یہاں حکومت خود سرمایہ داروں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں سرمایہ داروں کا عروج اسی کا ثبوت ہے۔یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو نظریات مغربی ممالک میں تفریق و امتیاز اور عوام کا استحصال ختم نہیں کر سکے وہ بھارت میں کیسے کارگر ہوں گے؟ ان سارے نظریات میں خدا بیزاری اور انسانوں کی غلامی مشترک ہے۔ جمہوریت میں کہنے کو حکم راں عوام کے خادم ہوتے ہیں مگر حقیقت میں عوام حکم رانوں کے غلام بن جاتے ہیں۔ جب تک انسان اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نکل کر اپنے خالق و مالک اللہ کی بندگی میں نہیں آجاتا اس وقت تک اس پر حقیقی آزادی کا سورج طلوع نہیں ہوگا۔
خدا سے بے خوفی اور آخرت میں جواب دہی کا تصور نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں آج بے ایمانی اور بددیانتی عروج پر ہے۔ کرپشن کے ناسور نے وطن عزیز کو اس طرح جکڑ لیا ہے کہ اس سے نجات پانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ 2014 کے انتخابات میں کرپشن ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا تھا اور لوگوں نے اس وقت ’’نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘‘ جیسے نعروں سے متاثر ہوکر بھاجپا کو ملک کی زمام کار سونپی تھی۔ لیکن اقتدار ملنے کے بعد کرپشن کا خاتمہ تو دور الٹا اسے مزید بڑھاوا ملتا گیا ہے ۔
نفرت، فرقہ واریت، امیر وغریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج، بے روزگاری، صحت کے مسائل اور تعلیمی میدان میں پسماندگی جیسے مسائل آج بھی ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ آج جب ہم بعض میدانوں میں ترقی کے نئے سنگ میل عبور کر رہے ہیں تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم اپنے آئینی اقدار، انسانیت اور سماجی ہم آہنگی کو نظرانداز تو نہیں کر رہے ہیں۔
آزادی کا مطلب صرف برطانوی راج سے آزادی نہیں تھا بلکہ اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ ہم اپنے خیالات کا اظہار بلا خوف و خطر کرسکیں، آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کر سکیں اور صحافت بھی آزادانہ طور پر اپنا کام کر سکے۔ہمارے بانیان کے نزدیک آزادی کا مطلب ہر شہری کے لیے انفرادی، مذہبی اور صحافتی آزادی کا حق تھا۔ آزادی کا مفہوم صرف جسمانی نہیں تھا بلکہ اس میں ذہنی اور روحانی آزادی بھی شامل تھی۔ یہ وہی آزادی تھی جو ہمیں اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق دیتی تھی، اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی، اپنے عقائد پر عمل کرنے کی آزادی اور حقائق کو بیان کرنے کی صحافتی آزادی۔لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ آزادی محدود کر دی جا رہی ہے۔ انفرادی اظہارِ خیال کی آزادی کو دبایا جا رہا ہے، مذہبی آزادی کے دائرے کو تنگ کیا جا رہا ہے اور آزاد صحافت کو اب سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ اور اب نئے براڈ کاسٹ سروسیز (ریگولیشن) بل نے اس تشویش میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ یہ مجوزہ قانون تقریباً تین دہے قدیم کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک ریگولیشن ایکٹ ۱۹۹۵ء کو ختم کردے گا۔اس کا اطلاق صرف ڈیجیٹل صحافیوں پر نہیں بلکہ دیگر آن لائن مواد تیار کرنے والے افراد پر بھی ہوگا۔ جس کی وجہ سے ان کا آزادانہ طورپر کام کرنا ناممکن ہو جائے گا کیونکہ وہ صرف حکومت کی اجازت کے بعد ہی کام کرسکیں گے اور حکومت ہی طے کرے گی کہ کسے اجازت دی جائے اور کسے نہ دی جائے۔ یہ رجحان نہ صرف جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ملک کی اخلاقی بنیادوں کو بھی کمزور کر رہا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں ہم نے دیکھا کہ انفرادی اظہارِ خیال کی آزادی کو کس بے دردی سے کچلا جا رہا ہے۔ اختلافِ رائے کو دبایا جا رہا ہے اور ہر وہ آواز جو اکثریت یا حکومت کے خلاف اُٹھتی ہے، اسے خاموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان مسائل کا حل یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرتی، اخلاقی اور روحانی اقدار کو مضبوط کریں اور آزادی کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔جب تک ہم رب العالمین کے خوف اور آخرت میں جواب دہی کے تصور کو اپنی زندگیوں کی بنیاد نہیں بنائیں گے، تب تک ہم اس آزادی کا حقیقی مطلب نہیں سمجھ پائیں گے۔ اسلام کے نزدیک آزادی کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان اللہ کی بندگی اختیار کرے اور اپنے جیسے انسانوں کی غلامی کے قلادے گردن سے اتار پھینکے۔ اسلام انسان کو حقیقی آزادی عطا کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک ذمہ داری بھی سونپتا ہے کہ اس آزادی کا استعمال انصاف، مساوات اور انسانیت کی فلاح کے لیے کیا جائے۔ اگر ہم اس آزادی کا صحیح معنوں میں استعمال کریں تو ایک ایسے ملک کی تعمیر کر سکتے ہیں جس میں ملک کے کسی دور دراز حصے میں رہنے والے شخص کو بھی انصاف ملے گا۔ یہی وہ آزادی ہے جو نہ صرف ہمارے ملک بلکہ پوری دنیائے انسانیت کے لیے فلاح و کامرانی کا باعث بن سکتی ہے۔
گذشتہ اسٹوری