اداریہ

نفرت انگیز بیانات اور ہمارا رویہ

ہمارے ملک میں جب بھی انتخابات کا موسم قریب آتا ہے یا ایسے مسائل سامنے آجاتے ہیں جو مقتدر گروہ کے لیے نقصان کا سبب بن سکتے ہوں تو ان سے نمٹنے کا سب سے آسان اور کامیاب نسخہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کرنا یا متنازعہ بیانات جاری کرنا ہو گیا ہے۔ چنانچہ اب جبکہ ایک جانب ملک کی بعض اہم ریاستوں میں اسمبلی انتخابات قریب آچکے ہیں تو دوسری جانب آکسفام رپورٹ اور اڈانی کے متعلق ہنڈن برگ کی رپورٹ کے سبب ملک کی معاشی ومالیاتی صورت حال پر انتہائی سنگین سوالات کے کھڑے ہو گئے ہیں۔ لہٰذا بھارت کے چانکیاوں نے عوام کو انہی سوالات میں الجھانے کا کام شروع کر دیا ہے جن کی مدد سے وہ مسند اقتدار تک پہنچے تھے اور انہی چالوں کے ذریعے وہ اقتدار کی باگ ڈور کو پھر ایک بار اپنے قبضے میں رکھنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اور اپنے اس مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے ان کے مختلف نمائندے ہر سطح پر سرگرم ہو گئے ہیں۔
گزشتہ دنوں ملک کے دارالحکومت دلی کے جنتر منتر پر منعقد ہونے والی ہندو ریلی میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف کھلے عام اشتعال انگیزی کی گئی ہے۔ ہندوؤں کو باقاعدہ ان طبقات کے خلاف تشدد پر اکسایا گیا۔ انہیں اس بات پر عار دلائی گئی کہ ان کے پاس سبزی کاٹنے کی چھریوں کے علاوہ کچھ نہیں رہتا، لہٰذا انہیں کھلے عام ہتھیار رکھنے کی ترغیب دلائی گئی۔ یقیناً ہر قوم کے مذہبی قائدین اپنی قوم کے لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں لیکن یہاں تو دوسرے مذہب کے لوگوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے باضابطہ مذہب کا استعمال کیا گیا ہے۔ آئین ہند کی کھلے عام دھجیاں اڑائی گئیں۔ ہندو راشٹر کا اعلان ہوتا رہا لیکن اس کے باوجود نہ تو پولیس نے کوئی کارروائی کی اور نہ ہی انتظامیہ نے اس کا کوئی خاص نوٹس لیا۔ جبکہ دلی پولیس دوسرے طبقات کے معاملے میں کافی چوکس واقع ہوئی ہے اور اس نے بے شمار نوجوانوں کو بغیر کسی خاص وجہ اور بغیر کسی ثبوت کے مہینوں تک سلاخوں کے پیچھے ڈالے رکھا۔
اس سے قبل دو فروری کو راجستھان کے شہر باڑمیر میں یوگا گرو رام دیو نے اسلام اور عیسائیت کا ہندومت کے ساتھ تقابل کرتے ہوئے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف انتہائی بے بنیاد، نازیبا اور مکروہ الزامات لگائے۔ کثیر المذاہب ملک میں مختلف مذاہب کے درمیان تقابلی مطالعہ ایک اچھی بات ہے، اس کی مدد سے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ایک دوسرے کے بارے میں جاننے میں مدد ملتی ہے اور اس تقابلی مطالعے کو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کے قیام کے لیے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن یہاں یوگا گرو بابا رام دیو نے جان بوجھ کر یا مطالعہ اور علم کے بغیر محض بغض اور عناد کے تحت اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ایسی باتیں کہہ دیں جن کا حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ اس بیان سے بابا رام دیو کی یہی نیت واضح ہو کر سامنے آئی کہ وہ بس دونوں طبقات کے درمیان نفرت اور دشمنی کو بڑھانا چاہتے تھے۔ مقامی پولیس نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے۔
اسی طرح کے واقعات اور بیانات اس سے قبل بھی سامنے آتے رہے ہیں لیکن حکومت نے زبانی جمع و خرچ کے سوا ان کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ آر ایس ایس بھی اس طرح کے بیانات اور سرگرمیوں پر کھل کر مذمت کرنے کے بجائے بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے جبکہ دوسری جانب وہ مسلمانوں اور ان کی مختلف تنظیموں کے ساتھ بات چیت بھی کرنا چاہتی ہے۔ سنگھ کا یہی دوہرا رویہ اس کی سنجیدگی کے متعلق شکوک میں مبتلا کرتا ہے۔
ملک میں نفرت انگیز بیانات دینے والوں اور اس طرح کی تقاریر کرنے والوں کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ اس طرح کی سرگرمیاں صرف انہی کو مشکلات میں مبتلا نہیں کرتیں جن کے خلاف وہ نفرت کا پرچار کر رہے ہیں بلکہ نفرت کا پرچار کرنے والوں کو بھی بالآخر مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کیوں کہ نفرت کے بیچ سے صرف کانٹے ہی پیدا ہوتے ہیں پھول نہیں، اور کانٹا جب چبھتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اپنا کون ہے اور پرایا کون۔
اشتعال انگیر بیانات دینے والے افراد اور تنظیموں کے متعلق مسلمانوں اور ان کی مختلف تنظیموں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے یہ بیانات اور یہ سرگرمیاں مسلمانوں کے متعلق محض کسی غلط فہمی کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہیں۔ اور ہمیں اس حقیقت کے پیش نظر ہی اپنی حکمت عملی ترتیب دینی ہو گی۔ یہ بات درست ہے کہ ملک کا عام ہندو اسلام اور مسلمانوں کے متعلق غلط فہمیوں کا شکار ہے، اس لیے ہمیں جہاں ان تنظیموں اور افراد پر آئین و قانون کے تحت انتظامیہ کے ذریعے ممکنہ حد لگام کسنے کا کام کرنا چاہیے وہیں عام ہندووں کے ذہنوں میں بیٹھی ہوئی غلط فہمیوں کو بھی اپنے قول و عمل سے دور کرنے کی مقدور بھر کوشش کرنی چاہیے۔