بنگلہ دیش کا سبق
بنگلہ دیش سے موصولہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیشی حکومت کے خلاف کیے جانے والے زبردست مظاہروں میں سیکڑوں طلبا و نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد پورے ملک میں کرفیو کے نفاذ اور ذرائع ابلاغ پر پابندی کے بعد بالآخر وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفی دے کر ملک سے فرار ہو گئیں۔ ملک کے آرمی چیف نے حکومت کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور اعلان کیا کہ بہت جلد ایک عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی جو ملک کا نظم و نسق سنبھال لے گی۔
ہمارے پڑوس میں واقع ملک بنگلہ دیش کی سڑکیں پچھلے کئی دنوں سے فلک شگاف احتجاجی نعروں اور عوامی غیض و غضب سے لرز رہی تھیں۔ ملک میں ہر طرف مظاہرین کی چیخ و پکار، آنسو گیس کے دھوئیں اور پولیس کی لاٹھیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ یہ مناظر یقیناً دل دہلا دینے والے تھے۔ حکومت نے پورے ملک میں انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی ذرائع پر پابندی عائد کردی تھی جس کی وجہ سے وہاں کی خبریں باہر نہیں پہنچ رہی تھی، مختلف ذرائع سے چھن چھن کر جو اطلاعات آ رہی تھیں وہ ملک کی بھیانک تصویر پیش کرنے کے لیے کافی تھیں۔ اس صورت حال نے نہ صرف ملک کے داخلی استحکام کو درہم برہم کر دیا تھا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تشویش کا سبب بن رہی تھی۔
بنگلہ دیش میں جاریہ بحران کی اصل وجہ تعلیم و سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف عوامی احتجاج تھا جس کی وجہ سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران ایک محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے تین سو افراد ہلاک اور ہزاروں بری طرح زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت مختلف یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی ہے۔
بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم طویل عرصے سے نافذ العمل ہے۔ اس سسٹم کے تحت مخصوص طبقوں کو سرکاری ملازمتوں میں ترجیح دی جاتی ہے، ان میں سب سے بڑا یعنی تیس فیصد حصہ 1971 کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والے اور ان کے افراد خاندان کے لیے مختص ہے۔ ان کے بعد دوسری کیٹگریز ہیں، اس طرح کل ملا کر چھپن فیصد حصہ ریزرویشن کی نذر ہو جاتا ہے بچتا ہے محض چوالیس فیصد حصہ۔ حالیہ برسوں میں اس سسٹم کے خلاف عوامی ردعمل میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ اس سسٹم کو برخاست کرنے کا پرزور مطالبہ کرتا رہا ہے۔ ان کو شکایت ہے کہ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے میرٹ والوں کی حق تلفی ہو رہی ہے اور قابل افراد کو محرومی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جنگ میں حصہ لینے والوں کے نام پر حکومت اپنی پارٹی اور اپنے وفاداروں کو ملازمتوں پر تقرر کر رہی ہے۔ حکومت کی وفادار عدلیہ نے بھی اس معاملے میں اپنا منصفانہ کردار ادا کرنے کے بجائے حکومت کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے عوام میں عدلیہ کا اعتبار بھی ختم ہوا۔
دوسری طرف حکومت نے بھی احتجاجی طلبا سے گفتگو اور بات چیت کے بجائے اس کو طاقت سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے سخت ترین اقدامات کیے جن میں سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی، کرفیو کا نفاذ اور مظاہرین پر بدترین تشدد کا استعمال شامل ہے۔ لیکن آخر کار ظالم حکومت کو عوامی غیض و غضب اور طلبا و نوجوانوں کی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑا اور اپنے آپ کو مختار کل سمجھنے والی مطلق العنان حکم راں کو اپنی جان بچا کر بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اگرچہ فوری طور پر فوج نے حکومت کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور عبوری حکومت کی تشکیل کا اعلان بھی کر دیا ہے لیکن اس پر فوری طور پر عمل ہونا ضروری ہے، ورنہ ملک ایک دوسری ڈکٹیٹرشپ کے چنگل میں پھنس سکتا ہے۔ احتجاجی طلبا کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی فوجی حکومت قبول نہیں ہے کیوں کہ وہ ماضی میں اس کے انتہائی تلخ تجربات کو بھگت چکے ہیں۔ اس لیے اس وقت سب سے اہم سوال ملک میں امن و قانون کی صورت حال کی بحالی کا ہے۔ مختلف تجزیہ نگار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ عوامی لیگ اور شیخ حسینہ واجد کے حامیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یقیناً اس احتجاج کے دوران عوامی لیگ اور اس کے حامی غنڈوں نے احتجاجی طلبا پر بہت ظلم ڈھایا ہے لیکن اس کے باوجود ملک کے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس کا بدلہ عوام نہ لیں ورنہ ملک ایک اور مرتبہ خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اب یہ نئی بننے والی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بے گناہوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دے۔
بنگلہ دیش کے اس پورے واقعے کے ذریعے ہمیں عوام، بالخصوص طلبا کی اہمیت اور ان کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب یہ آپس میں متحد ہو کر اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو پھر کوئی بھی طاقت ان کے مقابلے میں ٹھیر نہیں سکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ظلم و جبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ کسی بھی سماج میں جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ ختم ہو کر ہی رہتا ہے۔ دنیا میں مطلق العنان حکم رانوں کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ فسطائی طاقتیں عوام کو کچھ عرصے تک ہی فریب میں رکھ سکتی ہیں اور جب اس فریب کا پردہ چاک ہوتا ہے تو حکم رانوں کواپنے قلعہ نما محلوں میں بھی جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔