اداریہ

براڈکاسٹ ریگولیشن بل 2024: آزادی اظہارِ رائے پر قدغن

میڈیا کو کسی بھی جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔بھارت میں میڈیا نے ہمیشہ سے جمہوری اقدار کو فروغ دینے، عوامی مسائل کو اٹھانے اور حکومت سے سوال کرکے اسے جواب دہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو جیسے ذرائع ابلاغ نے عوام کو معلومات، تفریح اور حکومت کے فیصلوں سے باخبر رکھنے اور عوام کے مسائل کو حکومت تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔آزادی کے بعد مختلف ادوار میں میڈیا پر برا وقت بھی آتا رہا اور بعض حکم رانوں نے اس کی آزادی کو ختم کرنے کی بھی کوشش کی۔ تاہم، 2014 میں بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد میڈیا نے خوف یا دولت کی حرص میں اس اہم فرض کی انجام دہی کو پوری طرح سے ترک کردیا اور حکومت پرتنقید یا اس سے سوال کرنے کے بجائے حکومت کی ترجمانی کے فرائض انجام دینے میں مصروف ہوگیا۔
گزشتہ پچہتر برس کے عرصے میں حکومت کو میڈیا اور اس میں پیش کیے جانے والے مواد کی نگرانی اور اس کی ضابطہ بندی کی ضرورت بھی محسوس ہوئی اور اس کے لیے مختلف قوانین بھی بنائے گئے۔1995 کا کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک ایکٹ اسی ضرورت کے تحت نافذ کیا گیا تھا، جس کا مقصد میڈیا میں نشر ہونے والے مواد کے معیار کو بہتر بنانا، غیر اخلاقی اور غیر مناسب مواد کی نشریات کو روکنا اور میڈیا کی نگرانی اوراس کو منضبط کرنا تھا۔موجودہ حکومت بھی بظاہر انہیں مقاصد کے پیش نظر براڈکاسٹ ریگولیشن بل 2024 پیش کرنا چاہتی ہے جس کا مسودہ ابھی کچھ لوگوں کے سامنے بحث، تبادلہ خیال اور مشاورت کے لیے پیش کیا گیا ہے۔یہ براڈکاسٹ ریگولیشن بل 2024 منظوری کے بعد 1995 کے کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک ایکٹ کا متبادل بن جائے گا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس براڈکاسٹ ریگولیشن بل 2024 کو پیش کرنے کا مقصد بھی میڈیا میں پیش کیے جانے والے مواد کے معیار میں بہتری، غیر اخلاقی و غیر مناسب مواد کی روک تھام اور مقامی زبانوں اور ثقافتوں کو فروغ دینا ہے۔ حکومت اس بل کے ذریعے میڈیا کی نگرانی اور ریگولیشن کا ایک جامع فریم ورک تشکیل دینا چاہتی ہے تاکہ قومی مفادات کا تحفظ بھی ہوسکے اور معاشرتی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیا جا سکے۔حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس بل کے نفاذ سے غیر مناسب مواد کی نشریات میں کمی آئے گی جس سے سماج میں مثبت قدریں فروغ پائیں گی۔ اس کے علاوہ مقامی زبانوں اور ثقافتوں کی ترویج اور تحفظ کے لیے بل میں رکھی گئی پابندیاں مقامی سطح کے مختلف معاشروں کے لیے مفید ثابت ہوں گی۔نیز، ناظرین کی شکایات کے ازالے کے لیے ایک منظم میکانزم قائم ہونے سے عوام کی شکایات کو تیزی سے حل کیا جا سکے گا۔
لیکن ان سب باتوں اور دعووں کے علی الرغم اس بل کا سب سے بڑا نقصان اظہار آزادی رائے پر جبری پابندی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ کیوں کہ بل کا جو مسودہ اس وقت سامنے آیا ہے اس کے مطابق سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر جو لوگ مختلف موضوعات پر ویڈیوز، مضامین اور مختلف قسم کا مواد تیار کرکے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ سب ڈیجیٹل نیوز براڈ کاسٹرس کے زمرے میں شامل ہوں گے اور حکومت کو ان کے مواد کی نگرانی، ان کی منظوری، ان پر روک لگانے اور انہیں ان پلیٹ فارموں سے حذف کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔2023 میں جب اس بل کا پہلا مسودہ پیش کیا گیا تھا اسی وقت سے عوام کو اس بات پر تشویش تھی کہ آیا جو صحافی یا عام افراد روایتی میڈیا سے وابستہ نہیں ہیں اور جو آن لائن نیوز پیش کرتے ہیں وہ بھی اس قانون کے دائرے میں شامل ہوں گے یا نہیں؟ لیکن اس وقت بل کا جو دوسرا مسودہ پیش کیا گیا ہے اس میں یہ بات بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کردی گئی ہے کہ وہ تمام لوگ بھی اس قانون کے دائرے میں شامل ہوں گے۔
2024 کے عام انتخابات کے نتائج نے حکومت اور عوام دونوں کومختلف یوٹیوبروں اور آزاد صحافیوں کی جانب سے سوشل میڈیا اور اس پر پیش ہونے والے ویڈیوز کی اہمیت سے اچھی طرح سے واقف کروا دیا ہے۔ حکومت نے سرمایہ داروں کی مدد سےمین اسٹریم میڈیا کو توپوری طرح اپنا ہمنوا بنا دیا تھا لیکن ان آزاد صحافیوں اور یوٹیوبروں کی پوری ٹیم نہایت بے باکی اور جرات کے ساتھ حقائق کو عوام کے سامنے پیش کرتی رہی اور انہی کی کوششوں نے بڑھتی ہوئی نفرت کی سیاست پر روک لگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے سبب حکومت نے اب ان تمام ذرائع پر کنٹرول حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، چنانچہ براڈ کاسٹ ریگولیشن بل 2024 دراصل اسی مقصد کے لیے لایا جا رہا ہے۔ حکومت نے اس بل کے مسودہ کو ابھی تک عوامی مباحثے کے لیے پیش نہیں کیا ہے، جبکہ اس بل کی زد عوام اور ان کے حق آزادی اظہار رائے پر پڑنے والی ہے۔اس بل سے سب سے بڑا خدشہ یہی ہے کہ اس سے ملک میں آزادی اظہار رائے پر قدغن لگے گی۔ بل کے تحت مواد کی نگرانی کے لیے قائم ہونے والی ریگولیٹری اتھاریٹی میڈیا ہاؤسز کے علاوہ ان تمام آزاد صحافیوں اور یو ٹیوبروں کے موضوع اور مواد کو سنسر کرسکتی ہے جس سے یقینی طور پر صحافتی آزادی متاثر ہو سکتی ہے۔اور یہ صورت حال نہ صرف ہماری جمہوریت کے لیے انتہائی خطرناک ہے بلکہ ملک میں جو لوگ نفرت کی سیاست کو روکنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ان کی پیش رفت پر بھی قدغن لگانے والی ہے۔ چنانچہ ملک کے عوام کو اس بل کے غیر جمہوری اور نقصان دہ پہلوؤں کو حذف کروانے کے لیے فوری متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔